اسلام آباد میں نہیں ، اب کے جاڑے کی یہ رت دلوں میں اتری ہے۔ خزاں نے مارگلہ کے جنگل کو اور حسین کر دیا ہے۔پت جھڑ کے اس موسم میں ندی کنارے ٹریل فائیو کی پگڈندی پر بکھرے خشک پتوں پر چلتے جائیے ، یہ راستہ فی کس سپرنگ سے آگے پرستانوں کو جاتا ہے۔لوٹتے لوٹتے اس شام کچھ دیر ہو گئی اور سردی سے سر بوجھل سا ہو گیا۔ گھر آ کر لحاف میں گھسا ہی تھا کہ فون بج اٹھا۔غلام علی خان صاحب کی کال تھی، کیسے ہو؟ کہا: ’’ تھوڑی سردی ذرا سا نزلہ ہے‘‘۔ کہنے لگے میں اتنے بجے اسلام آباد پہنچ رہا تھا ۔ میں نے کہا ،اب نہ سردی ہے نہ نزلہ ہے، زہے نصیب ، تشریف لائیے۔ رات کا پہلا پہر تھا، ایک ہوٹل میں بیٹھے بیٹھے غلام علی زیر لب گنگنانے لگے تو مجھے اپنے گلے کا خیال آیا جو دکھ رہا تھا۔ سوچا بر صغیر کا اتنا بڑا گلوکار جس کے فن کا سارا دارومدار ہی پھیپھڑوں اور گلے پر ہے ، یقینا کوئی اچھی دوائی لیتا ہو گا، یہ دوائی مجھے پتا چل جائے تو چیسٹ انفیکشن اور گلے کے درد سے نجات مل جائے۔الرجی تو کافی حد تک ویکسینیشن سے بہتر ہو چکی ہے لیکن جاڑے کی رت کا کوئی کیا کرے۔جتنی حسین ہے اتنی ہی قیامت خیز ہو جاتی ہے۔میں نے کہا خان صاحب : کبھی آپ کا گلا خراب ہوا ہو گا ؟ کہنے لگے : ہاں کبھی کبھی ، معمولی سا ، ایک دفعہ تو سانس کی تکلیف بھی ہو گئی تھی ۔ پھر آپ کون سی دوا لیتے ہیں؟ یہ سوال پوچھتے ہوئے میں نے موبائل اٹھا لیا کہ جو دوا یہ بولیں گے وہ میں لکھ لوں گا۔ کہنے لگے: بس کبھی کبھار تکلیف کے آثار ہوں تو ادرک ، دارچینی اور لونگ کا قہوہ پی لیتا ہوں، اور ٹھیک ہوجاتا ہوں۔ مجھے یاد آیا برسوں پہلے مارگلہ کے جنگل میں دور وادی کے اس پار برگد کے درخت کے نیچے رہنے والی طلسماتی شخصیت ’ اماں مصرو‘ نے بھی یہی قہوہ پلایا تھا۔ برسوں پہلے ،یہ سردیوں کے دن تھے ۔ سردیوں میں مارگلہ کے جنگلوں میں گھومنا قدرے آسان ہوتا ہے۔ دن اگر چہ چھوٹے ہوتے ہیں لیکن پسینہ نہیں آتا اور علی الصبح نکل جائیں تو شام سے پہلے واپسی ممکن ہوتی ہے۔ اس روز ہم کویت ہوسٹل سے نکلے اور قریبا تین گھنٹے بعد ہم ’ اماں مصرو‘ کی کٹیا میں تھے۔سردی سے ناک اور منہ سرخ ہو رہا تھا اور مجھے چھینکیں آ رہی تھیں۔ اماں مصرو نے کہا قہوہ پیو ٹھیک ہو جائو گے ۔ اس قہوہ میں کوئی جادوئی اثر تھا۔ واقعی طبیعت سنبھل گئی۔جس اشتیاق سے میں نے غلام علی سے سوال کیا تھا اسی تجسس سے میں نے پوچھا : اماں مصرو یہ قہوہ کس چیز کا تھا؟ اسی سادگی سے جواب ملا: ’’ پتر، یہ ادرک اور دارچینی کا قہوہ تھا۔عہد کیا ہاسٹل پہنچ کر یہ چیزوں لے آئوں گا اور روز یہ قہوہ پیوں گا ۔لیکن تلہاڑ کے پہاڑوں سے اترا تو نہ قہوہ یاد رہا نہ اس کے اجزائ۔ جوانی کے دن تھے ، انفیکشن کا ایک ہی علاج تھا: آگمینیٹین ، اور وہ نہ ملے تو کوئی اور اچھی سی اینٹی بائیوٹک۔قہوے اب کون بناتا؟ بچے ہوئے تو سردیاں مزید تکلیف دہ ہونے لگیں۔ ہر دوسرے ہفتے زکام ، نزلہ کھانسی اور پھر اینٹی بائیوٹک کا ایک پورا سیشن۔ سرگودھا جانا ہوا تو وہاں کے قابل ترین چائلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر نوید گلزار نے مشورہ دیا اسلام آباد میں کہیں ڈاکٹر جے کرشن ہوتے ہیں ان کے پاس جائیے۔ڈاکٹر جے کا کلینک تلاش کیا تومعلوم ہوا اگلے پانچ ماہ تک اپائنمنٹ ہو چکی ہیں۔اتفاق سے پمز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم دوست تھے انہیں فون کیا۔انہوں نے اپنا سٹاف افسر ساتھ بھیجا اور ہم ڈاکٹر جے کرشن کے پاس پہنچ گئے۔مجھے حیرت ہوئی نہ کوئی ٹیسٹ نہ کوئی اینٹی بائیوٹک۔کہا شہد پلاتے رہا کیجیے اور بھاپ دیتے رہیے۔ ڈاکٹر جے ڈاکٹر نہیں مسیحا ہے جس کے چھونے سے مریض شفا یاب ہو جاتا ہے۔ ایک بار بچے بیمار ہوئے اور ڈاکٹر جے یہاں نہیں تھے۔ معلوم ہوا ڈاکٹر حیدر شیرازی بھی بڑے قابل پروفیسر ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹر جے کے شاگرد ہیں۔ ہم وہاں پہنچ گئے۔ وہی ہوا۔ معمولی سی دوا ، شہد پر اصرار اور بھاپ کی تلقین۔کوئی اینٹی بائیوٹک نہیں۔ چند روز گزرے بیٹی کو پھر بخار ہو گیا۔ ہم پھر ڈاکٹر شیرازی کے پاس چلے گئے۔ڈاکٹر شیرازی نے اپنے لیپ ٹاپ پر ہسٹری دیکھی ، پھر کہا : آپ کیوں آ گئے؟ آپ کے پاس زیادہ پیسے ہیں فیس دینے کے لیے۔ دو ہزار میری فیس ہے آ پ نے خواہ مخواہ یہ فیس دینی ہے مجھے۔ انہوں نے اچھا خاصا ڈانٹ دیا۔میں نے کہا ڈاکٹر صاحب میں نہیں لایا ان کی ماں لائی ہیں۔ چنانچہ اب ان کی ناراضی کا رخ میری بجائے دوسری جانب ہو گیا۔ ایک کاغذ پر انہوں نے لکھ کر بتا دیا کہ جب سردی آئے گی تو بچوں کو یہ یہ ہو گا اور آپ نے اس صورت حال میں شہد اور فلاں فلاں چیز استعمال کرنی ہے میرے پاس نہیں آنا۔ ہم جانے لگے تو کہا : باہر سے اپنی فیس واپس لیتے جائیے۔ ڈاکٹر جے اور داکٹر شیرازی جیسے انتہائی سینیئر پروفیسر ڈاکٹرز کے دیسی نسخوں کی وجہ سے میرے بچے اب اللہ کا شکر ہے تندرست ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ پچھلے ماہ مجھے چیسٹ انفیکشن ہوا تو برادرم سبوخ سید نے بھی یہی نسخہ بتایا تھا اور دو دن یہ قہوہ ینے سے چیسٹ انفیکشن ختم ہو گیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔مائی مصرو کے قہوے کی طرح یہ قہوہ بھی بھول گیا۔اب استاد غلام علی خان نے بھی اسی قہوے کی فضیلت بیان کی تو ساری باتیں یاد آنے لگیں۔پرسوں شدید دھند میں راول جھیل چلا گیا۔ گرم گاڑی سے نکلا تو اندازہ نہیں تھا اتنی سردی ہو گی۔جھیل سے واپس آیا تو ایک کپ قہوے کا پیا۔ جادئی قہوہ۔ مائی مصرو ، سبوخ سید اور غلام علی خان والا قہوہ۔ ہم ایلو پیتھک کا نشہ کرنے لگے ہیں۔ ایلوپیتھک کی خوبیاں بھی اپنی جگہ لیکن ایلوپیتھک کے علاوہ بھی ایک دنیا ہے۔جب ایلو پیتھک نہیں تھی تب بھی لوگوں کا علاج ہوتا تھا اور وہ تندرست ہو جاتے تھے۔ہم نے اپنے ہاتھوں، صدیوں پرانے اپنے مقامی طبی ورثے کو تباہ کر دیا ۔اب ہم ایلو پیتھک، اس کے سائید ایفیکٹس اور میڈیسن کمپنیوں سے پیسے لے کر مہنگی ادویات لکھنے والے ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ہے کوئی ہم سا؟