ہمارا حال یہ ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتو ں کو اقتدار ملا ہوا ہے لیکن اب تک سیلاب متاثرین کے مسائل حل نہیں کر پائے‘ویسے باتیں ہم سے سننی ہو ں تو دنیا جہاں کی سن لیں‘ناقص کارکردگی پر کوئی حکومت سے سوال کرے تو گھنٹے تک کارکردگی بتانے کی ناکام کوشش میں خاموش نہیں ہوتے۔ حکومت نے ملک اور عوام کا جس حد تک بھڑکس نکال دیا ہے‘حکومت پر کوئی اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں۔ المیہ البتہ یہ ہے کہ حکومت اپنی ناکامی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہو رہی‘بار بار انتخابات سے فرار اختیار کرتی ہے‘ اسی طرح ایسے شوشے بھی چھوڑے جاتے ہیں کہ انتخابات اگست میں بھی نہیں کروائے جائینگے اور ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ لایا جائیگا۔ موجودہ حالات کے بارے میں فقط اتنا کہا جاسکتا ہے:حکومت اور اس کو لانے والے تمام کردار بے نقاب ہوچکے ہیں‘جن کا خیال تھا کہ شہباز شریف پنجاب سپیڈ کی طرح وفاق میں حکومت کے ذریعے کایا پلٹ دینگے‘ اسحاق ڈار کو سرکاری طیارے میں پاکستان لایا جائیگا اور وہ معیشت کو انقلاب کی راہ پر گامزن کردینگے تو انہوں نے کیا کیا ہے؟ یہ سب کے سامنے ہے۔ اسحاق ڈار نے معیشت کا تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے ڈالر کا اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ریٹ کا اتنا فرق ہے کہ ملک بھر کے سرمایہ کار‘صنعتکار اور ہر کاروباری حلقہ بلبلا اٹھا ہے‘ملک میں معیشت نام کی کوئی شے باقی نہیں رہی‘صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری سے وابستہ پندرہ لاکھ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں‘ ٹیکسٹائل کی مختلف مشینریز کباڑ میں کوڑیوں کے بھاؤ بک رہی ہے‘ اوپر سے تماشہ یہ کہ ملک میں توانائی بچت کے نام پر ایک نیا ہنگامہ برپا کردیا گیا‘رات ساڑھے آٹھ بجے مارکیٹیں بند کرنے اور شادی گھر و ریسٹورنٹس رات دس بجے ملک بھر میں بند کرنے کا اعلامیہ جاری کیا گیا‘ بتایا گیا کہ ملک میں 62ارب کی بچت کرنے جارہے ہیں‘ ایسی اطلاعات بھی سامنے ہیں:پٹرولیم لیوی کو 100روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ بجلی‘گیس کی قیمتوں میں ازسر نو اضافے کی منظوری وزیر اعظم کیساتھ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی‘ساتھ ہی فرمان شاہی نازل ہوا:معیشت پر ابہام پیدا کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائیگا‘ اداروں کو سوشل میڈیا پر معیشت سے متعلق ابہام پیدا کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت کر دی گئی۔ یہ موجودہ 13 جماعتوں کی حکومت‘ پنجاب سپیڈ کے وزیر اعظم شہباز شریف‘ انقلابی وزیرخزانہ اسحا ق ڈار کے کارنامے ہیں‘ کیا عوام اتنی بدترین مہنگائی میں سسک سسک کر زندگی بسر کرے اور اپنا احتجاج سوشل میڈیا کے ذریعے ریکارڈ بھی نہ کرواسکے‘یہ کیسا ظلم ہے‘جمہوری معاشروں میں عوام درپیش مسائل کاا ظہاراور ان کے حل کیلئے مطالبات احتجاجی مظاہروں‘احتجاج‘پریس کانفرسوں وغیرہ کے ذریعے سامنے لاتی ہے‘ موجودہ دور میں سوشل میڈیا بھی اس مقصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے‘سوشل میڈیا پر جو لوگ بیرون ملک بیٹھ کر ابہام پیدا کرتے ہیں‘حکومت کے سچے جھوٹے کرتوت اجاگر کرتے ہیں‘ ان کیخلاف تو حکومت کوئی کارروائی نہیں کرپاتی لیکن اندرون ملک مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام پر ہر طرح کا بوجھ ڈالنے پر تلی رہتی ہے‘یہاں سوال یہ بھی ہے کہ موجودہ 13جماعتو ں کی حکومت کو عمران خان کی ہر خامی نظر آتی ہے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی سیاست کا جنازہ نکالنے صرف اور صرف عمران خان پر تنقید کرنے‘انہیں اور ان کی جماعت کو جبر کے نشانہ پر رکھنے اور محض ان کی کردار کشی کرنے کیلئے آئے ہیں‘ان سے کوئی کام نہیں ہو پایا اور مزید کچھ ہوتا نظر بھی نہیں آرہا‘افسوس کا مقام ہے کہ وزیر اعظم سیلاب کے کئی ماہ بعد سیلاب کی تباہ کاریوں کا بتا رہے ہیں‘کہہ رہے ہیں: دس لاکھ گھر سیلاب میں بہہ چکے‘ ان سے قبل وفاقی وزیر شیریں رحمان نے اعتراف کیا تھا:وطن عزیز میں دو کروڑ سیلاب متاثرین فوری امداد کے منتظر ہیں‘ ان تک کیا امداد پہنچ گئی؟ یقینی طور پر ایسا نہیں ہوسکا‘ البتہ 80کے قریب وفاقی کابینہ اپنے شاہانہ اخراجات کم کرنے کیلئے تیارنہیں‘وزیر اعظم کو طویل وفاقی کابینہ کی فوج ظفر موج اور ان میں سے 22کے پاس کسی قسم کی کوئی وزراتوں کے قلمدان نہ ہونے پرنیند نہیں آنی چاہیے۔ عمران خان نے حکومت کی معاشی و اقتصادی ناکامی پر وائٹ پیپر بھی جاری کردیا ہے‘جس پر حکومت نے اپنی اصلاح کرنے کی بجائے‘اسحاق ڈار نے ایک لمبی پریس کانفرنس دے ماری‘حقائق کو مسخ کرکے روند ڈالا اور اتنا گمراہ کیا کہ شاید جھوٹ بھی شرما جائے۔اسحاق ڈار پی ٹی آئی کے وائٹ پیپر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش تو قرار دے گئے لیکن یہ بتاتے ہوئے کہ عالمی منڈیوں میں تیل مہنگا ہے‘ بھول گئے کہ موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے‘بچے بچے کو علم ہے کہ عالمی سطح پر پٹرول سستا ہوچکا ہے‘درحقیقت یہ لوگ تاحال نوے کی دہائی سے باہر نکلنے کیلئے تیار نہیں‘ان کا خیال ہے کہ جس طرح مرضی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہیں گے‘ان کو کوئی پکڑ نہیں پائیگا۔ عوام حقائق سے بے خبر رہینگے مگر موجودہ دور میں ایسا نہیں ہوسکتا‘حکمران بری طرح بے نقاب ہوچکے ہیں‘ ان کا سیاسی بیانیہ پٹ چکا ہے‘یہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بھی دہشتگردی کے قلع قمع سے ہٹ کر مدد کے طلبگار رہے‘اس کے بعد جب وفاقی کابینہ نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اعلامیہ کی توثیق کی تو تب بھی اصل مدعا دہشتگردی کی بجائے معیشت کے بگاڑ رہا اپنی نا اہلی کا سارا ملبہ عوام پر ڈالنے کی کوششوں میں رہے۔دہشتگردی کے حساس ایشو پر بھی سیاست سے باز نہیں آتے‘ بلاول بھٹو زرداری بھول گئے کہ وہ ملک کے وزیر خارجہ ہیں‘ انہوں نے عمران خان پر 50لاکھ طالبان ن کو پاکستان لاکر آباد کرنے‘کے پی کے حکومت کے ان سے بھتہ لینے کا الزام عائد کیا‘شاید بلاول اپنی سیاسی زندگی کے حقائق سے بھی با خبر نہیں‘ عمران خان کو طالبان خان کیوں کہاجاتاتھا‘سوچیں‘یہ بھی سوچیں کہ ن لیگ مذاکرات کی بات کیوں کرتی ہے‘ بہرحال ان سے کسی قسم کے مطالبے کرنے اور توقعات وابستہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا‘ جب سیلاب آیا تھا تو کہتے تھے عمران خان سیلاب پر سیاست کررہا ہے‘اب بتایا جارہا ہے کروڑوں سیلاب متاثرین امداد کے منتظر ہیں‘ ان حکمرانوں سے زیادہ تماشے تو بہروپیے بھی نہیں کرتے!