ہم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ امت اسلامیہ کی موجودہ وضع اس شکست کا نتیجہ ہے‘ جس میں اسلامی خلافت کی بیخ کنی کی گئی اور مغربی طاقتوں نے اسلامی دنیا کو آپس میں بانٹ لیا اور ہر حصے پر علیحدہ علیحدہ طاقت مسلط ہو گئی‘ اس کے بعد کتنے ماہ و سال بیت گئے کہ مسلمان ذلت‘ غلامی اور محکومیت میں زندگی بسر کر رہے ہیں‘ آزادی اور خود مختاری سے محروم ہیں‘ سیاسی‘ اقتصادی اور فکری لحاظ سے استعماری طاقتوں کے غلام ہیں‘ انہوں نے اپنی کٹھ پتلی حکومتیں ان پر مسلط کی ہوئی ہیں‘ ایسے جبر اور استبداد کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی مثال دنیا کے کسی گوشے میں نہیں ملتی۔ ان کے حکمران غیر کے آگے ذلیل اور حقیر جبکہ قوم کے سامنے مغرور اور بے رحم ہیں‘ خود دوسروں کے غلام اور عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔غلامی‘ ذلت اور محکومیت کی ایسی درد ناک صورت حال میں مسلمانوں میں عزت نفس کا احساس‘ آزادی اور خود مختاری کا جذبہ‘ سربلندی‘ خود داری( ملی عصبیت) کی زندگی کی تڑپ اور بے تابی دم توڑ چکی ہے۔ایک وقت تو وہ تھا جب تمام اسلامی ممالک پر استعماری طاقتیں براہ راست اپنی فوجوں کے زور پر حکومت کرتی تھیں مگر جب یہ طاقتیں اپنے خاص عوامل کی وجہ سے نکل گئیں تو اپنے پیچھے ایسی رژیم (حکمران گردھا چھوڑ گئیں جو ان کے مفادات کی محافظ ہیں ان (اسلامی ممالک کی مسلح افواج کی ایسی تنظیم کی اور ایسے ڈھانچے تشکیل دیے کہ وہ کٹھ پتلی حکومتوں کی مدافعت اور قومی بیداری کو کچلنے کے لئے ان طاقتوں کی خدمت میں دست بستہ کھڑی رہتی ہیں۔ایسا تعلیمی نظام اور نصاب تشکیل دیا کہ تعلیمی اداروں کے زیر سایہ جوان ہونے والی نسل میں آزادی اور خود اختیاری کا جذبہ پرورش نہ پا سکے بلکہ دوسروں کی غلامی اور تقلید پر احساس تفاخر میں مبتلا ہوں اور اپنے ملی اور اسلامی تشخص سے بیگانہ ہو جائیں۔جاتے وقت ان ممالک کے جغرافیائی نقشے اس طرح ترتیب دیے کہ ایک طرف تو ان ممالک کے درمیان ہمیشہ سرحدی تنازعات چلتے رہیں اور دوسری طرف ان ممالک میں آباد قومیں اور قبیلے جو ان استعماری قوتوں کے ساتھ لڑتی رہی تھیں اور ان کی ہئیت ترکیبی ایسی تھی کہ غلامی سے لگا نہیں کھاتی تھیں وہ آپس میں مختلف ملکوں میں تقسیم ہو جائیں‘ اقتدار سے نکال دی جائیں اور اختیارات ان اقلیتوں کو منتقل ہو سکیں، جنہوں نے ان استعماری قوتوں کی پشت پناہی کی تھی اور مستقبل میں ہمیشہ ان پر انحصار کرنے پر مجبور ہوں اور اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لئے ان کی تمام شرائط ماننے پر تیار رہیں۔ان کی اچھی مثالیں پٹھان اور کرد ہیں جنہیں ان استعماری قوتوں کے ساتھ مسلسل جنگ کے شعلے بھڑکائے رکھنے کے جرم میں علی الترتیب تین اور چار حصوں میں تقسیم کیا گیا استعماری قوتوں نے اس طویل عرصے میں وسیع پراپیگنڈے کے ذریعے قومی‘ لسانی اور علاقائی تعصبات کو اتنی ہوا دے دی کہ کوئی بھی وسیع تر اور متحدہ ملت اور امت کا تصور منصوبہ بندی نہ کر سکے۔استعمار کی کھینچی گئی سرحدی لکیریں ناقابل تغیر اور مقدس قرار پا جائیں‘ اس درے کے رہنے والے اس درے کے رہنے والوں کو پرانے اور حتمی دشمن سمجھ بیٹھیں اور اصل دشمن کو بھول جائیں۔یہ لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اسلامی ممالک کے اکثر حاکم نظام یا دوسروں کے تھوپے گئے ہیں اور اسلامی ممالک میں استعمار کی باقیات ہیں یا خاندانی ہیں جو کسی خاص گھرانے نے عوام کی رائے کے خلاف زبردستی اور دوسروں کی مدد کے سہارے ان پر ٹھونس رکھے ہیں یا فرقہ وارانہ اور قومی ہئیت ترکیبی پر استوار کئے گئے ہیں۔ کسی ایک مذہبی فرقے کے حامی تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں رکھتے ہیں اور دوسروں کو ان کے اسلامی اور انسانی حقوق سے محروم کئے ہوئے ہیں‘ ان کے سیاسی اور مذہبی پیشوا قتل کئے جا رہے ہیں‘ کوئی شیعہ کا سہارا لے کر سنیوں کو قتل کر رہا ہے اور کوئی سنی کا جامہ پہن کر شیعوں کا استحصال کر رہا ہے‘ اسلامی ممالک کے ان دردناک حالات پر وہی شخص راضی ہو سکتا ہے جو غلامی اور محکومیت میں پرورش پا کر جوان ہوا ہے‘ غلامانہ ذہنیت رکھتا ہے‘ آزادی کو نہ جانتا ہے نہ کبھی اس کا مزا چکھا ہے۔یا وہ شخص اپنے معاشرے میں پھیلے ہوئے فساد ‘ ظلم ‘ بے انصافی اور بدامنی سے بے خبر ہے‘ جو یہ جانتا ہی نہیں کہ اس کے اردگرد کیا ہو رہا ہے‘ ہر روز کتنے گھر اجڑ رہے ہیں‘ کتنے بے بس انسانوں کے جان و مال اور عزت پر دست درازی ہو رہی ہے‘ سرمایہ دار کیسے سرمایہ دار بنے اور نادار کس طرح اور کس کے ظلم اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے اپنی ہر چیز سے محروم ہوئے؟ اسے معاشرے کی موجودہ حالت امن کی حالت نظر آ رہی ہے‘ یہ نہیں جانتا کہ یہاں صرف حکمران امن سے رہتے ہیں‘ حکمرانوں کے علاوہ کسی کو امن کا احساس نہیں ہو رہا‘ پچانوے(95) فیصد لوگوں کے مال و عزت محفوظ نہیں ہے‘ اگر آپ یہاں کسی عام آدمی سے پوچھیں کہ وہ پولیس والے کے پاس سے گزرتے وقت کیا محسوس کرتا ہے؟ جب اس کے گائوں میں پولیس آ جائے تو لوگ کیا محسوس کرتے ہیں؟ کیا ان کو دیکھ کر تحفظ کا احساس کرتے ہیں یا وردی میں ملبوس ڈاکو سمجھتے ہیں اور ان سے اس قدر خوفزدہ رہتے ہیں جتنے چوروں سے نہیں رہتے۔حکام اور قاضی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں‘ انہیں مظلوم کا حامی سمجھتے ہیں یا ظالم کا‘ دفتر میں افسر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں‘ اس کی عدالت اور امانت پر کتنا اعتماد کرتے ہیں۔نظام سے کیا فوائد اکٹھے کئے اور کیا بھلائی سمیٹی‘ یہ نظام کس سے ان کو بچا سکا ہے‘ کبھی اس کی عزت کا دفاع کیا ہے؟ اگر کیا تو کس کے مقابلے پر؟ آئیں دیکھیں پولیس روزانہ کتنے لوگوں کو اور کتنا تنگ کرتی ہے‘ ہر روز‘ ہر گائوں میں کوئی خاں‘ ملک‘ مالدار‘ زمینوں کا مالک‘ نادار دیہاتیوں پر کتنے ظلم ڈھاتا‘ کتنے لوگوں کی زمینیں‘ جائیدادیں طاقت ور کے ہاتھوں غصب ہوتی ہیں‘ بے کسوں کی کتنی بیٹیوں کے زبردستی نکاح پڑھائے جاتے ہیں‘ کتنی دوشیزائوں کی عزت لوٹی جاتی ہے‘ ہر روز‘ ہر دفتر میں کتنے ناجائز کام اور کتنی حق تلفیاں ہوتی ہیں۔ بیت المال میں کتنی خیانت کی جاتی ہے‘ حکمرانوں نے بیت المال سے جو نادار عوام سے ایک یا دوسرے بہانے ہتھایا گیا ہے‘ استفادہ کر کے‘ خوش حال زندگی گزارنے کے کیا کیا سامان کر رکھے ہیں اور عام لوگ کس قدر فقر‘ بھوک‘ خوف اور ذلالت سے بھر پور دردناک زندگی گزار رہے ہیں‘ تعجب ہے اگر کوئی اسے امن کا نام دے کر کہتا ہے کہ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے کہ موجودہ امن کو صدمہ پہنچ جائے یا یہ کہ اس وقت اس حالت کو بدلنے کی کوشش کی جائے جب ہمیں اطمینان ہو کہ ہم اس سے بہتر حالت لا سکتے ہیں۔ روس کے خلاف افغان جہاد میں صف اول کے رہنما اور ملت اسلامیہ خصوصاً افغانوں کے ہیرو جناب گل بدین حکمت یار کی تحریر سے ماخوذ ہے۔