دوستو! اپنا تو پختہ عقیدہ ہے کہ موجودہ دور بلکہ ہر زمانے میں زندہ دل ہونا ، زندہ ہونے سے بھی زیادہ ضروری رہا ہے۔ مولانا ابوالکلام فر مایا کرتے تھے کہ قدرت نے یہ کائنات چہکتے ہوئے رنگوں، گنگناتی ہوئی فضاؤں اور مسکراتی ہوئی کرنوں سے تخلیق کی ہے، اُترے ہوئے چہرے اور بجھے ہوئے ارمانوں والا فرد، اس رنگین و حسین مرقعے میں کھپ ہی نہیں سکتا۔ ایک شاعر کے بقول: ع اُس دور میں جینا لازم ہے جس دور میں جینا مشکل ہو لیکن ہمارے نزدیک: ع اُس دور میں ہنسنا لازم ہے، جس دور میں ہنسنا مشکل ہو مرحوم کنہیا لعل کپور کا دل فریب قول ہے کہ دوسروں کے اوپر ہنسنے کے لیے صرف ایک بتیسی کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ اپنے اوپر ہنسنے کے لیے ہمت اور بہت بڑے ظرف کا ہونا ضروری ہے۔ اس بات پہ تو تقریباً دنیا بھر کے دانش ور متفق ہیں کہ جب آدمی اپنے اوپر ہنسنا سیکھ لیتا ہے تو اس کی شخصیت مکمل ہو جاتی ہے۔ آئیے آج ارد گِرد کے مسائل پہ کڑھنے، اپنی ہلکی پھلکی سی محرومیوں کی بنا پر خود کو دنیا کا مظلوم ترین فرد تصور کرنے، بندے بندے سے بیوی کی بد خوئی کا گِلہ کرنے، افسر کی دل جوئی کی فکر، پچھلے بہتّر سال سے پرورش پاتی مہنگائی کا رونا رونے، ہابیل قابیل کے زمانے سے بگڑی ہوئی اخلاقیات کا سارا مُدعا نئی نکور نسل پہ ڈالنے، ازل سے بد تر چلے آ رہے ملکی و سیاسی حالات کا ذمہ دار اپنی مخالف سیاسی پارٹی کو قرار دینے کی بجائے، انہی حالات سے قطرہ قطرہ مسکراہٹیں اکٹھی کر کے ان سے قہقہے بناتے ہیں، اسی ماحول سے جُرعہ جُرعہ اُمید اور امنگ کشید کر کے اپنے اور دوسروں کے ماتھے پہ سجاتے ہیں ، موجود اور میسر صورتِ حال سے ریزہ ریزہ کرچیاں چن کر آئینے تشکیل دیتے ہیں۔ ٭سیر کو نکلو ، اس سے پہلے کہ پیٹ تم سے آگے نکل جائے۔ ٭شادی ایک ایسا معرکہ ہے کہ جس میں بندہ مر گیا تو شہید اور زندہ رہا تو شوہر۔٭قلم کا ایک نقطہ ہٹا دیں تو فلم بن جاتی ہے، ہمارے ہاں بیشتر فلمیں اسی طرح بنتی ہیں۔٭انارکلی کی ماں اکبر کے گھر میں آیا تھی، اکبر کا بیٹا بھی انارکلی کے گھر میں آیا تھا۔ ٭ زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں عمومی مشاہدے اور خصوصی تجربے کی بنا پر دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ساغر صدیقی کے اس شعر کا پہلا مصرع دنیا کی ہر سگھڑ سے سگھڑ بیوی کی زبان پر لکھا ہے اور دوسرا مصرع دنیا کے ہر اچھے سے اچھے شوہر کے دھیان میں بستا ہے۔ ٭گورنمنٹ کالج لاہور کا المیہ دیکھیے کہ وہ خود مختار حیثیت (Autonomous Body) حاصل کر لینے کے بعد بھی ’ گورنمنٹ کالج‘ کہلائے جانے پر مجبور ہے۔ ٭عورت چاہے شاعرہ ہی کیوں نہ ہو، بے وزن ہی اچھی لگتی ہے۔٭سکول کا بستہ پہن کے تو بچہ بستہ ب کا مجرم لگنے لگتا ہے۔٭دانت کے بغیر تو بندہ ڈانٹ بھی نہیں سکتا۔ ٭عمروں کے گناہ ’’عمروں‘‘ سے ختم نہیں ہو سکتے۔٭پچاس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بندے کے معاشرتی حالات ٹھیک ہونے لگتے ہیں تو مباشرتی حالات گڑ بڑ ہو جاتے ہیں۔٭یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی بھی بیوی اپنے شوہر کے ناجائز تعلقات کو تو برداشت کر لیتی ہے، مگر جائز کو نہیں۔ ٭ہمارے ہاں اکثر شاعر ادیب ہر چیز کے محتاج ہوتے ہیں ، سوائے تعارُف کے۔٭ایک طالب علم نے پرچے میں لکھا: احسان دانش اور جہان دانش دونوں سگے بھائی تھے، دونوں نے ادب میں بڑا نام پایا۔٭دوسرے طالب علم نے لکھا: مولانا حالی جب پیدا ہوئے تو تین سال کے تھے، استفسار پر کہنے لگا : عام بچہ تو اتنی سیانی حرکتیں نہیں کر سکتا۔ ٭پڑوسن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ دل اور گھر کے قریب رہتے ہوئے بھی بیوی نہیں ہوتی۔٭کسی کو کچھ دینے کے لیے چیز کا زیادہ ہونا نہیں ، ظرف کا وسیع ہونا ضروری ہے۔ ٭قلم کا سر جھکا ہوا ہو تو حرف بنتا ہے، قلم کار کا سر جھکا ہوا ہو تو حرف آتا ہے۔ ٭نماز کی اصل خوبصورتی یہ ہے کہ اسے ثواب کی بجائے ’سواد‘ کے لیے پڑھا جائے۔’عبادت‘ میں سے بندگی کی ’ب‘ نکل جائے تو پیچھے عادت ہی عادت رہ جاتی ہے۔ ٭ہمارے ہاں ہر غریب سمجھتا ہے کہ اس کے اوپر ’’جِن بھوک‘‘ کا سایہ ہے۔٭علم اور دولت کی آپس میں اس لیے نہیں بنتی کہ علم ، چند لمحوں میں دولت کی اوقات بتا دیتا ہے۔ ٭بد عنوانی اور بے احتیاطی کی سواریاں ڈھوتے ڈھوتے ہماری ریلوے کو ’ٹرین‘ ہیمبرج ہو چکا ہے۔ ٭کچن کو اندر اور باتھ کو باہر سے کُنڈی لگانے کا معقول جواز آج تک تلاش نہیں کیا جا سکا۔ ٭آج کے نوجوان والدین سے چھپ چھپ کر ’شب فون‘ مارتے ہیں۔ ٭وہ وائی فائی کی وجہ سے نہیں بلکہ وائف آئی کی وجہ سے پریشان ہے۔ ٭کرکٹ میں سے کردار اور کارکردگی کے دونوں ’ کاف‘ نکال دیے جائیں تو پیچھے رَٹ ہی رَٹ رہ جاتی ہے، جو ہم نے عرصے سے لگا رکھی ہے۔ ٭سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ پیسے بھی کم خرچ نہ ہوں۔ ٭ایک پٹھان کی زندگی میں سے نسوار اور شلوار نکال دی جائے تو پیچھے رہ کیا جاتا ہے۔٭ ایک انگلش میڈیم کی پڑھی ہوئی لڑکی پوچھنے لگی: ’یہ نواسی آپ بیٹی کی بیٹی کو کہتے ہیں یا ایٹی(80)کی بیٹی کو؟‘٭پانچ کے دونوں بیٹے آپس میں ڈھائی ڈھائی ہوتے ہیں۔٭’حوا ‘ اور ’حوالات‘ میں ہمیشہ ایک غلط فہمی کا فاصلہ ہوتا ہے۔٭غریب آدمی کی نشانی یہ ہے کہ اس کا کوٹ تنگ ہو جائے تو وہ ڈائٹنگ کے بارے میں سوچنے لگ جائے۔٭عورت، گواہی میں آدھی، آگہی میں پوری،گہرائی میں دُگنی اور گمراہی میں کئی گُنا ہوتی ہے۔ ٭’مریدوں ‘ کو پیروں کا استاد کر٭ذرا ’’کم‘‘ ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ٭یہ بچوں کی جو فیسیں ہیں یہ دل سے اٹھتی ٹیسیں ہیں ٭تیری دید اور میری عید دونوں کتنے ملتے جلتے ہیں ٭وہ مجھے چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا ’’برادری‘‘ کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا ٭تو بھی گریجوایٹ ہے، میں بھی گریجوایٹ تو بھی پرائیویٹ ہے، میں بھی پرائیویٹ دفتر میں تیرے واسطے خالی پڑی ہے سیٹ تو بھی اکاموڈیٹ ہو، میں بھی اکاموڈیٹ