اورینگو ٹان کئی حوالوں سے انسانوں کے سب سے زیادہ قریب ہیں

محمد اختر

بھورے چمپنزی جنہیںانگریزی میں اوراینگوٹان کہاجاتاہے ، ان کے بارے میں تحقیق بتاتی ہے کہ وہ جانوروں کی دنیا میں سے انسانوں کے قریب ترین رشتہ دار ہیں۔ ’’ریڈرز ڈائجسٹ ‘‘کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسے تیرہ پہلوہیں جن کی روسے بھورے چمپنزی ہم انسانوں کے قریب ترین مخلوق ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اورنگوٹان بالکل انسانوںکے جیسے ہیں۔وہ کن پہلوئوں سے ہم جیسے ہیں ، آئیے ذیل میں اس کے بارے میں پڑھتے ہیں:

ان کے سرمیں بھی مانگ ہوتی ہے

انسانوں کی طرح ان کی ایک اہم جسمانی خصوصیت سرکے بالوں کی مانگ ہے اور محققین کے مطابق یہ خصوصیت انہیں شدت کے ساتھ انسانوں سے جوڑتی ہے تاہم یہ جینیاتی سے زیادہ جسمانی خصوصیت ہے۔محقق جیفری شوارٹزکے مطابق دیگر تمام جانوروں میں ایسا نہیں ہوتا اور بھورے چمپنز ی ہی اس خصوصیت کے مالک ہیں۔انہوں نے نیشنل جیوگرافک کو مزید بتایا کہ انسانوں اور بھورے چمپنز یوں میں بالوں کے علاوہ اور بھی کہیں خصوصیات ہیں جوانسانوں والی ہیں ۔

ان کے چہرے انسانوں سے ملتے ہیں

بھوری چمپنزیوں میں چہرے کی اٹھائیس خصوصیات انسانوں جیسی ہوتی ہیں۔ ان میں چھبیس خصوصیات کالے چمپنزیوں والی ہوتی ہیں جبکہ اکیس خصوصیات گوریلوں جیسی ہوتی ہیں۔ان کے منہ کے اندر دانتوں کاجائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے سامنے کے دانت ہمارے جیسے ہوتے ہیں اور ہماری ہی طرح ان پر انیمل کی موٹی تہہ موجود ہوتی ہے۔اس طرح محقق جیفری شوارٹز کے مطابق منہ کے اندر چھت پر سوراخ جو کہ صرف انسانوں کی حد تک مخصوص ہوتا ہے ، وہ بھورے چمپنزیوں میں بھی ہوتاہے۔ 

یہ  ہماری طرح بوڑھے ہوتے ہیں

ویٹرنری پتھالوجی میں شائع ہونے والے محققین کے ایک آرٹیکل کے مطابق اورینگوٹان بندر کے خاندان کے تمام جانوروں کی مانند اسی طرح بوڑھے ہوتے ہیں جیسے انسان ہوتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ انسان بندر کے خاندان کے تمام جانوروں میں سب سے طویل زندگی گذارتے ہیں۔باقی حوالوں جیسے دانت ، ہڈیوں ، پٹھوں کی تخریب میں یہ ہم انسانوں کے بہت قریب ہوتے ہیں۔وقت کے ساتھ دماغی صلاحیتوں کی کمی ، دل کی بیماریاں اور سب سے بڑھ کرجوڑوں کا درد ان میں انسانوں کی مانند ہی ہوتاہے۔بڑھاپے میں ان کے بال بھی ہماری طرح گرتے ہیں اور رنگ بدلتے ہیں۔نظریہ ارتقاء شاید ٹھیک ہی کہتا ہے کہ انسان بتدریج ارتقائی مراحل سے بندر سے انسان میں ڈھلے ہیں۔

کالے چمپنزیوں ،بونوبوس اور گوریلوں سے ہٹ کر بھورے چمپنزیوں میں اور کون سی چیزیں ہیں جو انہیں انسانوں کے قریب کرتی ہیں ؟نیشنل جیوگرافک کے مطابق ان کے دماغ کے بائیں اور دائیں پہلو میں بے جوڑ پن زیادہ ہوتا ہے جبکہ ان میں نرم ہڈی اور دیگر ہڈی کا تناسب بھی زیادہ ہوتا ہے اور ان کے کندھوںکی ہڈی بھی ایسے ہی ہوتی ہے۔

اورینگوٹان بچے ہماری طرح ماں کے زیادہ قریب ہوتے ہیں

اورینگو ٹان فائونڈیشن انٹرنیشنل کے مطابق ممکنہ طورپر انسان واحد جاندار ہیں جن میں ماں کے ساتھ تعلق بہت مضبوط ہوتا ہے۔پرائماٹالوجسٹس کا یقین ہے کہ اور ینگوٹان یا بھورے چمپنزیوں میں بچپن بہت طویل ہوتاہے کیونکہ بچوں کے طورپر انہیں بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے جس کے لیے وہ اپنی مائوں کے محتاج ہوتے ہیں تاکہ بطور بالغ کے وہ کامیابی کے ساتھ اپنی مستقبل کی زندگی گذار سکیں ۔ماہرین کے مطابق چمپنزیوں کے بچے عام طورپر آٹھ سال تک اپنی مائوں کے ساتھ رہتے ہیں اور اس دوران ان سے زندگی گذارنے کے زیادہ سے زیادہ ہنر سیکھتے ہیں۔اگر وہ اپنی مائوں سے زیادہ کچھ نہ سیکھیں تو ان کی بقاء اور آئندہ کی زندگی اسی طرح مصائب سے دوچار رہے گی جس طرح کہ انسانوں میں سمجھاجاتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ نہ سکیں تو ان کی زندگی دشوار ہوجاتی ہے۔

علامات حمل ایک جیسی ہوتی ہیں

شیرل ناٹ جو کہ ایک بائیولوجیکل انتھروپولوجسٹ ہیں اور انڈونیشیا میں واقع گون اونگ پالونگ نیشنل پارک میں بھورے چمپنزیوں پر تحقیق کرتی ہیں انہوں نے انسانوں اور بھورے چمپنزیوں(اورینگو ٹان) میں بہت سی مشترکہ باتیں دیکھی ہیں جو کہ حمل کے دنوں سے متعلقہ ہیں ۔ ان کا کہناہے کہ بھورے چمپنزیوں اور انسانوں میں اس قدر مشترکہ باتیں ہیں کہ وہ حمل کا پتہ چلانے والی انسانوں کے زیراستعمال کٹ کو مادہ چمپنزیوں میں حمل کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے استعمال کرسکتی ہیں۔ان کے بقول پیشاب کے ذریعے مادہ چمپنزیوں میں اسی طرح حمل کے بارے میں پتہ چلایا جاسکتا ہے جس طرح انسانوں میں پتہ چلایا جاتا ہے۔

ہمارا جد امجد ایک ہی ہے 

محقق جیفری شوارٹز اور ان کے ساتھی جان گریہان نے جو ایک انتہائی متنازعہ چیز اپنی سٹڈی میں دریافت کی ہے وہ یہ ہے کہ انسانوں اور بھورے چمپنیزیوں کا جد امجد ایک ہی ہے جبکہ دیگر بندر خاندان سے تعلق رکھنے والے جانوروں یا بندر وں میں ایسا نہیں ہے۔شوارٹز اور گریہان لکھتے ہیں کہ لگ بھگ دس لاکھ سال پہلے تک بھورے چمپنیز ی اور انسانوں میں مشترکہ خصوصیات آج کے مقابلے میں بہت ہی زیادہ تھی ۔ دوسرے لفظوں میں بھورے چمپنزی اور انسان ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانوں کے اس سب سے قریبی رشتہ دار کی نسل اب خطرے میں ہے۔

اورینگو ٹان گریٹ ایپس کی تین باقی بچ جانے والی اقسام میں سے ہیں جو کہ انڈونیشیا اور ملائشیا میں پائی جاتی ہیں۔اورینگو ٹان صرف بورنیو اور سماٹرا کے استوائی جنگلات میں پائے جاتے ہیں۔

ہماری طرح بھورے چمپنزی ہنستے بھی ہیں

ایموری یونیورسٹی کے پرائماٹولوجسٹ فرانز ڈی وال کا کہنا ہے کہ اورینگو ٹان میں انسانوں والی جو سب سے بڑی خصوصیت ہے وہ ان کا ہنسنا ہے اور جب ان کو گدگدی کی جائے تو یہ خوب ہنستے ہیں۔ان کے مطابق یہ انسانی ہنسی کے مقابلے میں لو پچ کی حامل ہنسی ہوتی ہے تاہم ان کے چہرے سے تاثرات اور چہرے کے اتارچڑھائوسے صاف معلوم ہوتاہے وہ ہنس رہے ہیں۔فرانز ڈی وال کے مطابق جب یہ ہنستے ہیں تو ان کو دیکھ کر ہمیں بھی ہنسی آجاتی ہے۔

یہ چہروں کو پہچانتے ہیں

دراصل یہ کوئی ایسی خصوصیت نہیں جو صرف اورینگوٹان یا بندر خاندان کے دیگر جانداروں تک مخصوص ہو۔بھیڑیں ، گائیں اور کتے بھی ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور وہ انسانی چہروں کو بھی پہچانتے ہیں۔ 

لیکن چونکہ یہ تمام جانور سماجی ہیں جبکہ اورینگو ٹان زیادہ تر تنہائی پسند جانور ہیں ، اس ان کے بارے میں اس موضوع پر بات کرنے کے لیے سائنسی حوالے سے نظر ڈالنی ہوگی۔ایک ریسرچ پیپر کے مطابق اور ینگو ٹان میں تو یہ بھی خوبی ہے کہ یہ ایک بار کسی چہرے کو دیکھنے کے بعد طویل عرصے تک اسے نہیں بھولتے اور ان کے سامنے آنے پر ایسے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں جیسے ہم انسان کسی کو طویل عرصے بعد دیکھنے پر اظہار کرتے ہیں۔

یہ ماضی کے بارے میں ’’بات ‘‘ کرتے ہیں

ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اورینگو ٹان اپنے ماضی کے بارے میں بات کرسکتے ہیں۔ایک سائنس میگزین کے مطابق جب اورینگو ٹان کسی شکاری کو دیکھتے ہیں تو یہ ایک مخصوص آواز نکالتے ہیں ۔یہ آواز شیروں اور دیگر شکاری جانوروںکو یہ پیغام دیتی ہے کہ’’ میں نے تمہیں دیکھا ہوا ہے‘‘ اور ساتھ ہی دیگر اورینگوٹانزکو بھی خبردار کردیتی ہے کہ آگے خطر ہ ہے جس سے باقی جانور خبردار ہوجاتے ہیں۔اب محققین کا کہنا ہے کہ انہوں نے سنا ہے کہ یہ جانور شکاری کے چلے جانے کے بعد بھی کافی دیر تک یہی آواز نکالتے رہتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے ماضی کے بارے میں بات کرسکتے ہیں۔یہ اس بات کی پہلی علامت ہے کہ انسانوں کے علاوہ یہ اورینگو ٹان ہیں جو آپس میں باتیں کرتے ہیں۔

یہ ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں

زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ انسان یہ سمجھتے تھے کہ وہ واحد جاندار ہیں جو اپنی نسل کے دیگر جانداروں کو کچھ سکھا سکتے ہیں اور انہیں اپنے تجربات سے روشناس کراسکتے ہیں۔اورینگوٹان فائونڈیشن انٹرنیشنل کے مطابق ایسا نہیں ہے۔درحقیقت بورنیو میں پائے جانے والے اورینگو ٹان اپنے منہ کو صاف کرنے کے لیے پتوں کو رومال کے طورپر استعمال کرتے ہیں جبکہ سماٹرا کے جنگلوںمیں موجود اورینگو ٹان پتوں کو دستانوں کے طورپر استعمال کرتے ہیں ۔اس طرح وہ اپنی اگلی نسل میں بھی علم کو منتقل کرتے ہیں۔

’’وائرڈ یوکے ‘‘ کی اولیویا سولون کے مطابق سماجی سیکھ جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی ہے وہ بلڈنگ بلاک آف کلچر کی طرح ہے۔اورینگو ٹان اسی طرح اپنی سماجی سیکھ دوسری نسل کو منتقل کرتے ہیں اور یہی چیزانہیں اور ہمیں دوسرے جانوروں سے ممتا ز کرتی ہے۔ان سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اور اورینگو ٹان کے کلچرکی جڑیں ایک جیسی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم نے ان کے علاقوں کو محفوظ نہ بنایا اور ان میں اضافہ نہ کیا تویہ انسان نما جانور ختم ہوجائیں گے کیونکہ ان کی تعداد پہلے ہی بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔

یہ ہمیں ہمارے ماضی کے تعلق دکھاتے ہیں

اورینگو ٹان میں ایک دوسرے سے رابطے کا جو نظام وہ سادہ بھی ہے اور جامع بھی۔اورینگو ٹان ہمارے سامنے مثال پیش کرتے ہیں کہ ہمارے آباواجداد ایک دوسرے سے کیسے رابطہ کرتے تھے ۔ ماضی میں بھی اور مستقبل میں بھی ۔حتیٰ کہ اس وقت بھی جب انہوں نے ایک لفظ بھی کہنا نہیں سیکھا تھا۔بڑھتی ہوئی شہادتوں کے ساتھ یہ جانور سائنس دانوں کی یہ سمجھنے میں مدد کررہے ہیں کہ ہمارے آباواجداد کیسے تھے اور انہوں نے ایک زبان کس طرح تخلیق کی تھی۔