ترک ڈرامے ارطغرل نے دلوں کے تار ہلا دیے ، اب نظروں میں کچھ جچتا ہی نہیں۔سوال مگر یہ ہے اس ڈرامے کا بنیادی مقصد کیا تھا ؟یہ ترک سماج کو سیکولرزم سے واپس اسلام کی جانب لانے کی ایک کوشش ہے یا یہ ترک قوم پرستی کا ایک ایسا ایڈ ونچر ہے جس کے مخاطب مسلمان معاشرے ہیں اور جس کا مقصد ان معاشروں کو لا شعوری طور پر یہ باور کرانا ہے کہ اسلام کی نشاہ ثانیہ کا ایک ہی راستہ ہے کہ عظیم روایات کی حامل ترک قوم کی قیادت قبول کر لی جائے؟اس ڈرامے کے شاہکار ہونے میں تو کلام نہیں ، لیکن اس کی شان نزول کیا ہے؟ اسلام سے محبت یا یورپی یونین کا حصہ بننے میں ناکامی کے بعد مشرق وسطی کی سیاست میں ترکی کی غیر معمولی دلچسپی ؟یاد رہے کہ مشرق وسطی کی سیاست کا میدان ہر وہ معاشرہ ہوتا ہے جہاں مسلمان بستے ہیں۔ ارطغرل ڈرامہ دیکھنے کا حاصل صرف یہ نہیں ہوتا کہ ٓاپ اسلامی روایات اور اقدار کے قریب تر ہو جاتے ہیں۔ اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ آپ ترک قوم سے محبت کرنے لگتے ہیں اور مرعوب بھی ہونے لگتے ہیں۔آپ کا لاشعور سرگوشی کرتا رہتا ہے کیا امت کی نشاۃ ثانیہ کا پہلا چراغ آج بھی کوئی ترک جلائے گا، ارطغرل بے نہ سہی ، اردوان بے ہی سہی۔یہ سرگوشی جب بڑھتی ہے تو اس کے اپنے سیاسی اور سماجی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ انہی اثرات کے باب میں حساسیت ہے کہ عرب دنیا میں ارطغرل کی غیر معمولی پزیرائی نے عرب حکومتوں کو پریشان کر دیا ہے۔ پریشانی کے اس عالم میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے 40 ملین ڈالر کی خطیر رقم سے ارطغرل کے جواب میں ایک ڈرامہ سیریل تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس کا نام ’’ ممالک النار‘‘ ہے جسے انگریزی میں Kingdom of Fire کہا جائے گا۔اس ڈرامے میںسلطنت عثمانیہ اور مصر کے درمیان جنگوں کا احوال ہے ۔ سلطنت عثمانیہ یہاں یقینا ایک ولن کے طور پر پیش کی گئی ہے۔اس ڈرامے میں سارا زور اس بات پر دیا گیا گیا ہے کہ سلطنت عثمانیہ کو مسلمانوں کا نجات دہندہ بنا کر پیش کرنے کی کاوشوں کی نفی کی جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ سلطنت عثمانیہ کا زمانہ عربوں کے لیے ایک تاریک دور تھا۔ ممالک النار میں عثمانی ترکوں کو ظالم ، سفاک ، وحشی اور درندے کے القابات سے یاد کیا گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے عربوں کے نزدیک اب بڑا چیلنج ایران نہیں ترکی بنتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک قسط میں ترکوں سے لڑنے والا عرب جنگجو تمن بے اپنے لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان ظالم سفاک وحشی خونی ترکوں نے ہماری آزادی چھیننے کا منصوبہ بنا لیا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ قاتل عثمانی صرف میری لاش سے گزر کر آپ تک پہنچ سکیں گے۔ لاس اینجلس ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے ممالک النار کے متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے پروڈیوسر یاسر حراب کا کہنا تھا کہ غیر معمولی جرائم کے باوجود اب سلطنت عثمانیہ کو اسلام کا محافظ بنا کر پیش کیا جا رہا تو اس کا صل چہرہ لوگوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔ سلطنت عثمانیہ کو ختم ہوئے ایک صدی ہونے کو ہے۔ اس دورانیے میں مسلمانوں کے حافظے سے سلطنت عثمانیہ کو پورے اہتمام سے کھرچ دیا گیا۔ یہ یاد داشت واپس لانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مورخین اور محققین کو عشروں لگ جاتے تب بھی شاید بات نہ بن پاتی لیکن ارطغرل نے سارا بیانیہ ہی بدل دیا۔شعوری سطح پر ارطغرل نے سلطنت عثمانیہ کی بھولی بسری داستان کو ایک سلگتا ہوا خواب بنا دیا۔ اب وہ مسلم معاشروں میں لو دے رہا ہے۔ہر طرف ارطغرل کی دھوم مچی ہے۔ خود عمران خان نے پی ٹی وی سے ارطغرل دکھانے کا اعلان کیا ہے لیکن آثار بتاتے ہیں کوالالمپور کانفرنس کی طرح ایک اور یوٹرن لینا ہی پڑے گا۔اس کی مگر افادیت نہیں ہو گی۔ جنہوں نے دیکھنا ہے وہ ساری ساری رات جاگ کر ارطغرل دیکھتے ہیں۔ارطغرل ، بامسے الپ اور ترگت بے کو آج آپ دنیا کے کسی معاشرے میں لے جائیں وہ جان محفل ہوں گے۔لوگ جانتے ہیں وہ محض ایک ڈرامے کا کردار ہیں لیکن یہ ڈرامہ محض ڈرامہ تھوڑی ہے۔ فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ذہن سازی میں امریکہ ایک کامیاب تجربہ ہے۔سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے زمانے میں ایسی فلمیں آئیں کہ امریکہ کی انسان دوستی پر رشک آتا تھا ااور سوویت یونین کے مظالم سے گھن آتی تھی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتاا ہے کیا ارتغرل بھی ترکی کا ایک ایسا ہی پراجیکٹ ہے؟اس ایک ڈرامے نے مسلمان معاشروں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ، ترک حکومت کی سفارتکاری کئی صدیوں کی محنت کے باوجود یہ نتائج حاصل نہ کر پاتی۔ خود میں نے یہ ڈرامہ دیکھ کر سوچا تھا کہ برصغیر نے تحریک خلافت چلا کر بالکل ٹھیک کام کیا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک خلافت کو میں نے پہلی مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد پڑھا۔ ارطغرل میں کچھ چیزیں قابل غور ہیں۔ترک قوم کا احساس تفاخر قدم قدم پر ظہور کرتا ہے اور دیکھنے والے کے لاشعور میں یہ بات بٹھا دیتا ہے کہ امت کی قیادت آج بھی ترکوں کے ہاتھ میں ہوتی تو شاید ہمارے حالات کچھ مختلف ہوتے۔اس ڈرامے نے سلطنت عثمانیہ کے بارے میں لوگوں کے سوچنے کے انداز بدل دیے۔ہر ڈرامہ اپنے دیکھنے والے پر کچھ اثرات چھوڑتا ہے۔ارطغرل کے پانچ سیز ن ایک صدی کی مسافت کو کھا جاتے ہیں اور ڈرامہ آدمی کو ایک سو سال پہلے ختم ہو جانے والی سلطنت عثمانیہ سے جوڑ دیتا ہے۔ارطغرل کے جواب میں ممالک النار کا بجٹ اگر چالیس ملین ڈالر ہے تو یہ گویا ہمیں بتا رہا ہے مشرق وسطی کی سیاست میں ارطغرل نے کیا غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں اور اسے کتنا بڑا چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ سوال اب وہی ہے کہ اس ڈرامے کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ اسلام یا ترک قوم پرستی؟ یہ کالم تو تمہید میں ہی تمام ہو گیا۔ یہ بڑا اہم سوال ہے اور اس پر تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔اس پر بات ہو گی تو خود ہمارا سماج بھی زیر بحث آئے گا اور اس کے فکری تضادات بھی موضوع بنیں گے ۔کیا عجب اس فکری مشق میں ہمیں کچھ نفسیاتی گرہیں کھولنے کا موقع بھی مل جائے۔