یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کا مذہبی آزادی کے حوالے سے خوداپنا ریکارڈ کتنابہتر ہے اورافغانستان سے عراق اوردیگرخطوں میں وہ مذہب اسلام کے ماننے والوں کے ساتھ کس طرح خون کی ہولی کھیل رہاہے مگر اس کے باوجود امریکہ اور دنیابھرمیں مذہبی آزادی کویقینی بنانے کے لئے ایک کمیشن کے تحت رپورٹس بھی مرتب کرتاہے اوراپنی ضرورت کے مطابق وقتاََفوقتاََصدابھی بلندکرتارہتاہے ۔آج کل بھارت میں جس طرح مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھینی جارہی ہے اس پرامریکہ کے اسی کمیشن کی طرف سے نریندی مودی کے ہندو اتوا پر مبنی نظریے کے خوفناکی پر بھارت کو شدید تنقید و مشکلات کاسامنا ہے۔ واضح رہے کہ ہندوتوا نظریات پربھارت کوگزشتہ 20سال میں پہلی بار شدید امریکی مزاحمت کا سامنا ہے۔ مودی کی پالیسیوںکی وجہ سے بھارت ایک غیر متوقع پوزیشن میں آ گیا جہاں پر امریکہ اسکی سرزنش بھی کر رہا ہے ۔ امریکہ بھارت کی انسانی حقوق کی صورتحال پر نقطہ چینی کر رہا ہے، متنازع سٹیزن ایکٹ پر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کاکہناتھا کہ بھارت مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھے۔ امریکی نمائندہ اور ڈیموکریٹک رکن فرامیلا جے پال نے ایک مجوزہ قرارداد میں بھارت سے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کو آزادی دی جائے اور وہاں سے پابندی ہٹائی جائے جبکہ انسانی حقوق کے مبصرین اور غیرملکی صحافیوں کو دورے کی اجازت دی جائے۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے انتہائی تنقید کرتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ پر پابندیاں عائد کرنے کا بھی مطالبہ کردیا، کمیشن نے جو صرف امریکی حکومت کو تجویز دے سکتا ہے پالیسی مرتب کرنے کا اختیار نہیں رکھتا شہریت بل کو غلط سمت میں ایک خطرناک اقدام قرار دیا۔دوسری جانب بھارت نے ڈھٹائی کے ساتھ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن اس فیصلے پر متعصب ہورہا ہے جس کا اسے انتہائی کم علم ہے۔ ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سینٹر فار اسکالرز کے جنوبی ایشیائی ماہر مائیکل کوگلمین کاکہناہے کہ مودی کیاقدام سے سخت مایوسی پائی جاتی ہے کیوں کہ بھارت سیکولرازم، جمہوری روایت کوظاہری طور پر ختم کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر آزادی مذہب پر نظر رکھنے والے امریکی کمیشن یو ایس سی آئی آر ایف نے بدھ 19فروری 2020ء کو اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں مذہب کے نام پر استحصال کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شہریت کے متنازع قانون سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں پورے ملک میں احتجاج ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این آر سی مسلمانوں کے ساتھ تفریق کے لیے بنایا گیا قانون ہے۔واضح رہے کہ ریاست ہائے متحدہ کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی یا United States Commission on International Religious Freedom))امریکہ کی وفاقی حکومت کا ایک کمیشن ہے جسے 1998 ء کے آئینِ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے تحت بنایا گیا تھا۔ کمشنروں کو صدر اور ایوان بالا و ایوان نمائندگان زیریںمیں موجود دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت مقرر کرتے ہیں۔ اس کمیشن کی بنیاد ذمہ داریوں میں بین الاقوامی طور پر ہو رہیں مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے حقائق اور حقیقت حال متعلق رپورٹ تیار کرنا اور صدر، صدر نشین ریاست، اور کانگریس کو پالیسی سفارشات دینا شامل ہیں۔ تاہم یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کوکتنی آزادی حاصل ہے اورامریکہ میں عالم اسلام اورمسلمانوں کوکس جرم کی سزادی جارہی ہے ؟؟؟ کمیشن کی ایک رپورٹ میں شہریت کے قانون سی اے اے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ رپورٹ میں کہاگیاتھاکہ سی اے اے کے استعمال سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت میں سی اے اے کے نفاذ کے بعد اظہار مذہب کی آزادی متاثر ہوئی ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سی اے اے کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں بڑی سطح پر احتجاج ہورہے ہیں اور حکومت مظاہرین کے خلاف پر تشدد کارروائی کررہی ہے۔رپورٹ میں این پی آر یعنی نیشنل پاپولیشن رجسٹر پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔ مودی حکومت نے اپریل 2020ء سے پورے ملک میں این پی آر اپڈیٹ کرنے کا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔لیکن اس کے بارے میں بھارتی مسلمانوں کو تشویش لاحق ہے اور لوگ کہہ رہے ہیں این پی آر دراصل این آر سی کا پہلا قدم ہے اوراس پرعمل کرتے ہوئے ان کی مسلم شناخت اورانکی شہریت ختم کی جائے گی۔ امریکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ این پی آر کے بارے میں اس طرح کی تشویش ہے کہ اس قانون کے تحت حکومت شہریوں کا مذہب کی بنیاد پر رجسٹر تیار کرے گی جس سے مسلمانوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔امریکی کمیشن یو ایس سی آئی آر ایف ایف نے امریکی حکومت سے سفارش کی ہے کہ اس کے وفد کو بھارت کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے سفر اور لوگوں سے ملنے کی اجازت کے لیے بھارتی حکومت پر دبا ئوڈالا جائے اور بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے جرائم سے نمٹنے کے لیے پالیسی بنانے کے لیے مودی حکومت کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔یہ تنظیم پوری دنیا میں مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے امریکی صدر اور دیگر حکومتی اداروں کو اپنی سفارشات بھیجتی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارت کے دورے میں صرف ایک دن رہ گیاہے اور وہ 24فروری کو انڈیاکادورہ کررہے ہیں۔ لیکن ان کے دورے سے ٹھیک پہلے ایک امریکی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بھارت کے شہریت کے متنازعہ قانون سی اے اے اور این آر سی’’نیشنل رجسٹر آف سیٹیزنز‘‘پر اپنی تشویش پرمبنی رپورٹ شائع کردی۔ بھارت کے مسلمان توتھے ہی ہندئووں کے زیرعتاب تاہم دلت بھی انڈیا کے بہت ہی کم درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں جس کی وجہ ہندوئوں میں ذات پات کا نظام ہے جن میں وہ نچلے مقام پر ہوتے ہیں۔انڈیا میں دلتوں کو تحفظ فراہم کرنے والے قوانین کی موجودگی کے باوجود تقریبا 20کروڑ دلت شہریوں کو روزانہ کی ہی بنیاد پر متعصب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔رسمی طور پر ان دلت کو اونچی سمجھی جانے والی ذاتوں سے الگ تصور کیا جاتا ہے اور انھیں ایک ہی مندر اور سکول جانے کی اجازت نہیں ہوتی جہاں اونچی سمجھی جانے والی ذات کے ہندو جاتے ہوں۔ حتی کہ دلت اس گلاس یا کپ سے پانی اور چائے بھی نہیں پی سکتے جو دوسروں کے استعمال میں ہوں۔ان کو تعلیم اور ملازمت کے بھی یکساں مواقع میسر نہیں ہیں اور انھیں بڑے پیمانے پر استحصال، تعصب، حقارت اور تشدد جسے رویوں کا سامنا رہتا ہے۔