اگرکوئی ہمیں کرپٹ سوسائٹی کا فرد کہے تو کم از کم میرے پاس اس پھبتی کا کوئی جواب نہیں جہاں سبزی منڈی سے آپ تازہ اور معیاری سبزی نہ خرید سکتے ہوں مہنگے داموں مالٹوں کی پیٹی لے کر گھر پہنچیں تو پہلی دو قطاروں کے بعد تیسری میں دوسرے درجے کے چھوٹے چھوٹے مالٹے باغ کے ٹھیکے دار کے لالچ کی گواہی دیتے ملیں جہاں گوشت کا وزن بڑھانے کے لئے جانور ذبح کر کے اس کی شہ رگ میں پانی کا پائپ لگا دیا جائے ،جہاں سرخ مرچ میں سرخ اینٹیں پیس کر ملاکر وزن بڑھایا جائے،جہاں اوجڑی اور پھیپھڑوں کی آمیزش سے قیمے کی ایک نئی قسم ایجاد کی جائے جہاں دودھ کا ماخذ گائے بھینس بکریاں نہیں کیمیکل ہوں جہاں تھانوں میں باپ بیٹی کی عصمت دری کی دہائی دینے پہنچے اور عملہ اسے دودھ پتی چائے لینے بھیج دے ۔۔۔ ایسے معاشرے کے دفاع کے لئے دلائل کہاںسے ہوں۔ سچ یہی ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں آتا جو جاتے جاتے ہمیں کرپشن کی دلدل میں مزید دھنسا نہ گیاہو۔ہم بگاڑ کی ڈھلان سے لڑھک رہے ہیں اور ہر سیکنڈ ہماری رفتار بڑھا رہا ہے ،آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں مسجدیں آباد ہیں ،خیراتی ادارے ہزاروں نہیں لاکھوں افراد کو دو وقت کا کھانا کھلاتے ہیں ،یہ سچ ہے کہ ہم چیریٹی کے کاموں میں دنیا بھرمیں معروف ہیں لیکن یہ بھی جھوٹ نہیں کہ ہم کرپشن میں بھی مشہور ہیں اس تما م تر بگاڑ کے ساتھ میں پھر بھی پر امید ہوں کہ ہم لڑھکتے لڑھکتے کھڑے ہو سکتے ہیں،ہم کرپشن کی دلدل سے نکل سکتے ہیں اور میرے اس یقین کی وجہ پاکستان کی تین ہزار سات سو چھتیس کلومیٹر طویل موٹر ویز پر موجود وہ باوردی اہلکار ہیں جنہیں میں اور آپ موٹر وے پولیس کے نام سے جانتے ہیں ۔ ُآپ کسی ٹیکسی میں سفر کر رہے ہوں یا اپنے بھائی کزن کے ساتھ گاڑی میں کہیں گپ شپ کرتے جارہے ہوں وہ ڈرائیو کرتے کرتے اچانک سیٹ بیلٹ باندھنے لگ جائے تو جان لیجئے گا کہ وہ اب موٹر وے پر چڑھنے لگا ہے جہاں رعب کام کرتا ہے نہ دبدبہ مدد کو آتا ہے میرا موٹر ویز پولیس سے پہلا واسطہ انیس برس پہلے اس وقت پڑا جب میں دولہا بنا اپنی بارات لئے تربیلا جارہا تھا ۔کوہاٹ سے تربیلا کا فاصلہ لگ بھگ ایک سو چھیاسی کلومیٹر ہے لیکن ایک ہی دن میں آنا جانا پھر بھی مشکل ہے اس لئے بس ڈرائیور نے ایکسلیٹر پر کچھ زیادہ ہی دباؤ ڈال دیا بس نے رفتار پکڑی تو موٹر وے پولیس کے ریڈار میں آگیا اسے روک لیا گیا بہتیرا کہا گیا کہ کچھ خیال کرلیں ہم آپکے مہمان ہیں لیکن قانون پسند اہلکاروں نے ایک نہ سنی،سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا آپ بے شک مہمان ہیں ہمارے ساتھ چائے پیئں کھانا کھائیں لیکن اوور اسپیڈ کا ٹکٹ تو کٹے گا اور وہ ٹکٹ کٹا جو غالبا تیرہ سو روپے کا تھا۔ رپورٹنگ کے دوران موٹر وے پولیس کے بارے میں ’’حیران کن‘‘ اطلاعات ملتی رہتی تھیں کہ فلاں وزیر کا چالان ہوگیا فلاں توپ خان کو ٹکٹ تھما دیا گیایہ خبریں میرے لئے پرائز بانڈ نکلنے سے زیادہ خوش کن ہوا کرتی تھیں۔ ڈھارس رہتی تھی کہ کوئی ایک ادارہ تو ہے جو کفارہ ادا کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا تھا کہ یہ موٹر وے پولیس والے مریخ سے تو نہیں آئے یہ ہماری ہی طرح ڈھوک بنارس،گلبہار،لیبر کالونی اور لانڈھی کورنگی میں رہتے ہیں۔ ان میں یہجرات کہا ں سے آجاتی ہے کہ کسی افسر کسی وزیر کے سامنے کھڑے ہو کر ان کاچالان کر لیتے ہیں ؟ انہیں ٹرانسفر کا خوف نہیں ہوتا، انہیں نوکریاں پیاری نہیں ہوتیں ؟ رفیق آفریدی سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے یہ پوچھ ہی لیا،رفیق آفریدی اور میں کراچی یونیورسٹی میں ساتھ تھے ،پتلادبلا رفیق آفریدی شعبہ تاریخ میں آنرز کررہا تھا اور میں سوشل سائنسز کا طالب علم تھا۔ رفیق نے دو سال بعد یونیورسٹی کو خیر باد کہہ دیا،اس نے بی اے کی ڈگری لی اور موٹروے پولیس میں شمولیت اختیار کر لی ۔رفیق آفریدی دس گیارہ برس موٹر وے پولیس کا حصہ رہا وہ سب انسپکٹر تھا جب اس نے استعفیٰ دیا اور اپنا کاروبار کرنے لگا آجکل وہ اسلام آباد میں خوشحال زندگی گزاررہا ہے۔ اس سے ہفتے دو ہفتے بعد ملاقات ہوتی ہے ۔اس باراس سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ یار ! موٹر وے پر چڑھتے ہی سب سیدھے کیوں ہو جاتے ہیں ،لین میں چلتے ہیں انڈیکیٹر دے کر اوور ٹیک کرتے ہیں اسپیڈ کا بھی خیال رکھتے ہیں ،جواب میں رفیق نے کہا’’سادہ سی بات ہے وہ جانتے ہیں موٹر وے پولیس نہیںچھوڑے گی ‘‘۔ ’’یہی تو پوچھنا ہے کہ موٹر وے پولیس کے انسپکٹر کے پاس اتنی جرات کہاں سے آجاتی ہے کہ وہ ایک وزیر کا چالان کردیتاہے ؟‘‘میری بات پر رفیق نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’انسپکٹر تو بڑی بات ہے میں اے ایس آئی تھاجب ایک حاضر سروس بڑے صاحب کا چالان کیا،میں ایک ہی دن میں تین ڈی آئی جیز کے چالان کرچکا ہوں ،مولانا فضل الرحمان کی موجودگی میں ان کے ڈرائیور کو اوور اسپیڈ میں ٹکٹ دے چکا ہوں ۔۔۔رفیق بتانے لگا میں اے ایس آئی تھا جب میں نے ایک بڑے صاحب کی کار روکی ،کار کی نمبر پلیٹ پر کور چڑھا ہوا تھایعنی صاحب ڈیوٹی پر نہ تھے لیکن موجود تھے انہوں نے اپنا تعارف کرایا میں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا سر آپکا احترام سر آنکھوں پر لیکن آپکے ڈرائیور کی رفتار زیادہ تھی چالان ہوگااورمیں نے چالان کر دیا دوسرے دن میری آئی جی صاحب کے سامنے پیشی ہوگئی ،افتخار رشید آئی جی موٹر ویزپولیس تھے میں ان کے سامنے پیش ہوا سلیوٹ مارا تو پوچھا ہاں آفریدی! کیا ہوا تھا۔تم نے کیا بدتمیز ی کی تھی ،میں نے عرض کیا سر! بدتمیزی تو نہیں گستاخی ضرور کی تھی چونک پڑے کہنے لگے کیسی گستاخی ؟ میں نے کہا سرایک اے ایس آئی اتنے بڑے افسر کا چالان کرے گا تو گستاخی ہی کہلائی گی ،انہوں نے کہا ٹھیک ٹھیک ساری بات بتاؤ،میں نے سارا واقعہ سنا دیا انہوں نے فون پر اپنے پی اے کو بلایا اور میری طرف اشارہ کرکے بولے ’’آفریدی کوسی سی ون سرٹیفکیٹ اور پانچ ہزار روپے کیش انعام دو۔ پھر مجھ سے بولے دوبارہ ایسا ہو تو گاڑی کے بونٹ پر بوٹ رکھ کر چالان کاٹنا شاباش‘‘ یہ کہہ کروہ کہنے لگا؛کوہاٹی ! افسر شیر ہو ناتو فوج بھی شیر ہوتی ہے ‘‘۔میں نے ہنکارہ بھر کر اثبات میںجواب دیا اور سوچنے لگا ہمارا سسٹم آخر موٹر ویز پولیس کیلئے ہی شیر کیسے تلاش کر لیتا ہے۔ کہتے ہیںامید پر دنیا قائم ہے ہم بھی ایسے ہی شیروں کے انتظار میں جی لیتے ہیںکہ ہم اور کچھ کر جو نہیں سکتے !