میانمارکی فوج اور بدھ بھکشوئوں کی دہشتگردی سے بے کس، بے بس، لاچار، مجبور اور مظلوم روہنگیا مسلمانوں پر ننگ انسانیت مظالم کی لرزہ خیز داستانیں کسی کودکھائی دیں یانہ دیںان محکوم مسلمانوں کی زمین شق کرنے والی دلدوزچیخیں کسی کو سنائی دیں یانہ دیں لیکن خداضروردیکھتاہے اور سنتاہے۔بے شک خداکی لاٹھی بے آوازہوتی ہے۔ میانمار کی ریاست راخائن میں میانمارکی فوج اور بدھ دہشتگردوں کے ہاتھوں بے دردی سے روہنگیا مسلمانوں کے انسانیت کو شرما دینے والے اس قتل عام کی عالمی میڈیا کی رپورٹس ریکارڈ پر موجود ہیں جو روہنگیا مہاجرین کے کیمپوں میں آنے والے مسلمانوں کے انٹرویوز پر مبنی ہیں جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ راخائن کے مسلم اکثریتی علاقوں میں آپریشن کے نام پر بے حدوحساب نہتے مسلمانوں نوجوانوں بچوں بوڑھوں اور عورتوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ راخائن کے دو گائوں گائودرپین اوران ڈین میںکم ازکم 450مسلمانوں کی پانچ اجتماعی قبریں میانمارکی بدھ اورریاستی دہشت گردی کی گواہ ہیں۔ ان اجتماعی قبروں کا زمین پر پڑی انسانی ہڈیوں خون آلود کپڑوں اور آدھے دفن انسانی ہاتھ پائوں کی ہڈیوں سے پتہ چلاہے۔نعشوں کی شناخت مٹانے کیلئے ان پر تیزاب یا گوشت اور ہڈیاں گلانے والا کیمیکل ڈالا گیا اور بعض نعشوں کو پٹرول ڈال کر آگ لگا دی گئی۔عالمی میڈیا نے برمی فوج اور مقامی بدھ بھکشوئوں کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے منظم طریقے سے قتل عام کو طشت از بام کردیا۔ برمی فوج کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر قیامت توڑنے کا سلسلہ 2011 میں شروع ہوا اور بے یارومددگار مسلمانوں پر بدھ انتہا پسندوں کے بلوئوں کا آغاز ہوا۔اس وقت برما کی سالہا سال سے جلاوطن رہنے والی لیڈرآنگ سان سوچی اقتدار میں آچکی تھیں جنہیں جبر و آمریت کیخلاف طویل جدوجہد کے اعتراف میں نوبل امن انعام سے نوازا جا چکا تھا چنانچہ ابتدائی طور پر یہ تصور کرنا بھی ناممکن تھا کہ انسانی حقوق کی علمبردار سوچی کے دور حکومت میں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے ننگ انسانیت قتل عام کی بدھ انتہا پسندوں اور برمی فوج کو کھلی چھوٹ مل سکتی ہے ۔ جب روہنگیا مسلمانوں پر توڑے جانیوالے مظالم کی خبریں اور تصویریں سوشل میڈیا پر آنا شروع ہوئیں تو ان مظالم پر انسانیت بھی شرماتی نظر آئی مگر انسانی حقوق کی چیمپئن ہونے کی داعی عالمی قیادتوں اور عالمی اداروں بشمول اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی چونکہ مغربی یورپی دنیا میںمسلمانوںکے حوالے دہشتگردی کالیبل لگاکر زہریلی سوچ پھیلائی جارہی تھی اس لئے میانمار حکومت کو مظلوم روہنگیا مسلمانوں پر بھی دہشتگرد ہونے کا لیبل لگانے کی سہولت مل گئی اور یقینا اسی تناظر میںروہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر توجہ نہ کی اور نہ ہی کسی عالمی فورم پر انکے حق میں کوئی زوردار اور گرجدار آواز اٹھائی گئی۔ آن سانگ سوچی کی عالمی افق پرجومنظرکشی کی گئی تھی اس میں لگ یہ رہا تھا کہ یہ عورت انصاف کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے لیکن میانمار کی فوج اور بدھ بھکشوئوں کی دہشت گردی کے ہاتھوں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و تشدد، قتلِ عام اور جبری جلاوطنی جیسے امور پر آنگ سان سوچی نے خاموش تائید کی پالیسی اختیارکرلی اوران کی اس کے مجرمانہ عمل وکردارنے اسے پوری طرح ایکسپوز کر دیا اوراسکے چہرے سے معصومیت کانقاب اتر اوراس کا اصل بھیڑیانماچہرہ دنیائے اسلام کے سامنے آیا ۔70فیصد سے زائد روہنگیا مسلمانوں کو جس جبر کا سامنا کرنا پڑا وہ ایک تاریخی المیہ ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق ملک کے 11مختلف علاقوں سے ایک لاکھ 40 ہزار افراد لاپتہ ہوئے۔ 12 ہزار سے زائد مسلمانوں کو جلاوطن ہونا پڑا۔ 1300 مکانات اور 32مساجد کو مسمار کردیا گیا جبکہ اس ظلم عظیم پرآن سان سوچی کی درپردہ مکمل حمایت حاصل تھی۔بھیڑیانماچہرے کی حامل سوچی کی جانب سے جانبدارانہ رویے اور بدھسٹ دہشت گردوں کو تحفظ دینے کا طرزِ عمل انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے سخت نوٹس لیا اورآنگ سان سوچی کو 2018 میں اس وقت خفت اٹھانا پڑی جب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے 2009 میں دیا جانے والا انسانی حقوق کی پاسداری کا ایوارڈ واپس لے لیا۔اگرچہ بادی النظر میں اس واپسی کی وجہ صحافیوں کے قتل پر سوچی انتظامیہ کی چشم پوشی تھالیکن مسلمانوں کے ساتھ روارکھے جانے والے سوچی کا ظالمانہ رویہ بھی اس ایوارڈ واپسی کاایک اہم عنصرکارفرماتھا۔ خداکی لاٹھی برسی توآنگ سان سوچی کااقتدار باقی نہ رہ سکا۔صرف یہی نہیں کہ آنگ سان سوچی کا تخت کادھڑن تخت ہوابلکہ وہ فوج اوروہ لوگ آپس میں دست وگریبان اورگھتم گھتاہورہے ہیں جنہوں نے میانمارکے مسلمانوں کورولادیا۔وہی ظالم لوگ آج اپنی ہی سفاک فوج کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں اور فوج مظاہرین پرراست فائرنگ کرتی ہے۔کہ جنہوں نے مسلمانان روہنگیاں کاقتل عام کیا۔میانمارکی اس خدائی پھٹکارکی ایک تازہ مثال بدھ 3مارچ 2021 کو دیکھنے کوملی کہ جب کم از کم 38افراداپنی ہی سفاک فوج کی گولیوں کانشانہ بن کر ہلاک ہو گئے ۔