گذشتہ ہفتہ کراچی میں گزرا۔ ٹی وی شوز کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں ان علاقوں میں جانے کا اتفاق بھی ہوا جہاںسے کبھی گزر نہ ہوا تھا۔ بلدیہ ٹائون ، اورنگی ٹائون، لانڈھی اور لیاری جیسے علاقوں میں جا کر اندازہ ہوا کہ یہاں پر بسنے والوں کو ابھی شہری ہونے کا سٹیٹس تک نہیں دیا گیایعنی انہیں بنیادی شہری سہولیات تک حاصل نہیں۔ سڑکیں، عام استعمال کا صاف پانی ، سیوریج کا نظام ، ٹرانسپورٹ ، مناسب اسکول اور بنیادی مراکز صحت، کچھ بھی تو دستیاب نہیں۔کچھ علاقے توایسے تھے جہاں نلکہ کھولیں تو سیوریج کا گنداپانی چلنے لگتا ہے، سیوریج ملا پانی نہیں ، سیوریج کا خالص گندا پانی، اور تھوڑی ہی دیر میں پورا گھر بدبو سے بھر جاتا ہے ۔ لوگوں سے ہم نے سوال کیا کہ جب نلکوں میں سیوریج کا پانی آ رہا ہے تو نہانے اور کپڑے دھونے کا پانی کہاں سے آتاہے؟ کراچی میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ یہاں پانی کی قلت ہے ۔ 1.2 بلین گیلن روزانہ کی بجائے شہریوں کو تقریبا آدھا پانی ملتا ہے ۔ کراچی میں پورا ہفتہ گزارنے ، لوگوں کے مسائل سننے اور حقائق اپنی آنکھ سے دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ شہر میں پانی کی قلت نہیں ، سرکاری پانی کی قلت ہے ۔ کراچی میں کوئی گھر ایسا نہیں جہاں پانی دستیاب نہیں فرق یہ ہے کہ پانی ٹینکرز والوں سے خرید کر استعمال کرنا پڑتا ہے اس کا مطلب یہ ہو ا کہ پانی موجود ہے مگر سرکار کے پاس اس پانی کو لوگوں تک پہنچانے کا نظام موجود نہیں۔ بلدیہ ٹائون میں ہم نے اپنی آنکھ سے لائینوں میں لگے کنٹینرز کو پانی بھرتے اور لوگوں کو بیچنے کے لیے روانہ ہوتے دیکھا۔کچھ جگہوں پر پائپ لائنوں میں ’’کنڈیاں‘‘ لگا کر گدھا گاڑیاں بھر بھر کر دو دو سو روپے میں بیچی جا رہی تھیں۔اورنگی ٹائون کے ایک علاقے میں گئے تو پتہ چلا کہ یہاں میٹھا پانی گھروں تک پہنچانے کا سرکار کا ایک نظام یوں موجود ہے کہ ہر مہینے دس دن کے لیے پانی پائپ لائنوں میں چھوڑا جاتا ہے تا کہ لوگ اپنی ضرورت کا پانی اسٹور کر لیں۔لیکن پائپ لائنوں کے جگہ جگہ سے ٹوٹے ہونے یا توڑ دیے جانے کے باعث وہ گھروں تک پہنچ نہیں پاتا۔ ہم نے نہایت دکھی دل کے ساتھ یہ منظر دیکھا کہ استعمال کا میٹھا پانی گلیوں اور سڑکوں سے ہوتا ہوا سیوریج کے نالوں میں جا گرتا ہے لیکن استعمال کے لیے لوگوں کو دستیاب نہیں ہو پاتا۔گویا پانی تو موجود ہے لیکن پانی کو لوگوں کے گھروں تک پہنچانے کا کوئی نظام موجو د نہیں ، دہائیوں پہلے جو نظام بنایا گیا تھا وہ تباہ ہو چکا ، مرمتی کام اور دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث کہیں کہیں اس کی باقیات اور نشانیاں رہ گئی ہیں اپنے بچوں کو یہ بتانے کے لیے کہ ان لائنوں میں کبھی پانی آیا کرتا تھا۔ میں حیران ہوں کہ کے فور کا منصوبہ کیسے کام کرے گا ، پانی کو صاف کر کے بڑی پائپ لائنوں کے ذریعے کراچی شہر تک تو لے آیا جائے گا لوگوں کے گھروں تک کیسے جائے گا جبکہ بیشتر علاقوں میں اس کا کوئی نظام ہی موجود نہیں۔ اس دورے کے دوران میری ملاقات شہری حکومت کے مختلف نمائندوںسے ہوئی۔ ضلع وسطی کے چیئرمین ریحان ہاشمی کے سامنے جب میں نے اپنے مشاہدات رکھے اور پانی کی کمی یا بد انتظامی کا رونا رویا تو انہوں نے اپنی مجبوریوں اور شکایات کا دفتر کھول لیا ۔ پھر وہ مجھے ایک پارک میں لے گئے جہاں انہوں نے دوسرے اداروں کے تعاون سے سیوریج کے پانی کو صاف کرنے اور اسے قابل کاشت بنانے کا منصوبہ دکھایا۔نہایت سادہ سے اس سستے منصوبے کے ذریعے سیوریج کے پانی کو ایک ٹینک میں جمع کرنے کے بعد ایک ایسی جگہ سے گزارا جاتا ہے جہاں فلٹر کا کام کرنے والے خاص قسم کے پودے لگائے گئے ہیں ، ان پودوںاور چھوٹے چھوٹے پتھروں کے بیچ سے گزرنے والا پانی دوسری سائیڈ سے باہر نکلتاہے تو بے بو اور بے رنگ ہو چکا ہوتا ہے جس سے پورے پارک اور اس میں لگائے گئے پودوں کو سیراب کیا جاتا ہے ۔ ریحان ہاشمی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اگر اسی پانی کو ایک مرتبہ اور اسی عمل سے گزار دیا جائے تو یہ پینے کے قابل بھی ہو سکتا ہے ۔لیکن چلیے پینے کے قابل نہ سہی ، گھریلو استعمال میں تو اسے آسانی سے لایا جا سکتا ہے ۔ اپنے گزشتہ روز کے کالم میں برادر عدنا ن عادل نے کاشت کاری کے دوران ضائع ہو جانے والے پانی پر اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے سمارٹ طریقوں کو متعارف کرانے کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ اگر سیوریج کے پانی کو صاف کرنے کے سادہ سے طریقے پر عمل کر کے کاشت کاری کے قابل بنا دیا جائے تو پانی کا بہت بڑا مسئلہ حل کیاجا سکتا ہے۔لیکن اس کے لیے سوئے ہوئوں کو جاگنا پڑے گا مگر وہ تو گہری نیند میں ہیں۔ پچھلے دنوں جب کچرا پیدا ہونے اور اٹھائے جانے کے اعداد و شمار نظر سے گزرے تو ایک سوال نے ذہن میں جنم لیا جس کا جواب بھی اس دورے کے دوران مل گیا۔ اعداد و شمار یہ تھے کہ کراچی میں روزانہ سولہ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے اور صرف آٹھ ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے باقی کا کچرا کہاں جاتاہے ، اگر سڑکو ں اور خالی پلاٹس میں ڈالنا شروع کر دیا جائے تو جلد ہی اتنے بڑے پہاڑ بن جائیں گے کہ زندگی گزارنا دوبھر ہو جائے گا ، ذہن میں سوال یہ تھا کہ پھر یہ کچرا کہاں جاتا ہے۔ اس سوال کا جواب کراچی میں اس وقت مل گیا جب ہر تھوڑے فاصلے پر دھواں اٹھتا دکھائی دیا اور گزرتے ہوئے سانس لینے میں دشواری ہوئی۔پوچھا تو پتہ چلا کچرے کو آگ لگانے کا کلچر یہاں عام ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی حل نہیں بچا۔ کراچی میں ہر جگہ کچرا جلایا جا رہا ہے جو قانونا جرم ہے اور یہ جرم جا بجا ہو رہا ہے ْیہاں تک کہ جو آٹھ ہزار کچرا سرکاری سر پرستی میں اٹھایا جا رہا ہے اسے بھی لینڈ فلتھ سائٹس پر لے جا کر کیمیکل چھڑک کر آگ لگا دی جاتی ہے ، ایسی ہی ایک سائٹ کے اطراف میں دھویں سے تنگ آ کر لوگ بیمار رہنے لگے ہیں اور جو افورڈ کرتے ہیں انہوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے ۔(جاری ہے )