تین نومبر 2022ء کو وزیر آباد میں تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا ان کی جماعت کا ایک کارکن معظم شہید ہوگیا جبکہ عمران خان سمیت متعدد احباب زخمی ہوئے۔ اس واقعہ کے بعد پورے ملک میں بھونچال برپا ہوگیا، مرحلہ وار اس حادثہ کے مختلف مناظر قوم کو دکھائے جاتے رہے۔ عمران خان زخمی حالت میں کنٹینر سے نکلے‘انہوں نے مکا لہرایا اور ایک گاڑی میں انہیں سوار کرکے شوکت خانم میموریل ہستپال لاہور منتقل کردیا گیا۔ عمران خان ابھی شوکت خانم ہسپتال نہیں پہنچے تھے کہ ان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ایک ملزم نوید کی گجرات کے متعلقہ تھانے سے اعترافی ویڈیو جاری کردی گئی۔قومی ٹی وی چینل پی ٹی وی بھی اس اعترافی بیان کو نشر کرتا رہا۔ یہاں سے معاملات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ اتنی عجلت میں اعترافی بیان کیوں سامنے آیا؟ اس کی گونج ابھی ملک میں جاری تھیکہ وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے اس بات کا نوٹس لیا لیکن ملزم نوید کا ایک اور اعترافی بیان سامنے آگیا‘ عمران خان نے مقدمے کے اندراج کیلئے جن افراد کا نام لیا‘ مقدمہ درج نہ کیا گیا۔ تھانے کے لوگ کبھی بجلی بند ہونے کا بہانہ کرتے رہے اور کبھی متعلقہ آفیسرز غائب ہوجاتے‘بہرحال اس سارے کھیل میں ایک بات پی ڈی ایم اتحاد نے اٹھانی شروع کردی کہ عمران خان کو کوئی گولی نہیں لگی‘پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے۔سکیورٹی کے ذمہ دار یہ خود ہیں‘ عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ساری روداد ازسر نو قلمبند کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اب جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بیشتر نکات سامنے آئے ہیں‘جن کے بارے میں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری اور عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے ایک بات اس رپورٹ سے سامنے آئی ہے کہ گجرات میں سکیورٹی کی کمی تھی‘یہ کیوں ہوئی اور اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اس بارے میں سارے حقائق فی الوقت سامنے نہیں لائے جاسکے۔ البتہ جے آئی ٹی کے مطابق ملزم کا اعترافی بیان ڈی پی او گجرات نے اپنے موبائل فون سے ریکارڈ کروایا‘کیا ڈی پی او گجرات جو ایک پنجاب کے ضلع کے ڈی پی او ہیں‘ان کا قومی میڈیا سے اتنا تعلق تھا کہ فوری طور پر یہ ویڈویو چند ہی منٹوں میں قومی ٹی وی چینلز پر اور چند صحافیوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس پر چلنے لگی۔ بات صرف اس سوال پر آکر نہیں رک جاتی بلکہ فواد چوہدری کے مطابق جے آئی ٹی کے روبرو ان کی پنجاب میں حکومت ہونے کے باوجود ڈی پی او گجرات نے پیش ہونے سے انکار کردیا‘انہوں نے اپنا موبائل فون بھی فرانزک کیلئے جے آئی ٹی کو فراہم کرنے سے صاف انکار کیاہے۔ اس وقت کے آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے بھی معذرت کی کہ ڈی پی او گجرات کا فون جے آئی ٹی کو فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ فیصل شاہکار کو پی ٹی آئی کے مطابق یو این میں بھاری تنخواہ پر عہدہ دیا گیا ہے، اب یہ سوال فطری طور پر ہر انسان کے ذہن میں ابھر رہا ہے کہ جس طرح ملزم نوید کو طوطے کی طرح بیان رٹوایا گیا‘ ویڈیو سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ الفاظ ڈالے جارہے تھے‘ وہ کون سے لوگ تھے جنہو ں نے اس حملے کی پلاننگ کی‘ایک بات واضح ہوتی ہے کہ عمران خان کو قتل کرنا مقصود تھا‘جس کے بارے میں فواد چوہدری کہتے ہیں کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عمران خان پر حملہ پری پلان حملہ تھا۔ سانحہ وزیر آباد کے بعد فوری طور پر یہ کہا جانے لگاتھا کہ حملہ آور تین تھے‘ملزم کا بیان صرف اعترافی بیان نہیں تھا‘اس میں کئی پہلو اور حقائق خراب کرنے کی بھی پوری سازش شامل تھی‘ ایک تو ملزم نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ مذہبی جنونی ہے اور اس نے عمران خا ن کو مذہبی جذبات مجروح ہونے پر نشانہ بنایا‘خود عمران خان تواتر سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ ان کیخلاف مذہبی جذبات اس لئے بھڑکائے جارہے ہیں تاکہ انہیں قتل کروا کر کل کلاں کہا جائیگا کہ مذہبی جنونی نے ایسا کیا‘ اس ملزم کے اعترافی بیان نے عمران خان کے اس خدشے کو درست ثابت کردیا۔ویسے بھی پی ٹی وی پر جیسے عمران خان کو مذہبی اعتبار سے جس طرح ٹارگٹ کیا گیا تھا‘ایسے حملے کے بعد ملزم کا بیان ناقابل نظرانداز ہے‘دوسرا یہ کہ ملزم نے کہا کہ وہ اکیلا تھا اور اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا‘ یہ جھوٹ اس سارے بھیانک کھیل کو خراب کرگیا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے اس مقدمے کو خراب کیا گیا‘ جائے وقوعہ کی فوری طور پر شواہد اکٹھے نہ کرنے کے باعث صفائی ہوگئی۔تاہم حملے کے بعد پی ٹی آئی کے کنٹینر پر موجود کئی رہنما کہہ رہے تھے کہ گولیاں تین اطراف سے چلیں‘ اب جے آئی ٹی رپورٹ میں اس کی تصدیق کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ معظم شہید کو گولی اس شوٹر کی لگی‘جس کا ٹاسک ملزم نوید کو عمران خان کے قتل کے بعد قتل کرنا تھا‘اس لحاظ سے اس پلاننگ کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیا قت علی خان کے قتل کی سازش سے مماثلت دی جارہی ہے۔ جے آئی ٹی کے مطابق موقع پر چودہ گولیوں کے راؤنڈ فائر ہوئے جن میں سے 9گولیوں کے خول قریبی عمارت سے ملے‘گویا جے آئی ٹی نے کم از کم اتنا ثابت کردیا ہے کہ عمران خان پر ہونے والا حملہ اتنا سادہ نہیں‘جتنا اسے بتایا جارہا ہے۔کیونکہ اس حملہ کی ایف آئی آر عدالت کی مداخلت پر درج کی گئی‘جسے عمران خان اور پی ٹی آئی نے تسلیم کرنے سے انکار کیا کیونکہ ایف آئی آر ان کی مرضی اور منشا کے علاوہ حقائق کے برعکس درج کی گئی تھی‘ ملزم نوید کا ایک اعترافی بیان آنے کے بعد جے آئی ٹی کی طرف سے یہ نقطہ پیش کرنا کہ سی ٹی ڈی نے دیوار کا رنگ و روغن کردیا‘ انہیں سی سی ٹی وی فوٹیج دینے سے انکار کیا گیا‘ یہ بہت سنگین نوعیت کا الزام ہے‘جس پر عمران خان خود سوال کررہے ہیں کہ سی ٹی ڈی‘ڈی پی او گجرات اور دیگر لوگوں پر کس کا دباؤ تھا؟ فواد چوہدری کے مطابق عمران خان کی سکیورٹی گجرات سے پہلے بہت اچھی اور سخت رہی لیکن گجرات میں کمزور کردی گئی‘کیوں؟ جواب کی تلاش کیلئے پی ٹی آئی کو ڈی پی او گجرات کے موبائل فون کی تلاش ہے‘کیوں ہے؟ جے آئی ٹی رپورٹ میں وفاقی اداروں کے عدم تعاون سے مزید کئی ابہام جنم لیتے ہیں۔