یہ خاصی پرانی بات ہے۔ شاید چار دہائیاں گزر گئیں۔ اسپورٹس اور کامرس رپورٹنگ میں میری بیٹ تھی۔ لیکن یہ میرا شوق تھا کہ کہیں نہ کہیں کوئی اچھوتی' کوئی انوکھی قارئین کی دلچسپی کیلئے کوئی کردار نظر آتا میں ضرور اس پر مختصر سا تبصرہ لکھتا۔ تصویر کے ساتھ اپنے بہت ہی پیارے اور محبت کرنے والے جناب نصیر ہاشمی جو اس وقت ہمارے سٹی ایڈیٹر تھے ، کے حوالے کردیتا۔ وہ اس کی نوک پلک درست کرتے اور سٹی پیج پر اہتمام سے لگادیتے۔ ان دنوں میں وائلڈ لائف کے ڈائریکٹر جناب شمسی صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ پھر یہ شناسائی دوستی میں بدل گئی۔ وہ روزانہ مجھے چڑیا گھر کے مکینوں کے حال احوال بتاتے اور میں اس میں سے ایک دلچسپ اسٹوری بناتا اور وہ اخبار کی زینت بن جاتی۔ مثلاً کوئل نے کوکنا چھوڑ دیا۔ شیرنی بیمار ہے۔ بندر اور بندریا کی لڑائی ہوگئی اور انہوں نے ایک دوسرے کو مار مار کر لہولہان کردیا۔ باقی اسٹوری مزید دلچسپ بنانے کیلئے مرچ مصالحہ میں خود لگادیتا تھا۔ ایک دن میرے اخبارکے مالک نے مجھے اور ہاشمی صاحب کو بلایا۔ انہوں نے مجھے شاباش دی اور ہاشمی صاحب کو ہدایت کی کہ اسے باکس بناکر زیادہ اہتمام سے شائع کیا جائے۔ پھر یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا۔ پھر شہر بھر سے لوگوں کے ایسے کرداروں اور اسٹوریز کے متعلق بے شمار خطوط موصول ہوتے رہے۔ ہم نے اس میں سے بیشتر معاملات پر تفصیلی فیچرز بھی لکھے۔ اس وقت میگزین ایڈیٹر جناب شفیع عقیل اس سلسلے میں بڑی معاونت اور حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان دنوں سب سے زیادہ ڈاک حضرت شمس الدین عظیمی کیلئے آتی تھی۔ وہ روحانی حوالے سے لوگوں کی بیماریوں اور مسائل کا حل تجویز کرتے تھے۔ پرانی باتیں' پرانے قصے ہیں۔ ایک بار یہ شاید 1989ء کی بات ہے کہ ایک بزرگ شخص ہمارے دفتر جو قائداعظم کے مزار کے سامنے تھا شاید اب بھی وہیں ہے۔ اس شخص نے بتایا کہ اس کا نام بندوخان ہے اور اس کا مسئلہ یہ ہے کہ انکم ٹیکس حکام گزشتہ تین ماہ سے اس پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ابتدا سے لیکر آج تک کا انکم ٹیکس کا گوشوارہ جمع کرائے اور ان کی جیب بھی گرم کرے۔ اب وہ گزشتہ روز کاروبار بند کرنے کی دھمکی دے کر گئے ہیں۔ میں بڑی دیر تک اسے حیرت سے دیکھتا رہا۔ سوچتا رہا کہ یہ تو وہی بندو خان ہے جس کے متعلق میرے دوست کے والد کے جو پاکستان بننے کے وقت صدر کے رہائشی تھے اور انہوں نے ایک دن ہمیں بتایا تھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ جیکب لائن کے نکڑ پر گئے جہاں کھانے پینے کی چیزیں بک رہی تھیں۔ ایک چھوٹے سے تخت پر چولہا رکھے ایک بیس پچیس سال کا جوان کباب فروش تیزی سے پنکھا جھل رہا ہے اور سیخ کباب سینک رہا تھا۔ دھواں اڑ رہا تھا اور اس کے ساتھ کباب کے مصالحوں کی خوشبو پھیل رہی تھی۔ بیگم نے مجھ سے کہا۔ کبابوں کی خوشبو بتارہی ہے کہ یہ کسی استاد کے ہاتھ کے کباب ہیں۔ میں نے اہلیہ سے پوچھا کہ اگر کھانے کو دل چاہ رہا ہے تو دو پلیٹ کباب کا آرڈر دیدوں۔ بیگم نے کہا۔ کھڑے ہوکر کون کھاسکتا ہے۔ اس طرح تو میں اپنے باپ دادا کی روایات کو ڈبو دوں گی۔ خیر یہ طے ہوگیا کہ کباب پیک کرالیتے ہیں' گھر جاکر کھائیں گے۔ وہ بتانے لگے کہ میں نے اس کباب فروش سے دریافت کیا کہ تمہارا کیا نام ہے۔ اس نے کہا ''بندو خان'' اس نے نم دھوئیں سے آنکھوں کو تہمدکے پلو سے پونچھتے ہوئے کہا۔ میرا اگلا سوال تھا۔ کہاں کے رہنے والے ہو ''میرٹھ کے'' کہاں رہتے ہو میرا اگلا سوال تھا۔ میں جیکب لائن میں رہتا ہوں۔ وہاں کچے مکان ہیں جن پر نمبر نہیں ہیں۔ بس دھوبیوں کے گھاٹ ہیں۔ وہاں آکر کسی سے پوچھ لیجئے' بندو خان کباب والا کہاں رہتا ہے۔ آج یہ ''بندو خان'' کباب والا میرے سامنے بیٹھا تھا۔ میں نے پوری ہمدردی سے اس کی بات سنی۔ اس وقت اپنے فوٹو گرافر شعیب احمد کو بلاکر کہا کہ آج رات کو ان صاحب کے ہاں ''ڈنر'' کرنا اور اندر باہر کی تمام تصاویر بناکر کل تک مجھے دے دینا۔ دوسرے دن تصویریں بھی بن گئیں اور اسٹوری بھی۔ بہر طوران کا مسئلہ حل ہوگیا۔ آج بندو خان اس دنیا میں نہیں۔ لیکن آج بھی چٹ پٹے کھانوں کیلئے ان کے ہوٹلز اور ان کے ذائقوں کی مثال دی جاتی ہے۔جب بھوک لگی ہو ،تو ہر قسم کا کھانا دل کو بھاتا ہے لیکن چٹ پٹے کھانے کا مزا ہی انوکھا ہے ،کراچی تو کھانوں کے حوالے سے مشہور ہے ،یہاں آپ کو ہر قسم کا کھانا ملے گا ،اردو،بنگانی ،ہندی اورعربی کھانے بھی ملتے ہیں ۔لاہور بھی کھانوں کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے ،لاہوری کھابے لوگ بڑے مزے سے کھاتے ہیں ،حال ہی میں گورنر سندھ نے لاہور کا دورہ کیا تو ساتھ ہی لاہوری کھابے کی خبریں بھی میڈیا پر دیکھنے کو ملیں ۔ لاہورزندہ دلوں اور خوش خوراک لوگوں کا شہر ہے۔ جو ایک طرف تو اپنے باغات، کالجوں اور تاریخی عمارتوں کی وجہ سے مشہور ہے تو دوسری طرف لاہور اور لاہوری اپنے کھابوں کی وجہ سے مشہور ہیں، اگر آپ لاہوری ہیں تو آپ کا پہلا تعارف یہ ہے کہ آپ خوش خوراک تو لازمی ہوں گے، لاہوری تو اچھے سے جانتے ہیں، کہ لاہوری کھابوں کی مشہور جگہیں کون کون سی ہیں اور کدھر، کدھر ہیں پر اگر آپ لاہور گھومنے پھرنے آئے ہوں اور کھانے کا وقت ہو گیا ہو تواب سوال یہ ہے کہ کیا کھایا جائے تو، گھبرائیں نہیں۔ آپ کو لاہور سے اپنی مرضی کا کھانا اپنی مرضی کا ذائقہ اور اپنی مرضی کی جگہ ملنے میں کوئی دشواری نہیں آئے گی۔ کہیں ٹھنڈے تو کہیں گرم کھانے آپ کے منتظر ہوں گے۔عجب نہیں کہ آپ لاہور کہ کھابے کبھی نا بھول پائیں۔ ایک دن مجھے بے مثال شاعر اور ادیب جمیل الدین عالی مرحوم بتارہے تھے کہ وہ بھی زمانہ طالب علمی میں بندو خان کے کباب کھانے دوستوں کے ساتھ اسی جگہ جاتے تھے جہاں یہ چوکی پر بٹھاکر کباب کھلایا کرتا تھا۔ چند چٹنیاں بھی اس کی مہارت کا ثبوت تھیں۔ اس وقت تک امرا اور رؤسا کی محفلوں میں بندو خان کے کباب اور تکوں کی شہرت پہنچ چکی تھی۔ ماضی میں کراچی کیسا تھا اندازہ لگایئے جب قائداعظم کی تدفین ہوئی تو دوسرے دن اخبارات میں جلی سرخیوں سے لکھا گیا کہ بانی پاکستان کی تدفین شہر سے باہر ایک پہاڑی نما ٹیلے پر کردی گئی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر کو ہدف تنقید بنایا گیا کہ انہوں نے غیر آباد علاقے میں تدفین کیلئے جگہ کا انتخاب کیا۔ آج کبھی قائداعظم محمد علی جناح کے مزار کے بیرونی صحن میں کھڑے ہوکر ذرا ایک نظر چاروں طرف ڈالیے آپ کو اندازہ ہوگا کہ قائداعظم کا شہر کتنا بدل گیا ہے۔