مولانا فضل الرحمن کے ’’کامیاب دھرنے ‘‘کے منتشر ہو جانے کے بعد سے اپوزیشن جماعتیں کل جماعتی کانفرنس کے درپے تھیں اور انکے خیال میں مولانا نے جو دبائو تن تنہا حکومت پر ڈال دیا تھا اگر تمام جماعتیں اکٹھا ہو کر حملہ آور ہوں تو عمران خان میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔اسی غلط فہمی کی بنا پر اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن کا بار بار یہ کہنا کہ انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ وہ دھرنا ختم کر دیں تو مارچ2020 میں عمران خان کی حکومت ختم کر دی جائے گی، اپوزیشن کی ڈھارس بندھی ہوئی ہے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ اس دھرنے کا کیا مقصد تھا ۔مولانا کے دھرنے کو کامیاب قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسکا مقصد کوئی سیاسی تبدیلی لانا کبھی بھی نہیں تھا بلکہ میاں نواز شریف کے لئے بیرون ملک روانگی کی راہ ہموار کر ناتھا۔14نومبر کو مولانا نے جس یقین دہانی پر بھی دھرنا ختم کیا لیکن 19 نومبر کو میاں نواز شریف کو لندن جاتے تمام پاکستان نے دیکھا۔ نومبر2019 مولانا کے دھرنے کے دوران ’’ جانا ٹھہر گیا ‘‘کے عنوان سے کالم تحریر کیا تھا جو دس نومبر کو شائع ہوا۔ اقتباس پیش ہے۔ ’’ نواز شریف جا رہے ہیں اورپتہ نہیں مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بھی اسی ہفتے چلے جائیں گے اور شاید دسمبر تک آصف زرداری بھی خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لیں۔ کیا مولانا فضل الرحمٰن کا اس ساری سیاسی ہجرت کے اہتمام سے کوئی تعلق ہے، شاید ابھی یہ ثابت کرنا مشکل ہو لیکن مولانا فضل الرحمٰن جس شدّ و مد سے نواز شریف اور آصف زرداری کی کرپشن مقدمات میں گرفتاری اور سزا کے حوالے سے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بات کرتے ہیں اس سے انکا اپنے ان دو پرانے حکومتی حلیفوں کے لئے درد صاف جھلک رہا ہوتا ہے۔ اقتدار میں حلیف تو جنرل پرویز مشرف کے بھی رہے لیکن انکے خلاف مقدمات پر وہ کبھی دکھی نہیںہوئے ۔ اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہونے کے ناطے انہوں نے پاکستان کی تاریخ کی وفادار ترین اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ بھلے جنرل مشرف کے غیر آئینی اقدام کو آئینی تحفظ دینا ہو یا پھر جنرل مشرف کو وردی میں صدر منتخب کرانا ہو۔ایسے لچکدار سیاسی لیڈر کی اقتدار میں موجود اصحاب اور قوتوں کو ہمیشہ ضرورت رہتی ہے اور مولانا فضل الرحمٰن اس دھرنے کے اغراض و مقاصد میں کامیاب ہوں یا نہ ہوں لیکن انہوں نے ایک بار پھر اپنا سیاسی وزن بڑھا لیا ہے، اسکا فائدہ انہیں کب ہو گا یہ آنے والا وقت بتائے گا اور بہت جلد بتائے گا۔‘‘ اس موقع پر آصف زرداری کے جانے کی بھی بات کی تھی لیکن بوجوہ انکی روانگی میں تاخیر ہوئی جس میں کورونا بھی ایک وجہ ہے لیکن سب سے اہم وجہ عمران خان ہیں۔ انہیں نواز شریف کو باہر بھیجنے کے لئے جس طرح ٹریپ کیاگیا، وہ بہت غصے میں ہیں اور اس قسم کی کسی ڈیل کے لئے جانے انجانے میں تیار نہیں۔اسی وجہ سے مریم بھی اب تک لندن نہیں جا پا ئیں حا لانکہ میاں نواز شریف کی ڈیل میں یہ طے تھا کہ وہ بھی کچھ عرصے بعد انکو جوائن کر لیں گی۔اپوزیشن جہاں حکومت کے خلاف کسی تحریک کی صورت پیدا کرنے کی کوشش میں ہے، وہیں سب سے اہم مسئلہ ان لیڈران کرام کو یہاں سے بھجوانا بھی ہے۔ جس میں مریم اور آصف زرداری سر فہرست ہیں۔ اس دفعہ کل جماعتی کانفرنس کا مشن اور ایجنڈا ممکن ہے ایک بہت بڑی تحریک چلانا ہو لیکن درپردہ یہ کوشش ضرور ہو گی کہ مریم اور آصف زرداری کو بھی کوئی ڈھیل مل جائے۔جہاں تک اس امر کا تعلق ہے جو آجکل تجزیہ نگار بہت شدّومد سے اٹھا رہے ہیں کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں ایکدوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں اور اسکا اظہار سیاسی جماعتوں کے راہنما بھی کر رہے ہیں کہ عرصہ دراز کی کوشش کے باوجود انہیں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے کامیابی ہوئی ہے، جس کی بنیادی وجہ باہمی عدم اعتماد ہی تھا۔یہ سب بے جا عذر ہیں ۔ سب اپوزیشن جماعتوں بشمول حکومتی اتحادیوں کو علم ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ہٹانا تو دور کی بات ہلانا بھی اس وقت ممکن نہیں ہے۔بحر حال اپوزیشن کا ایک شوق ہے وہ ضرور پورا کرے لیکن اس بار نومبر والے دھرنے کی طرح انہیں کو ئی معمولی کامیابی بھی نصیب نہیں ہوگی۔مولانا کو یہ ضرور کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ کچھ وعدے وعید کر کے اٹھے تھے اور کئی نا ہنجار تو ان پر مالی فائدہ اٹھانے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ اور سب سے اہم یہ کہ میاںنواز شریف لندن جانے میں کامیاب رہے۔اس بار ایسا کچھ ہوتا نظر نہیں آرہا۔پارلیمنٹ کے اندر بیٹھی اپوزیشن جماعتوں کا عمومی رویہ بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ پارلیمنٹ سے باہر اپوزیشن کو اکٹھا رکھنے کی تو شاید کوشش کر رہے ہیں لیکن انہیں کامیابی کی کوئی خاص امید نہیں ہے۔ کل جماعتی کانفرنس 20ستمبر کو ہونے جا رہی ہے۔ بلاول بھٹو کو شاید یاد نہ ہو، اسی روز انکے ماموں میر مرتضٰے بھٹو کی برسی ہوتی ہے۔1996 میں جب انکی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں اور سندھ میں صوبائی حکومت بھی انکی تھی تو20ستمبر ہی کو کراچی کی ایک سڑک پر سندھ حکومت کی ماتحت پولیس نے انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ جب تک میر مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں یقین نہیں ہو گیا کہ انکا خون اتنا بہہ چکا ہے کہ اب بچنے کا کوئی امکان نہیں تب تک انکے جسم کو وہاں سے ہسپتال منتقل کرنے کی اجازت نہیںدی گئی۔یہ کہا جاتا ہے کہ بینظیر بھٹو اور میر مرتضیٰ کے درمیان صلح ہو چکی تھی اور وہ اپنے بھائی کو سینیٹ میں اہم رول دینے کا فیصلہ کر چکی تھیں لیکن آصف زرداری ایسا نہیں چاہتے تھے۔ بحر حال جو بھی اس میں ملوث تھا،ملک کی وزیر اعظم اور سندھ کی مالک پیپلز پارٹی مجرم ڈھونڈ نہیں پائی۔ میر مرتضیٰ بھٹو اگر آج زندہ ہوتے تو پیپلز پارٹی کی تاریخ مختلف ہوتی کیونکہ اصلی بھٹو تو بینظیر کے بعد مرتضیٰ بھٹو ہی تھا۔