آج چھ جنوری ہے، نئے سال کا چھٹا دن۔ پچھلا سال گزر گیا، نئی امیدیں لئے نیا سال آ گیا ہے۔اگلے روز ایک دلچسپ میم سوشل میڈیا پر دیکھا کہ کسی اجنبی سیارے کی مخلوق (ایلینز)آپس میں باتیں کر رہے ہیں، ایک نے ٹیلی سکوپ سے دنیا میں جشن مناتے لوگوں اور آتش بازی کو دیکھا اور دوسرے سے پوچھا کہ یہ لوگ اتنے ایکسائٹیڈکیوں ہیں؟، کیا اس لئے کہ ان کے سیارے نے اپنا ایک چکر پورا کرلیا ہے، اس میں اتنا خوش ہونے والی کیا بات ہے ؟ دوسرا طنزاً کہتا ہے، میں تو پہلے کہتا تھا کہ انسان بے وقوف مخلوق ہے۔ نئے سال کی خوشیاں اور جشن منانے کا جواز ہے یا نہیں، اس میں عقلمندی ہے یا بے وقوفی، اس بحث سے قطع نظر مجھے یہ مثبت رویہ لگتا ہے ۔ نئے سال کا خوش دلی سے استقبال کرنا اور نئی امیدوں اور جوش وولولے سے نیاآغاز کرناخوش آئند ہے۔ دسمبر میں بہت سی مایوس کن ، ٹوٹے دلوں والی قنوطیت آمیز شاعری بھی گردش کرتی ہے۔ نئے سال کے لئے بھی کئی تھکے ہوئے ، مردہ دل شاعروں نے شعر کہہ رکھے ہیں کہ نئے سال میں کیا ہونا ہے، وہی دن رات ہیں، وہی سب کچھ وغیرہ وغیرہ۔اسی طرح بعض لوگ نیو ائیر ریزولیوشن کی بھی مخالفت کرتے اور اس کامذاق اڑاتے ہیں کہ ہونا کچھ نہیں اور ہر سال یہ عہد کر لیا جاتا ہے وغیرہ ۔ میرے نزدیک یہ ہاری ہوئی ، شکست خوردہ ذہنیت ہے جو بے عملی اور ہتھیار پھینک دینے کی سوچ ظاہر کرتی ہے۔ بھیاجی،ہم تو نئے سال کا کھلے دل سے استقبال کرتے ہیں۔ سال کی آخری شام اپنے گزرے روزوشب کاجائزہ لیتے، اپنا احتساب کرتے ہیں۔ ہر نئے سال کے لئے ہم اپنے اہداف (Goals) سیٹ کرتے ہیں، نیو ائیر ریزولیوشن کبھی باقاعدہ تحریر اور کبھی غیر رسمی انداز میں طے کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان اہداف پر سال بھر باقاعدگی سے عمل نہیں کر پاتے۔ زندگی کا سفر کچھ ایسا تیز رفتا ر اورتبدیلیاں لئے ہے کہ بہت سی سوچی ہوئی چیزیں رہ جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود کچھ نہ کچھ معاملہ ہوہی جاتا ہے۔ سال کی ابتدا میں اگر وزن کم کرنے کا عہد کیا ہے توکمی نہ آئے ،پھر بھی کچھ نہ کچھ بہتری آتی ہے۔ وزن کم نہیں ہوتا تو بڑھتا نہیں،متوازن صحت مند خوراک روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ اپنی صحت کے حوالے سے آدمی متفکر رہتا ہے تو باقاعدگی سے ادویات لیتا اور ریگولر چیک اپ کرائے رکھتا ہے۔ اگر سرے سے کچھ سوچا اور طے ہی نہ کیا جائے تو پھر سب کچھ تلپٹ رہ جائے۔ سال کے آخر میں پتہ چلتا ہے کہ صحت کا ہر انڈیکیٹر پہلے سے زیادہ خراب ہوگیا ۔اہداف بنانے اور کوشش کرنے سے زندگی میںچند فیصد سہی، اچھی چیزیں شامل ہوجاتی ہیں۔ کوئی نیک عمل،ذاتی کمزوریوںمیں تھوڑی بہت کمی، خدمت خلق کے حوالے سے دو چار اچھائیاں وغیرہ وغیرہ ۔ نیو ائیر ریزولیوشن (New Year Reolution)کے لئے کوئی پابندی نہیں کہ صرف سال کے پہلے دن ہوسکتا ہے۔ آپ کسی بھی وقت ایسا کر سکتے ہیں۔ خاص کر ابتدائی دو ہفتوں میں تو یہ کسی بھی دن ہوسکتا ہے۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے نئے سال کو منظم کرنا ہے، اسے کسی ڈسپلن میں لانا اور وقت کے دھارے میں بہتے رہنے کے بجائے اس میں تیر کر اپنی طے شدہ منازل تک پہنچنا ہے۔یہ کمٹمنٹ کسی بھی نوعیت کی ہوسکتی ہے، اس کے مختلف پہلو بھی ہوسکتے ہیں اور کسی ایک خاص مقصد پر تمام فوکس بھی رکھا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک ہر نئے سال میں نیوائیر ریوزولیوشن بنانا چاہیے اور جس حد تک ہوسکے ، اس پر عمل کی کوشش بھی۔ دراصل بنیادی طور پر یہ زندگی کو بیلنس کرنے کا نام ہے۔اپنی زندگی میں توازن لانے اور اپنی زندگی اور شخصیات میں شامل غیر ضروری، غلط اور نامناسب چیزوں کو ختم کرنے کی سوچ ہی نیوائیر ریزولیوشن کی وجہ بنتی ہے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ نیوائیر ریزولیوشن میں مختلف پہلو طے کر لئے جائیں ۔ بیک وقت ان پر کام کیا جائے، اپنی زندگی،کیرئر، صحت، فیملی (خاص کرلائف پارٹنر اور بچے)اور سب سے اہم یہ کہ اپنی آخرت کا سامان اکھٹا کرنے کے لئے کچھ سوچ لیا جائے۔ چیریٹی کے حوالے سے ٹارگٹ بنایاجائے، خلق خدا کے لئے خود کو مفید بنایا جائے، زندگی میں نیا نیک عمل زندگی شامل ہو،عبادات میں بہتری وغیرہ ۔ پچھلے سال ایک تحریر شیئر کی تھی اور پھر اس کے مزید پہلوئوں پر بھی لکھا تھا۔ یہ’’ فور برنر‘‘ تھیوری یا زندگی کے چار چولہوں کا تصور ہے۔ ہمارے ہاں سردیوںمیں اس تھیوری کو سمجھنا بہت آسان ہے کیونکہ گھروں میں گیس کی قلت ہوتی ہے اور ایک ہی کنکشن سے کبھی کھانے پکانے کے لئے چولہا جلانا پڑتا ہے اور کبھی گرم پانی کی نیت سے گیزر اور کسی وقت کمرہ گرم کرنے کے لئے گیس ہیٹر یا چھوٹے برنر جلانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنی ضرورت اور گیس کی کمی بیشی کو دیکھتے ہوئے ہمیں کبھی ایک چیز چلانے کے لئے باقی سب کچھ بند کرنا پڑتا ہے۔ کم وبیش یہی معاملہ زندگی کے ساتھ ہے۔ اس کے چار چولہوں کو کیرئر، صحت، فیملی /دوست احبا ب اور بندگی سمجھ لیں۔ آپ تجربہ کر کے دیکھیں، اپنی مصروف زندگی کے شیڈول میں سے دو ڈھائی گھنٹے نکال کر بیٹھیں۔ باقاعدہ کاغذ قلم یا اگر چاہیں توموبائل کے نوٹس یا لیپ ٹاپ پر بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔ کچھ ورکنگ کریں اور سوچیں کہ آپ کی زندگی کے ان چاریا پانچ شعبوںمیں کیا کچھ چل رہا ہے ؟ کہاں بہتری کی گنجائش ہے اور کہاں پر ٹھیک چیزوں کو جاری رکھنے کی ضرورت۔ اپنے آپ سے سوال پوچھیں ،میری جاب کیسی جا رہی ہے؟ اس میں ترقی کے کتنے امکانات ہیں، کیا نیا اور بہتر آپ کر سکتے ہیں؟ اگر جاب روٹین کی ہے اور کوئی بڑا جمپ لگانا ممکن نہیں تو اس کے ساتھ کچھ اور کر سکتے ہیں یا نہیں؟ آج کل کی مہنگائی میں بیشتر لوگوں کا ایک کام سے گزارا نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت میں کوئی جز وقتی کام یا جز وقتی کاروبار وغیرہ کا سوچیں۔ اس کے لئے پورا پلان بنائیں، تجربہ کار لوگوں سے مشاورت کریں۔ ممکن ہو تو فوری بزنس کرنے کے بجائے جو لوگ پہلے سے یہ کام کر رہے ہیں، ان کے ساتھ کچھ عرصہ گزاریں ، بے شک ملازمت کی صورت میں۔ سب اونچ نیچ، پیچ وخم سمجھ کر کوئی نیا کام کریں، عجلت میں نقصان اٹھا بیٹھیں گے۔ اپنی صحت پر ضرور توجہ دیں کیونکہ آج کل ہر ایک لائف سٹائل بگڑ چکا ہے، دیر سے سونا، نیند پوری نہ ہونا، ورزش کے لئے وقت نہ نکالنا، غیر صحت مند کھانے وغیرہ ۔ اس سال کم از کم یہ عہد تو کریں کہ اپنی بری ، ناگوار اور نقصان دہ عادات تو ختم یا کم کرنی ہی ہے، لیکن ساتھ اپنے جسم کی تازہ ترین صورتحال ضرور جانیں۔ دو تین سادہ سے ٹیسٹ ہیں، وہ کرائیں تاکہ آپ کو اپنے کولیسٹرول کا پتہ چل سکے، ایک ٹیسٹ جسے لیپڈ پروفائل Lipid Profile کہتے ہیں، وہ کرائیں۔ اسے منہ نہار کرانا پڑتا ہے، دس بارہ گھنٹوں کے فاقے کے ساتھ۔ رات اگر آٹھ بجے کھانا کھایا ہے تو پھر صبح آٹھ نو بجے یہ ٹیسٹ کرا سکتے ہیں۔ زیادہ مہنگا نہیں، مختلف لیبارٹریز پر بارہ چودہ سو روپے میں ہوجاتا ہے۔ اس سے آپ کو اپنے جسم میں موجود پانچوں کولیسٹرولز کا پتہ چل جائے گا کہ وہ نارمل ہیں یا بڑھے ہوئے۔مزید یہ کہ آپ کو کہیں شوگر یا بلڈ پریشر کا مرض تو لاحق نہیں۔بلڈ پریشر چیک کرانے سے اورفاسٹنگ(نہار منہ) شوگر ٹیسٹ سے یاپچھلے تین ماہ کی شوگر کے ٹیسٹ HBA1Cکی مدد سے ایسا ہوگا۔ اگر شوگر کے مریض ہیں تو ہر چھ ماہ بعد کسی آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر کو اپنی آنکھوں کے پردہ کا معائنہ کرائیں کہ شوگر کے اس پر اثرات آنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ کمپلیٹ بلڈ ٹیسٹ یعنی CBCبھی کرالیں ، اسی طرح جگر کے لئےLFTاور کڈنی یعنی گردوںکی حالت جاننے کے لئے آر ایف ٹی RFTکرالیں، ممکن ہو تو کمپلیٹ یوریا بھی۔ اگر جوڑوں کے درد وغیرہ کے مسائل ہیں تو یورک ایسڈ کا ٹیسٹ بھی کرا لیں۔ ان تازہ ترین رپورٹس کے ساتھ کسی میڈیسن کے ڈاکٹر یعنی فزیشن کو دکھا دیں تو وہ آپ کو آگے کے لئے بہتر گائیڈ کر دے گا۔اگر آپکی عمر چالیس سال یا زیادہ ہوچکی اور ہر سال یہ ٹیسٹ نہیں کراتے تو اپنی غلطیاں اس سال سدھار لیں۔ فیملی ہر آدمی کی ترجیح ہونی چاہیے۔ اپنے پارٹنر کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں، بچوں کو مناسب وقت دیا جا رہا ہے یا نہیں؟ بیویوں کو اکثر خاوندوں کے ساتھ شکوے ہوتے ہیں، بدقسمتی سے ان کا اظہار اتنا زیادہ کیا جاتا ہے کہ اکثرمرد ردعمل میں توجہ ہی نہیں دیتے۔ یہ غلط طرزعمل ہے۔ بہت باریہ شکوے شکایتیں غلط نہیں ہوتے۔ کوشش کریں کہ گھر میں کوالٹی ٹائم دیں۔ بیوی کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگائیں، بچوں کے ساتھ فیملی ٹائم گزاریں۔ مہینے میں ایک دو بار سٹوری نائٹ کریں۔مل بیٹھ کر شیئرنگ کریں، کہانیاں سنیں، سنائیں۔ کسی دن پارک چلے جائیں، گھر سے کچھ بنا کر جائیں، وہاں پکنک ٹائپ منا ڈالیں۔ اس سے بہت کچھ بہتر ہوجائے گا۔ گھر میں چند گھنٹے سوشل میڈیا اور موبائل استعمال پر پابندی لگائیں۔ مل بیٹھ کر گھر کے نئے رولز بنائیں اور خوشدلی سے عمل کریں۔ (جاری ہے)