تین چار سال کی عمر تک اس کی، جسامت ایسی ہی تھی کہ ایک نارمل آدمی کی ٹانگوں کے بیچ سے کھڑا کھلوتا نکل جائے۔ باتیں کرتا تو لگتا جیسے اس کا خمیر فلسفے کی راب میںگوندھا گیا ہے۔ ایک دن ایک جاننے والا مچھلیاں شکار کر کے گھر دے گیا۔ اس کی ماں بیٹھی ان کی چھیل چھال یا چیر پھاڑ کر رہی تھی۔ یہ سارا منظر چپکے سے دیکھتا رہا، پھر اچانک بولا: ’’ ماما مچھلی کے اندر جو کانٹے ہوتے ہیں، وہ مچھلی کو نہیں چبھتے؟‘‘ ایک دن دونوں بہن بھائی سرخ لباس پہنے میرے پاس آئے تو مجھے بے اختیار پیار آیا، جس کا اظہار مَیں نے یہ کہہ کر کہا: ’ وہ آئے میرے اناردانے!‘‘ یہ جھٹ گویا ہوا: ’’اب آپ اپنا نام الف اشفاق کی بجائے الف انار رکھ لیں!‘‘ ایک دن باتوں باتوں میں ماں سے پوچھنے لگا: ’’ ماما! مَیں پیدا کیسے ہواتھا؟‘‘ اس نے روایتی ماؤں کی طرح جان چھڑانے کے لیے کہہ دیا: ’’ایک دن تمھارے پاپا بڑا سا انڈا لائے تھے، ہم نے اُس کو توڑا تو بیچ میں سے تم نکل آئے!‘‘ فوراً بولا: ’’ماما اتنا بڑا انڈا دیا کس نے تھا؟‘‘ ہر بچے کی طرح اسے بھی بچپن میں چیجی (چیز، دکان سے ملنے والی ٹافیاں، گولیاں) لینے کا بہت شوق تھا، لیکن چیجی کا اپنا ہی معیار تھا۔ کیلے سیب لاتے تو کہتا: ’’چیجی اتنی بڑی نہیں ہوتی ‘‘ کھجوریں پیش کی جاتیں تو ارشادہوتا: ’’چیجی میں گُٹھلی نہیں ہوتی‘‘ پکوڑے سموسے دیتے تو کہتا: ’’’چیجی میں مرچیں کہاں سے آ گئیں؟‘‘ ہوتے ہوتے ہمیں اسی کے خود ساختہ معیار کے آگے سجدہ ریز ہونا پڑتا۔ ایک دن ذکر چلا کہ عید کے دن شیطان روزہ رکھتا ہے۔ بولا: ’’اُس کی سحری کون بناتا ہے؟‘‘ زمین پہ رینگتی چیونٹیاں دیکھتا تو پوچھنے لگتا: کیا یہ بھی انسانوں کی طرح کھاتی پیتی ہیں؟ ہم نے ایک بار ہاں کیا کہہ دیا،پھر تو شروع ہو گیا… ’’ کیا چیونٹیوں کے بچے بھی سکول جاتے ہیں؟ کوئی چیونٹی اگر گانا چاہے تو ان کے ٹی وی چینل ہوتے ہیں؟‘‘ ذرا بڑا ہوا تو ہم نے بھی بزرگوں کی طرح بچوں کو لاجواب کرنے کی خاطر سینہ بہ سینہ چلتا آ رہا شیر، بکری اور گھاس کو کشتی میں دریا پار لے جانے والا سوال پوچھ لیا۔ پھر گھر میں آئے بچوں سے یہ سوال پوچھا جانے لگا۔ ایک دن تنگ آ کے کہنے لگا:’’ آسان حل تو یہ ہے کہ ایک ہی بار گھاس بکری کو اور بکری شیر کو کھلا کر سب کو آزاد کر دیا جائے تاکہ شیر اپنی مرضی سے دریا پار کرے۔ ‘‘ ہم شیخوپورہ کے ایک کالج کے پرنسپل ہاؤس میں چودہ برس مقیم رہے۔ وہاں ایک سِخر دوپہر کو ماں نے اسے کالونی کے بچوں کے ساتھ بے دھڑک کھیلتے دیکھا تو خوب ڈانٹا، پھر سمجھاتے ہوئے بولی: ’بیٹا دھوپ میں نہ پھرا کرو، اس سے رنگ کالا ہو جاتا ہے‘… ’لیکن دھوپ کا اپنا رنگ تو سفید ہوتا ہے!!‘ ماں اس کو باہر جانے سے روکنے کے کئی جتن کرتی۔کبھی کہتی: ’’باہر نہ نکلا کرو، وہاں پٹھان ہوتے ہیں جو چھوٹے بچوں کو پکڑ لیتے ہیں۔ ایک دن ڈرانے کے لیے کہہ دیا: ’’ دوپہر کو باہر نہ جایا کرو، چڑیلیں ہوتی ہیں، جو باہر پھرتا ہے، اُس کو کھا جاتی ہیں! ‘‘ یہ خوف زدہ ہونے کی بجائے تصدیق کرنے آیا کہ پاپا آپ ہی سچ سچ بتائیں کہ دوپہر کو باہر پٹھان ہوتے ہیں یا چڑیلیں؟ مَیں نے مادرانہ ڈراوا قائم رکھنے کے لیے کہہ دیا: دونوں! ’’پھر چڑیلیں، پٹھانوں کو کیوں نہیں کھا لیتیں!‘‘ اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے لاڈلا تو تھا ہی، ہوتے ہوتے خود سر، حاضر جواب اور شریر بھی ہوتا چلا گیا۔ ہم کوئی بھی ہدایت، نصیحت، فضیحت، فرمائش، فہمائش کرتے تو اس کا جواب ٹینس کے بال کی مانند پلٹ کے آتا۔ اس کے ننھے سے ذہن میں جو نئی بات آتی، کوئی انوکھا منظر سامنے آتا، کوئی اُلجھن محسوس ہوتی، کہیں خیال کی سُوئی اٹکتی تو وہ سوالات کا پیرہن اوڑھ کر ہمارے سامنے کھڑی ہو جاتی اور ہم لاجواب ہو کر اِس کا منھ دیکھتے رہ جاتے۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ اس عطرِفتنہ کو ایسے کھکھیڑوں کا کیا جواب دیتے؟ ٭ پاپا لڑکیوں کا پرس بڑا اور لڑکوں کا چھوٹا کیوں ہوتا ہے؟ ٭ ٹانگے کے پہیے بڑے اور کار کے چھوٹے ہوتے ہیں، پھر کار تیز کیسے دوڑتی ہے؟ ٭ میری مونچھیں آنکھوں کے اوپر کیوں ہیں؟ کبھی متوسط گھروں میں ٹیلیفون ہونا سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا۔ بجٹ محدود ہونے کے پیشِ نظر ٹیلی فون سیٹ کو ننھا سا تالا لگا دیا جاتا، جس کی منحنی سی چابی کہیں چھپا دی جاتی۔ ایک دن اس نے چُنی مُنی سی چابی دیکھی تو مچل گیا کہ بس ہم تو یہی لیں گے! سمجھایا بھی کہ تم اسے گم کر دو گے۔ نہیں مانا، پھر تھوڑی دیر بعد منھ لٹکائے واپس آ گیا۔ ہم نے ڈانٹا کہ پہلے ہی کہا تھا کہ تم چابی گم کر دو گے! نہایت رسان سے بولا: ’’وہ تو پہلے ہی گم ہونے والی ہوئی ہوئی تھی!!‘‘ ایک دن باہر سے آیا تو پیار سے چمکارا کہ اِدھر آ کے ایک پپی تو دے دو! ہاتھ اپنے منھ پہ رکھ کے کہنے لگا: پاپا آپ ہاتھ کے اوپر ہی سے پپی کر لیں۔ ہم نے اصرار کیا تو گود میں چڑھ کے اپنا منھ میری بڑھی ہوئی شیو پہ رگڑنا شروع کر دیا، کہنے لگا: آپ روز مجھے داڑھی چبھوتے ہیں، آج مَیں بھی آپ کو داڑھی چبھوؤں گا! لیکن آپ کی تو داڑھی ہے ہی نہیں! ’’مَیں آپ ہی کی شیو پریس کر کے آپ کو واپس چبھو رہا ہوں!!‘‘ ایک دن کہیں سے ایک روپے والے بڑے سِکے، جو تانبے کے سُکے سِکے سے پہلے رائج تھے، لے آیا۔ ہم نے استفسار کیا کہ جب بازار میں ہر طرف ہلکے پھلکے سِکے موجود ہیں تو ان کو لانے کی کیا تُک تھی؟ کہنے لگا: ’’ یہ اندھے بھکاریوں کے لیے لایا ہوں۔ مَیں ان سے ایک روپے کے عوض پانچ روپے کا ثوابِ دارین حاصل کروں گا۔‘‘ کبھی کبھار بچوں کو اپنی عسرت کے واقعات بھی سنایا کرتا، جن میں ایک یہ بھی تھا کہ ہمارے سکول کے باہر ایک شخص چنے چاٹ کی ریڑھی لگاتا تھا، جو مجھے بہت مزے دار لگتے لیکن جیب میں محض چار آنے ہوتے، جس سے آدھی پلیٹ ملتی۔ میٹرک کے پورے دو سال یہ حسرت ہی رہی کہ کبھی پوری پلیٹ بھی کھاؤں۔ بات رفت گزشت ہوئی، بہت سالوں بعد جب یہ خود کالج میں پڑھتا تھا، ہم اسی سکول کے دروازے کے سامنے سے گزرے۔ یہ کار ڈرائیو کر رہا تھا کہ اتفاق سے وہاں ایک ریڑھی والا نظر آیا۔ گاڑی روک کے کہنے لگا:’ پاپا آپ بھی کیا یاد کریں گے، چلیں اتریں آج مَیں آپ کو پوری پلیٹ کھلاتا ہوں!‘ یہ شریر بچپن ہی سے ہٹ کا پکا تھا۔ ایک بار کہہ دیا کہ زندگی میں نوکری نہیں کروں گا، تو اسی پہ ڈٹ گیا۔ ایف سی کالج سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاپان سدھارا۔ ڈرائیونگ لائسنس ملا تو کاروبار شروع کر دیا۔ کچھ عرصے بعد ولیمے کی رقم جمع ہو گئی تو پیسوں کے ساتھ لڑکی کی تصویر اور اس کے والدین کا نمبر بھی ارسال کر دیا۔ مختصر یہ کہ آج میرے اسی عانی (عانش احمد وِرک)دلبر جانی کی دعوتِ ولیمہ ہے!!!