مولانا وحید الدین خان اپنی ذمہ داری نبھا کر خدا کے حضور پہنچ گئے۔چھیانوے سال کی عمر پائی اور اس عرصے میں انہوںنے دعوت حق میں اپنا قلم اور اپنی زبان دونوں کو پیہم لگائے رکھا ۔ غالبا پچیس سال پہلے پہلی مرتبہ اس طالبعلم کو مولانا کی بعض کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہواتھا۔اس زمانے میں اگرچہ کم علمی اور کم سنی دونوں مولانا کی بات کو سمجھنے میں حائل رہی تھیں تاہم بعد میں اس درویش کی صدا کو میں پوری طرح سمجھ گیا۔گھنی داڑھی کے ساتھ ہمیشہ روایتی پگڑی میں ملبوس اس مولوی نے اپنی بات کو خلوص اور توانا دلیل کے ساتھ اتنی آفاقیت بخشی کہ چہار دانگ عالم میں اس کی صدا سنی گئی۔مولانا کی شخصیت اور ان کے دینی خدمات کے کئی پہلو ہیں جن میں سب سے نمایاں پہلو ان کا بطور ایک داعی کے ہیں۔دعوت دین دراصل انبیاء کرام رضوان اللہ اجمعین کی زندگی کا مقصد تھا یوں مولانا نے بھی اس کام سے پورے صدق دل سے جڑے رہے ۔اورپھر بطور داعی مولانا نے ایک ایسا منفرد اسلوب اختیار کیاہواتھا کہ ان کی بات سننے اور قبول کرنے سے تعلق رکھتی تھی۔میرے خیال میںآج کے اس دین بیزار دور میں مولانا جیسے علماء کا وجود اسلام اور امت کیلئے بہت بڑا سرمایہ تھا کیونکہ مولانا ہی کے معقول دلائل کی برکت سے اسلام کے بارے میں مشکوک خیالات کے حامل اذہان کو دوبارہ یقین اور اطمینان نصیب ہواہے۔ مولانا کی تبلیغ کا ایک اہم جزو دارِ آخرت سے علاقہ رکھتا ہے ۔ دارِ آخرت کے ثبات اور حقانیت پر جس انداز سے ہماری شریعت زور دیتی ہے ، مولانا نے بھی اتنا ہی اہمیت کے حامل اس گھر کو سنجیدہ لیاہوا تھا۔دارِ آخرت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کیلئے مختص قرار دیاہے جو دارِ اولیٰ میں دو قسم کی قبیح ترین برائیوں سے منزہ ہوں، ایک تکبر اور دوسرا فساد۔آیت کریمہ ہے ؛ ترجمہ’’ یہ آخرت کا گھر تو ہم ان لوگوں کیلئے مخصوص کرتے ہیں جو نہ تو زمین میں بڑائی کے خواہاں ہیں اور نہ ہی فساد مچانا چاہتے ہیں‘‘،(القصص)۔اُخروی زندگی سے متعلق ان کی تصنیفات میںــ’’ آخری سفر، انسان کی منزل ،آخرت کا سفر، الربانیہ ،اللہ اکبر اور انسان اپنے آپ کو پہچان لیں جیسی قابل ذکر کتابیں شامل ہیں۔ مولانا کا دوسراطرہ امتیاز ان کا مصلحت آمیز پہلو تھاکیونکہ وہ تصادم اور نزاع Confrontation)) پرقطعاً یقین نہیں رکھتے تھے ۔ شاید مذکورہ بالا آیت کو پیش نظر رکھ کر انہوں نے خود کو پوری زندگی مصلحت کے راستے پر لگایا تھا۔اس کی ایک مثال بابری مسجد کی شہادت سے متعلق ہے۔ بابری مسجد کو ہندو بلوائیوں نے انیس سوبانوے میں شہید کردیا جس کے نتیجے میں فسادات پھوٹ پڑنے سے سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ مولانا کی نظر میں اگرچہ مسجد کی شہادت ایک بہت بڑا المیہ تھا لیکن اس سے زیادہ وہ مسلمانوں اور ہندووں کے بیچ خونی فسادات کو بڑا المیہ سمجھتے تھے۔اسی تناظر میں انہوں نے اپنے مسلمانوں ہی سے اپنے دعوے کو ترک کرنے کا مشورہ دیا تھا اوراس کے بدلے انہوں نے ہندووں سے سماج میں امن قائم کرنے کی خاطرمتھرا اور وارانسی کی متنازع مساجد پر اپنے دعوے سے پیچھے ہٹنے کی درخواست کی تھی۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہر موقع اور ہرمحل پر مصلحت سے کام لینا شاید مولانا کے وسیع تر بردباری یا حسن ظن کا تقاضا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مستقل طور پر ایسے بیانیے کے ساتھ کھڑے رہنا انسانی عقل اور نہ ہی مذہب کا تقاضا ہے۔ ایک عالم کے ساتھ ساتھ مولانا نے خود کو کمال کا ناقد بھی ثابت کیا، باالخصوص دین کی سیاسی تعبیر پران کی تنقید اور نکتہ چینی۔اس بارے میں مولانا کی تصنیف ’’ تعبیر کی غلطی ‘‘ جس میں انہوں نے مولانا مودودی کے دینی تشریح کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ، پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ مولانا وحید الدین کاایک اور کمال یہ تھا کہ انہوں نے دین کو کبھی ایک مہیب ہتھیار کے طور پر پیش نہیں کیا۔ ان کے ہاں دین حُسن تھا اور حسن کو حسین انداز میں ہی پیش کرنا چاہیے۔ ایک امتیازی وصف مولانا کا فطرت پرجنون کی حدتک یقین تھا۔وہ کائنات میں پیش آنے والے مافوق العقل واقعات کا بغور جائزہ لیتے تھے اور اس میں خدا کو دریافت کرلینے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ عجیب وغریب آفاقی واقعات کو روزمرہ پیش آنے والے واقعات پر منطبق کردینے کا گُر جانتے تھے اور ان کی کتابوں میں ایسے واقعات کا ذکر بکثرت پڑھنے کو ملتا ہے۔ بعض دینی معاملات میںمولانا نے حد درجے انفرادیت اپنائی تھی اور امت کے سواد اعظم سے متفق نہیں تھے جس کے تناظر میںبعض لوگوں نے ان پر گمراہ کا حکم لگانے سے بھی گریز نہیں کیا، لیکن میں حیران ہوں کہ اخروی زندگی پر جنون کی حد تک یقین رکھنے والا شخص اور گمراہی ایک ساتھ کیسے جمع ہوسکتے ہیں؟ کالم کے آخر میں مولانا کے مداح اور اچھے لکھاری محی الدین غازی کی تحریر کے چند سطور نقل کرنا چاہتاہوں جس میں وہ اپنے مرشد کے بارے میں لکھتے ہیں ’’ مولانا کا ایک انوکھا اور منفردانداز تھا،وہ والدین کو مشورہ دیتے کہ بچے کے رونے کو وجہ بناکر اپنی تعلیم وترقی کے عظیم منصوبے موقوف نہ ہونے دیں۔ وہ مسلمانوں کو مشورہ دیتے کہ فرقہ پرستوں کی پیدا کی ہوئی شرپسندی میں الجھ کر اپنے نصب العین سے غافل نہ ہوجائیں۔ان کے نزدیک بچہ رونے سے مر نہیں جاتا ہے اور کوئی قوم دوسروں کی شرارتوں کو نظر انداز کرنے سے ذلیل ورسوانہیں ہوجاتی ہے‘‘۔