تھیو ڈور روز ویلٹ کو امریکہ کاصدر رہنے کا اعزاز ہی حاصل نہیں بلکہ وہ امریکہ کے اس وقت حکمران تھے جب شہنشاہیت اور جمہوریت باہم برسر پیکار تھے۔ امریکہ دنیا میں میں جمہوریت کا استعارہ بن رہا تھا۔دنیا کو جمہوریت کا سبق پڑھانے والے تھیوردور روز ویلٹ نے امریکی جمہوریت کے بارے میں کہا تھا’’ ظاہری حکومت کے پیچھے ایک غیر مری حکومت بیٹھی ہے جس کی کوئی وفاداری نہیں اور عوام کے حوالے سے اس کی کوئی ذمہ داری نہیں اس نادیدہ طاقت نے کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ناپاک اتحاد بنا رکھا ہے آج کی سٹیٹمین شپ کا پہلا کام اس ناپاک اتحاد کو توڑنا ہے‘‘۔ دو عظیم جنگوں میں امریکہ عالمی طاقت بن کر ابھرا تو اس کا سہرا بھی ایک اور امریکی صدر فرینکلین ڈی روز ویلٹ کے سر سجا ، اس نے ہی اٹلانٹک پیکٹ میں برطانیہ اوراتحادیوں کے سامنے دوسری جنگ عظیم جتوانے کے لئے امریکہ کی شمولیت کے لئے دنیا بھر میںاتحادیوں کو اپنی کالونیاں ختم کر کے ان خطوں میں جمہوری نظام قائم کرنے کی شرط رکھی تھی۔ جس وقت روز ویلٹ اتحادی ممالک کو دنیا بھر میں اپنی کالونیاں ختم کرنے کے لئے بلیک میل کر رہا تھا اس وقت ہندوستان میں برطانیہ سے آزادی اور تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی۔ برطانیہ ہندوستان کودو آزاد ریاستوں میں تقسیم کرنے کا فارمولا تسلیم کرنے پر مجبور ہو چکا تھا۔ کچھ ہندوستانی تقسیم ہندوستان کی مخالفت کر رہے تھے جن میں مسلمان اور ہندو دونوں ہی شامل تھے جون کی تپتی دوپہر میں علامہ مشرقی نے کراچی میں جلسے میں کہا’’ برطانیہ جنگ عظیم میں امریکہ کا اس قدر مقروض ہو چکا ہے کہ ہندوستان کا شمالی مغربی ٹکڑا امریکہ کے پاس گروی رکھ کر جا رہا ہے لوگوں تم پاکستان بنا تو رہے ہو مگر پاکستان کو چلائے گا امریکہ، تمہاری عورتیں بازاروں میں ذلیل رسوا نہ ہوئیں تو میری قبر پر لات مار کر کہنا مشرقی تم نے جھوٹ بولا تھا۔قائد اعظم قیام پاکستان کے لئے اپنی جان پر کھیلتے رہے اور علامہ مشرقی زیب غوری کے یہ الفاظ دھراتے رہے: میں تو چاک پہ کوزہ گر کے ہاتھ کی مٹی ہوں اب یہ مٹی دیکھ کھلونا کیسے بنتی ہے قائد اعظم کے خلوص کا ثمر مسلمانان برصغیر کو پاکستان کی صورت میں ملا۔ بانی پاکستان اس نومولود مملکت کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے ایسا پاکستان جہاں جمہور کی حکومت ہو۔مگر یہ مٹی کوزہ گر کے ہاتھ میں ایسی کھلونا بنی کہ بیمار قائد کو کراچی منتقل کرنے کے لئے ڈھنگ کی ایمبولینس بھی نہ مل سکی۔لیاقت علی خاں نے قائد کا پاکستان بناناچاہا تو تھیو ڈور روز ویلٹ کی’’ غیر مری حکومت‘‘ نے لیاقت علی خان کو نشان عبرت بنا دیا۔لیاقت علی خان کے بعد جو بھی آیا اس کو اقتدارتو ملا مگر اختیار نہ مل سکا یہ وہی اختیار ہے جس کے بارے میں نواز شریف نے کہا تھا کہ مجھے اقتدار کے ساتھ اختیار بھی چاہیے۔نواز شریف ملک کے’’وزیر اعظم‘‘ ہونے کے باجود اختیار کی بات کس سے کر رہے تھے اسی سے جس کے بارے میں آصف علی زرداری نے بھری تقریب میں کہا تھا کہ اگر سیاستدان کرسی کے لئے اسی طرح آپس میں لڑتے رہے تو اقتدار کا دودھ ’’بلا‘‘ پی جائے گا۔ آصف علی زرداری کو اپنے الفاظ اور نواز شریف کو اقتدار کے ساتھ اختیار مانگنے کی قیمت چکانا پڑی۔یہ قیمت عمران خان نے احتساب کے دلفریب خواب کی صورت میں وصول کی۔عمران خان چوروں ڈاکوئوں کے احتساب کی امید لے کر کرسی اقتدار پر بیٹھے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے اختیار کو احتساب کے لئے استعمال کرنے اور جمہور کی خواہش کے مطابق آزاد پاکستان کی منزل کی طرف بڑھنا چاہا تو عمران خان پر یہ راز آشکار ہوا : تلاش ایک بہانہ تھا خاک اڑانے کا پتہ چلا کہ ہمیں بھی جستجوئے یار نہ تھی عمران خان، نواز شریف اور آصف علی زرداری سے اس لحاظ سے مختلف رہے کہ اب عوام نے تلاش کا نیا بہانہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا دوسری طرف آصف علی زرداری اور نواز شریف کو جس ’’بلے‘‘ کے دودھ پینے کا ڈر تھا انہوں نے اس کے ساتھ مل بیٹھ کر ’’دودھ‘‘ بانٹنے اور کوزہ گرکے ہاتھوں کی مٹی بننے پر ہی اکتفا کر لیا۔ کوزہ گری کے اس کھیل میں البتہ ایک تبدیلی یہ آئی کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری نے جمہوریت کا دودھ پینے والے جس’’ بلے ‘‘کی خبر دی تھی عمران خان کے انکار نے عوام کو اس کا تصوراتی چہرہ دکھا دیا ۔پاکستانی کوزہ گری کے اس کھیل سے عاجز آ چکے ہیں ۔ووڈروولسن نے کہاتھا جب میں سے میں سیاست میں آیا ہوں میں نے خود سے بھی یہ راز مخفی رکھا ہے کہ امریکہ کے کچھ بڑے آدمی، تاجر صنعت کار، کسی ڈرتے ہیں، کسی سے ڈرتے ہیںوہ جانتے ہیں کہ کہیں ایک طاقت ایسی ہے جو اتنی منظم، اتنی باریک، اتنی چوکس، اتنی باہم جڑی ہوئی، اتنی مکمل، اتنی وسیع ہے کہ لوگ جب اس کی مذمت کرتے ہیں تو اپنی زندگیوںکی قیمت پر نہ بولنا ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ وڈروولسن اور آج کے زمانے میں بہرحال ایک فرق نمایاں ہے وہ یہ کہ عمران خان نے پاکستانی معاشرے میں بقول شہباز شریف ایسا کلٹ تخلیق کیا ہے جو نفاذ اسلام، احتساب کے کھلونوں سے بہلنے سے انکاری ہے۔ عمران کی تحریک نے اتنی کامیابی تو حاصل کر لی ہے کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی نیم دلانہ کوششوں سے اگر لوگ چائے کی دکان اور حمام پر روز ویلٹ کی ’’غیر مرئی حکومت‘‘ کی بات کرتے تھے تو آج عمران خان کا کلٹ اس ’’غیر مرئی حکومت‘‘ کے کسی کھلونے کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ۔عمران خاں کے خلاف توشہ خانہ، گھڑی چوری اور کرپشن کے حربے ناکام ہونے کے بعد پلے بوائے کا ہھتیار آزمایا جا چکا، جنسی الزامات لگائے جا چکے مگرعمران کے کلٹ کوکسی الزام کی پرواہ نہیں۔کوزہ گر کے نئے کھلونے شہباز کی پروازکی ہمت جواب دیتی جا رہی ہے۔ اقتدار کا تاج سر پر سجائے شہباز آج تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے ۔حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے۔ ڈزرائیلی نے کہا تھا موجودہ دور کی حکومتوں کو محض دوسری حکومتوں، شہنشاہیوں، بادشاہیوں اور وزیروں سے ہی نہیں بلکہ ان خفیہ معاشروں سے بھی نمٹنا پڑتا ہے جو ہر جگہ ان کے بے ضمیر ایجنٹ ہوتے ہیں اور آخری وقت میں تمام حکومتوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ شہبازشریف کو بنیامین ڈزرائیلی کی یہ بات جس دن سمجھ میں آ گئی اس دن شہباز شریف بھی زیب غوری کی طرح یہ فیصلہ کریں گے: گھسیٹے ہوئے خود کو پھرو گے زیب کہاں چلو خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا