یورپین یونین نے دو ٹوک الفاظ میں پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ناموس رسالت قانون کے غلط استعمال کے مروجہ طریقہ کار کو تبدیل کرے اور اگر ہم نے اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ دلچسپی نہ دکھائی تو یورپی یونین کی طرف سے دی گئی جی ایس پی پلس کی مراعات ،جن کے ذریعہ پاکستانی تاجر بہت فائدہ حاصل کرتے ہیں واپس لے لی جائیں گی۔ اس تنبیہ کے بعد پاکستان کی انسانی اور اقلیتی حقوق کی وزیر ڈاکٹرشیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان نے اقلیتوں اور انسانی حقوق کے زمرے میں بہت سے مفید اور قابل ذکر کام کئے ہیں۔ اس جواب کا یورپی یونین پر کوئی اثر نہیں ہوا ، ان کا فیصلہ اٹل ہے کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال کا ازسرنو جائزہ لے کر فیصلہ کرے گی کہ آیا GSP Plusجیسی مراعات ملنی چاہییں یا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پچھلے کچھ عرصے میں اہم قوانین بھی مرتب کئے ہیں۔جیسے اینٹی ریپ کا قانون، پھر جیل اصلاحات پر کام کیا گیا ۔ حال ہی میں جرنلسٹ پروٹیکٹیشن کا قانون اور جبری گمشدگی قوانین کو کابینہ سے منظور کرایا گیا ہے۔چند روز قبل آئی جی پنجاب انعام غنی سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کا شمار شاید ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں بہترین سے بہترین قوانین بنائے جاتے ہیںلیکن ہم میں ان قوانین کو نافذ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ انعام غنی کی بات میں وزن تو ہے۔ قانون نافذ کرنے کا فریم ورک یا لائحہ عمل بنانے سے کچھ نہیں ہو سکتا جب تک قانون کے نفاذ کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے جس کے لئے ضروری ہے کہ پولیس سے لے کر عدلیہ تک عملداری کی ہر کڑی کو احتسابی عمل کا حصہ بنایا جائے۔جمہوریت صرف احتساب ہی کے ذریعہ نافذ کی جا سکتی ہے۔ پولیس کی کارکردگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ہمارا کام پالیسی نافذ کرنا ہے۔ پالیسی سازی حکمرانوں کا یا مقننہ کا کام ہے۔ اداروں کی کارکردگی بہتر بنانی ہے تو پالیسی سازی کے عمل میں بہتری لانا ہوگی۔ آئی جی انعام غنی کی دونوں باتیں اہم ہیں۔یعنی قانون کا نفاذ اور پالیسی سازی کے عمل کی اصلاح۔پچھلے دنوں ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ کو گرفتار کیا گیا۔ لاہور اور ملک کے باقی بڑے شہروں میںہنگامے ہوئے‘ ایک بہت بڑے طبقے کا ماننا تھا کہ یہ گرفتاری غلط کی گئی ہے۔ یہ پالیسی کس نے بنائی‘کیوں بنائی عوام کو اس سے بے خبر رکھا گیا۔ اس سے معاملات میں ابہام نہ صرف بڑھے بلکہ سوشل میڈیا پر وائرل خبروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ایسے میں وہ حلقے جو کبھی اس تنظیم کے مخالف تھے وہ اس کے حامی بن گئے ۔ انعام غنی نے بتایا کہ گرفتاری سے قبل تنظیم کی شوریٰٰ سے بات چیت کا آغاز کیا گیا تھا اور ان کے مطالبے کے مطابق پارلیمانی قرار داد کا مسودہ بھی تیار تھا جسے دکھانے کے لئے دو وزراء اسلام آباد سے لاہور تشریف لائے تھے لیکن بقول انعام غنی : شوریٰ کے اکابرین نے مسودے کو دیکھے بغیر مسترد کر دیا اور کہا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے سے کم پر وہ آمادہ نہیں ہونگے۔ انعام غنی کے مطابق شوریٰ نے مستقبل کے لائحہ عمل میں واضح طور پر ملک گیر مظاہروں کی نشاندہی کی تھی۔اس لئے قبل اس کے کہ ناخوشگوار حالات پیدا ہوتے ہم نے گرفتاری کا فیصلہ کیا۔ اندازہ کریں کہ پالیسی سازی کیسے ہو رہی ہے ۔گرفتاری سے جنم لینے والے اندوہناک واقعات ہی سے یورپی یونین کو پاکستان میں ناموس رسالت کے قانون پر ایک بار پھر بات کرنے کی جسارت ہوئی۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ریاست نے ایک بار پھر لال مسجد پر حملے کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ہماری بدقسمتی کا اندازہ لگائیں۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے میں کس قدر کامیابی حاصل کی ہے۔ ایک طرف پوری دنیا ہماری اس کارکردگی کی معترف ہے۔لیکن ہمارے داخلی معاملات اس بری طرح سے مسخ شدہ ہیں کہ اس کے عکس بین الاقوامی سطح پر ہمیں ملنے والی پذیرائی بھی دھندلا جاتی ہے۔ اسی لئے شاید کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی داخلی پالیسی کا مظہر ہوتی ہے۔ اگر پالیسی سازی کا عمل غیر جانبدار اور مثبت ہوتا تو حکومتی وزراء نہ صرف اپنے ساتھ پارلیمانی مسودہ لاتے بلکہ ان کے پاس پلان بی بھی ہوتا۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ مذہبی جماعتوں میں ناموس رسالت کو لے کر کس طرح کے جذبات پائے جاتے ہیں۔اگر حکومت کے پاس پلان بی ہوتا تو بات چیت کرنے کے دوسرے امکانات پیدا کئے جاتے اور اگر گرفتاری پلان بی تھا تو اس کا حشر ہم نے دیکھ لیا کہ کس طرح نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال سے ہماری سبکی ہوئی۔ اگر پاکستان کو مدینہ کی ریاست بنانا ہے تو اس کے لئے اسی طریقے پر عمل کرنا ہو گا جس پر ریاست مدینہ بنائی گئی تھی۔ وہاں یہودیوں‘عیسائیوں اور کفار کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ جہاں ریاستی معاملات میں ان کی مشاورت درکار ہوتی اس سے استفادہ کیا جاتا۔ اگر معاہدوں اور بات چیت کے ذریعے معاملات بہتر بنانے کی صورت نکلتی تو اسی طریقہ کار کو اپنایا جاتا۔رہ گئے مسلمان تو ان کے درمیان ریاست مدینہ میں نہ تو ہاتھ اور نہ ہی ہتھیار اٹھانے کا رواج تھا۔ لہٰذا ریاست پاکستان کو پہلے تو اپنے دشمن اور دوست میں فرق کرنا سیکھنا ہو گا ۔پھر تحمل سے کام لینا ہو گا، تحمل کی بہترین شکل باہمی گفتگو ہے۔ قوانین اور معاملات پر بحث ہونی چاہیے تاکہ غلط مروجہ افکار کو درست افکار سے بدلا جا سکے اور معاشرے میں رائج غلط تصورات اور طریقہ کار کا خاتمہ کیا جا سکے۔اگر یہ سلسلہ اپنایا جائے تو امید ہے کہ اس سے آگے چل کر پالیسی سازی اور قانون کے نفاذ کے عمل میں درستگی پیدا ہو۔ یورپی یونین کو ہم باتوں سے نہیں سمجھا سکتے اس کے لئے قانون سازی بھی کافی نہیں ہو گی۔ جب تک ہم جمہوریت کے دو اصولوں احتساب اور لاء اینڈ آرڈرکو نہیں اپناتے ہم اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بظاہر جیتنے کے باوجود ہارتے رہیں گے۔