ارشاد ہے ’’ یاد رکھو … سمجھ لو کہ قضا و قدر کے ہر حکم کیلئے اللہ تعالیٰ نے اسباب رکھے ہیں‘‘۔ یونان کے ہی ایک مفکر نے ہزاروں سال پہلے کہا تھا کہ انسان کا مزاج ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔وقت کی سان پر یہ باب کھلا کہ یکساں حالات میں ایک جیسے مزاج میں، ایک جیسے عروج میں اور زوال میں شخصیات کے ردِ عمل ہی نتائج کو جنم دیتے ہیں۔ نتائج تقدیر بن جاتے ہیں۔ ابن خلدون جیسا تاریخ دان پھر قوموں کے عروج و زوال کے اسباب لکھتا ہے۔ قوموں اور انسانوں میں جزو اور کل ہی کا فرق ہوتا ہے۔ ہر اکائی اپنے کل جیسی ہوتی ہے۔ اگر کبھی مختلف ہو تو قوم کا لیڈر جنم لیتا ہے۔ کبھی جارج واشنگٹن، تھامس جیفرسن، ابراہام لنکن، قائداعظم اور کبھی ذوالفقار علی بھٹو کبھی عمران خان۔ مگر اس وقت بات امریکہ کی نہیں پاکستان کی ہے۔ قائداعظم کے باب میں دانش اور استقلال نے ان نتائج کو جنم دیا جن پر انگریز اور ہندو مورخ آج بھی حیرت زدہ ہیں۔ ناقد کی عادت ہوتی ہے کہ وہ کامیابی کا کریڈٹ اگر مگر کے ذریعے ہیرو سے چرانے کی کوشش کرتا ہے مگر کامیابی خود کو منوالیتی ہے۔ کامیابی کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اگر لیڈر کا مزاج اس پر گرفت نہ کرسکے تو یہ ہاتھ سے پھسل کر ڈھلوان پر لڑھکنے لگتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ممدوح بھی بے شمار ہیں اور ناقدین بھی۔ کوئی اس کا تقابل ضیاء الحق سے کرتا ہے تو کوئی اس کا موازنہ امریکی صدر جان ایف کینڈی سے کرتا ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام پر لیکچر دیتے ہوئے اچانک مجھ سے ایک میچور سٹوڈنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو پر سوال کر ڈالا۔ اس کی پرسنیلٹی پر … پروفائل پر، عروج پر، زوال پر تو پوری کلاس کو بتانا پڑا کہ ذوالفقار علی بھٹو دنیا کی ان شخصیات میں سے ہیں جو پاپولر اور کرشمہ ساز ہوتی ہیں جن کا نام اُس عہد کے بڑے ناموں کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ جیسے انڈونیشیا کے سوئیکارنو، مصر کے جمال عبدالناصر، انڈیا کی اندرا گاندھی، فلسطین کے یاسر عرفات، الجزائر کے حوری بومدین، اور بہت سے نام۔ مگر اس پاپولر لیڈر کے مزاج کے اندر ہی اس کے زوال کے اسباب بھی تہہ بہ تہہ موجود تھے۔ پیر پگاڑا سے سکندر مرزا تک اور سکندر مرزا سے جنرل ایوب تک اس کا سفر بڑا تیز تھا۔ مذہبی سیاست اور مسلم لیگ کی مڈل کلاس پالیٹکس کو درہم برہم کرکے جب وہ اقتدار کی سیڑھی کے آخری زینے تک آگئے تو ان کے اندر کے تضادات اور بیرونی عوامل نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ باقی سفر تقدیر کا ہے جو تدبیر کے بطن سے نکلتی ہے۔ تدبیر پیدا ہوتی ہے حالات سے اور ان سے کھیلنے والے کے مزاج اور فیصلوں سے۔ بینظیر اور نواز شریف سیاست کی اس تقسیم کے وارث تھے جو بھٹو اور ضیا سکول آف تھاٹ کے پیدا کردہ تھی۔ لوگ اندھا دھند، بی بی اور بابو کو فالو کرتے تھے۔ سندھ کی بیٹی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی خواہاں رہی اور صلح کرتے کرتے بہت دور نکل گئی۔ اسے یہ یقین دلانے والوں میں آصف زرداری اور پنجاب کے بعض کوڑے کھانے والے نام بھی شامل تھے کہ بی بی میاں نواز شریف کی چمک زدہ سیاست کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں بھی کمرشل سیاست کا ڈول ڈالنا ہوگا۔ بی بی آئیڈیلسٹ تھیں مگر کمرشل سیاست کا مقابلہ کرتے کرتے کیا ہوا؟ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی دنوں ایک جیسی ہوگئیں۔ سیاست میں سے نظریہ ختم کرنے کا کریڈٹ 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن کو جاتا ہے مگر اس کا عروج ہمیں 1988ء کے بعد نظر آتا ہے جب پیپلز پارٹی بھٹو کا ورثہ، اس کی پھانسی اور قربانیوں کا صلہ مانگ رہی تھیں تو میاں نواز شریف اپنے مزاج اور پس منظر کے تحت حلقوں کی سیاست سے پورے پنجاب کی سیاست کو کچھ حلقوں کی آشیرباد سے چمک سے آشنا کر رہے تھے۔ 1988ء سے 1999ء تک نہ کوئی نظریہ تھا نہ عوام کی فلاح۔ سیاست کا رنگ نظریاتی سے کمرشل ہوتا چلا گیا۔ نظریاتی کارکنوں کی جگہ ٹھیکیدار آگئے، قبضہ گروپ پید اہوگئے، پریشر گروپس نے جنم لے لیا۔ الیکشن لڑنا کمرشل انوسٹمنٹ بن گئی۔ حلقے کی سیاست مہنگی سے مہنگی تر ہوتی چلی گئی۔ سیاست بدلی تو حکومت کا رنگ بدل گیا۔ پرویز مشرف آئے تو اس میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے بلکہ اسی بینڈ ویگن، باجہ اور بارات کے ساتھ چیف ایگزیکٹو کا سہرا باندھ کر قوم کے لیڈر بن گئے۔ پاکستان کے وسائل دھڑا دھڑ ملک سے باہرمنتقل ہوتے چلے گئے۔ منی لانڈرنگ سائنس اور آرٹ کا درجہ پاگئی۔ ادائیگیوں کا توازن بے تحاشہ بگڑ گیا۔ ہم قرضے لیتے گئے اور ان قرضوں کو بیرون ملک پراپرٹی بنانے میں صرف کرتے گئے۔ سود دَر سود اور قرض در قرض پاکستان کا مقدر بنتا چلا گیا۔ آج کے عہد میں جنگیں روایتی اسلحہ سے نہیںلڑی جاتیں۔ جنگ کا میدان اور طریقہ دونوں بدل گئے ہیں۔ اسے جنرل باجوہ ففتھ جنریشن وار کا نام دیتے ہیں۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل نے اس کے سارے حربے پاکستان کے لیے مختص کردیئے۔ بے پناہ شاعر منیر نیازی کے بقول … کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن … کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی۔ ہماری معاشی قریب المرگی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں88ء سے اب تک شاید اس سے بھی پہلے کی وہ سیاسی وجود ہے جو نعروں اور تقریروں میں تو سیاست مگر حقیقت میں کاروبار کرتی ہے۔ مگر ستم تو یہ ہے کہ جن بیچاروں کے خواب اور تعبیریں یہ بیچتے ہیں وہی ان کے جلسوں کی رونق بھی بڑھاتے ہیں۔ عمران خان اس لوٹ مار کے صحرا میں عوام کی امیدوں کا نخلستان تھا … یا ہے۔ مگر اس کا المیہ یہ ہے کہ اس نے اقتدار کی دیوی کو چھونے کی تمنا میں وہی چہرے، وہی ٹھگ، وہی آزمودہ لٹیرے، وہی وارداتیے پارٹی میں لے لیے جن پر شاعر نے کہا تھا مجھ سے سرگوشی کے لہجے میں بہاروں نے کہا: پھول جو دامن میں بھر لائے ہو پتھر ہی نہ ہوں کوئی کچھ بھی کہے، پاکستان میں فیصلہ ساز حلقے اور قوتیں اس وقت پاکستان کی سلامتی پر جس برین سٹارمنگ سے گزر رہی ہیں اس میں دشمن قوتوں کے وہ سارے حربے بھی شامل ہیں جو غیر روایتی جنگ کی بریکٹ میں آتے ہیں۔ آصف زرداری اور نواز شریف شعوری طور پر دشمن کے آلہ کار نہ تھے مگر وہ سب کچھ کر رہے تھے جس سے پاکستان کمزور سے کمزور تر ہورہا تھا۔ آپ کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور آپ دشمن کا ہاتھ بٹا رہے ہوتے ہیں۔ اپنے مزاج سے، اپنی سستی سے، اپنے فیصلوں سے، فیصلوں میں تاخیر سے، فیصلے نہ کرنے سے، صرف حلوہ کھانے تک محدود رہنے سے۔ عمران خان کرپٹ نہیں ہیں مگر جس معاشی بحران سے پاکستان دوچار ہے، کیا عمران خان اور ان کی ٹیم اپنے فیصلوں اور گورننس کے ساتھ انہیں ہینڈل کرسکتی ہے؟ عمران خان کی ٹیم اور پھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور اسد عمر کی پرفارمنس کو دیکھ کر اُمید کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت عمران خان وہی کچھ کر رہے ہیں جو ملک کی بہتری کا تقاضہ ہے مگر نتائج نہیں نکل رہے۔ مہلت محدود ہے۔ عالمی اداروں کا دبائو خاصا شدید ہے۔ اگر یہ معاشی اور سیاسی بحران ختم نہیں ہوتا تو؟ تو شاہ محمود اور جہانگیر ترین کے اختلافات کی سیاہی اور بھی پھیل جائے گی۔