دوستو ! میٹرک کی سند اور میرا سروس ریکارڈ جو بھی کہے ، 30 دسمبر (16 پوہ) میری مرحومہ ماں جی کی تشخیص اور تفتیش کے مطابق میرا ’ اصلی تے وڈا‘ جنم دن ہے۔ ماہِ رواں کے آغاز میں اسی لیے عرض کیا تھا کہ: تیس کو اپنی سالگرہ ہے آ جا کھا لے کیک دسمبر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مَیں پچھلی صدی کی ساتویں دہائی میں ایک ایسے چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا ، جہاں سوائے فصلوں اور نسلوں کے کچھ پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا ہی نہیں ہوتا۔ ایسا گاؤں جہاں آج بھی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا ایک مستند میڈیکل ڈاکٹر اور وارث شاہ کا ’شاہ‘ ہونے کی وجہ سے بے پناہ احترام کیا جاتا ہے۔ وہاں ایک صاحب دھڑلے سے بتایا کرتے تھے کہ گورنمنٹ وہ ہوتی ہے جو ہر بات پہ منٹ منٹ پہ غور کرے۔یونیورسٹی زمانے میں میری دادی کو پتہ چل گیا کہ مَیں لاہور میں لڑکیوں کے ساتھ پڑھتا ہوں، تو انھوں نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا تھا: ’’توبہ توبہ قیامت دیاں نشانیاں نیں‘‘ شکل نہ ایسی ہے، نہ ویسی ہے، بس ایسی ویسی ہے۔ ماں بے چاری اس وقت بھی چاند کہہ کے بلاتی تھی، جب خلائی سائنس باقاعدہ تصدیق کر چکی تھی کہ چاند پہ سوائے ٹوئے ٹِبوں کے کچھ بھی نہیں۔ حکیم جی فرماتے ہیں کہ اسی وجہ سے کہتی تھیں۔نوجوانی تک ہیئت ایسی تھی کہ اکیلے میں سینما سے انگریزی فلم کا ٹکٹ نہیں ملتا تھا۔ کہیں جا رہا ہوتا تو لگتا بھیجا جا رہا ہوں۔ یونانی دوائیں بیچنے والوں کے مجمعے میں کھڑا ہو جاتا تو وہ ہاتھ کے اشارے سے پرے ہٹا دیتا۔چہرے پہ شیو کا یہ عالم تھا کہ کئی بار اچھی بھلی شیو وغیرہ کر چکنے کے بعد پتہ چلتا تھا کہ ریزر میں بلیڈ ہی نہیں تھا۔ جسمانی قد نپولین، بابرہ شریف اور تمام عقل مند لڑکیوں سے آج بھی زیادہ ہے۔ 1986ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اُردو کرنے کی غرض سے لاہور آیا تھا، تب سے اب تک لاہور سے کئی بار نکلنے کی کوشش کی لیکن لاہور اندر سے نہیں نکلتا۔ چنانچہ گزشتہ بارہ سال سے بہ سلسلہ ملازمت اور چار سال سے باقاعدہ رہائشی طور پر اسی شہرِ بے مثال میں مستقل مقیم ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور میں رہنے والوں کی زندگی میں اور کچھ آئے نہ آئے ٹھوکریں اور موڑ بہت سے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر اچھرہ موڑ، جلو موڑ، سکیم موڑ، بھیکے وال موڑ، ان سب سے بڑھ کے ٹھوکر نیاز بیگ، ڈاکٹر وحید قریشی نے ساری عمر سمن آباد میں گزارنے کے بعد ای ایم ای سوسائٹی میں منتقل ہو جانے کے بعد جس کی بابت کبھی یوں تبصرہ فرمایا تھا: چکر تھا اپنے پائوں میں بھاگے چلے گئے ٹھوکر نیاز بیگ سے آگے چلے گئے اور ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے اسی رہائشی سکیم کے دوران پیش آنے والے تلخ تجربات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: کھائی ہیں یوں تو زمانے بھر کی ٹھوکریں ٹھوکر نیاز بیگ ہے ٹھوکر نیاز بیگ اپنی اس زندگی میں سے یونیورسٹی کے دو تین سال نکال دیے جائیں تو باقی زندگی تو اپنی ملکی زندگی سے لگا کھاتی نظر آتی ہے۔ اس دور کی یادوں کا سونا آج بھی خطوں، البموں اور ڈائریوں میں دبکا پڑا ہے۔ ایک دن اپنے کمرے میں بیٹھا یادوں کے انھی رنگوں سے اپنی تنہائی کو پینٹ کررہا تھا کہ میرے اعمال کی مستسقل نگران آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ’’یہ جلدی جلدی کیا سمیٹنے میں مصروف ہو؟‘‘ ’’کچھ بھی نہیں … بس یوں سمجھ لو کہ سونا ہے تھوڑا سا۔‘‘ ’’تبھی میں کہوں اتنی لپیٹالپیٹی کس لیے ہورہی ہے؟اب خواہ کچھ بھی ہوجائے مجھے اس میں سے ڈیڑھ تولے کی ڈنڈیاں ضرور بنوادو۔‘‘ ملازمت کے سلسلے میں بہت سا وقت اپنے شہرشیخوپورہ میں گزرا۔ رفتہ رفتہ یہ شہر بھی اچھا لگنے لگا ۔ حکیم جی اس کی اکلوتی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’انگریزی میں شیخوپورہ ’’She‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔‘‘ یہ شہر وِرکوں سے اس قدر بھرا پڑا ہے کہ کسی دکان پر وَرکشاپ بھی لکھا ہو تو لگتا ہے وِرک شاپ لکھا ہے۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ہمارے بڑے، سکھوں سے مسلمان ہوئے تھے۔ اپنی برادری کے کارنامے دیکھتا ہوں تو بزرگوں کی بات بے وزن لگنے لگتی ہے۔ ہمارے ایک بزرگ کسی ظریف کو یہی بات بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ: ’’ساڈے وڈے سِکھوں مسلمان ہوئے سی‘‘ اس نے جھٹ جواب دیا: ’’اچھا!!ساڈے تے دِلوں مسلمان ہوئے سی۔‘‘ سب جانتے ہیں کہ پنجاب میں تھانہ کچہری اسی جٹ برادری کے سہارے قائم ہے۔ پہلی کتاب ’’قلمی دشمنی‘‘ آئی تو لوگ ایک عرصے تک سمجھتے رہے کہ کہ اپنی برادری کی دشمنیوں کی داستان لکھی ہے۔مجھ سے آج تک لوگ پوچھتے ہیں کہ تم اچھے خاصے جٹ ہو کے کن کاموں میں پڑ گئے ہو؟ ان کو بتانا پڑتا ہے کہ اب ہم نے اپنا کلچر پٹھانوں اور سیاست دانوں کو سونپ کر کفارے کا فیصلہ کیا ہے۔ پہچان کا مادہ اس قدر ہے کہ آج بھی لہنگے اور غرارے میں تمیز نہیں کرسکتا۔ متعدد غرارہ شناسوں نے کئی بار سمجھایا کہ ان میں سے ایک کی دو ٹانگیں ہوتی ہیں جب کہ دوسرے کا ٹخنوں تک ایک ہی گھیرا ہوتا ہے۔ اب تو یہ فرق مجھے پوری طرح ازبر ہوچکا ہے مگر ہر بار یہ بھول جاتا ہوں کہ اس میں کس کی دو ٹانگیں ہیں اور کس کا ٹخنوں تک گھیرا؟ زنانہ لباس کی ہیئت میں تو آج درزیوں نے اتنے تجربے کر ڈالے ہیں کہ مجید امجد نے اتنے تجربے شاعری میں نہیں کیے ہوں گے۔ آخر میں اپنی سالگرہ کے حوالے سے مجھے رات بارہ بجے اپنے بچوں وجیہہ احمد، عانش احمد وِرک، نبیہہ احمد اور ارفع احمد کے سرپرائز، معروف مزاح نگار جناب حسین احمد شیرازی کے مزے دار کیک، ذونیرا بخاری کی خوبصورت پوسٹ اور جناب ڈاکٹر علی احمد خاں، ڈاکٹر اختر شمار اور بے شمار طلبہ و طالبات کی بے پناہ محبتوں کے لیے بے حد ممنون ہوں۔