پاکستان کے حالیہ سیاسی، معاشی اور عدالتی بحران کے دوران حا لات و واقعات کچھ اس طرح طشت ازبام ہوئے ہیں کہ فیصلہ ساز طاقتور شخصیات کی حقیقت عوام پر آشکار ہو گئی ہے ۔ گزشتہ چند برسوں سے خواہشات کے اسیر، عقل کل ہونے کے خبط کی شکار اسٹیبلشمنٹاور اس کے طفیلی سیاستدانوں نے مجرمانہ حد تک اپنی حدود وقیود کی خلاف ورزی کی اور بعد میں اپنے مجرمانہ افعال کا اعتراف بھی کر رہے ہیں۔ مگر ایسے کردار وں سے جوابدہی کرنے کے لیے نہ تو کوئی عدل و انصاف کا کٹہرا موجود ہے اور نہ ہی کوئی پارلیمانی فورم۔سٹیٹس کو کی علمبردار قوتوں کے مشترکہ مفادات کا تقاضا ہوتا ہے کہ ہم پیالہ اور ہم نشین ساتھیوں کا تحفظ جزو ایمان ر ہے چاہے انہوں نے ملک توڑ دیا ہو۔آئین کو روند ڈالا ہو، اربوں کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کی ہو، بے گناہوں کا قتل کیا ہو، قومی حمیت اور غیرت کا سودا کیا ہو ۔ حالیہ سیاسی اور معاشی بحران کی سنگینی نے تمام ایسے کرداروں کی کزب بیانیوں کے پول کھول دیئے ہیں جنہوں نے جمہوریت، آئین اور قومی اقدار کے تحفظ اور معیشت کی بہتری کے خود ساختہ دعوے کئے مگر نہ صرف غریب کے منہ سے روٹی کا نوالہ چھین لیا بلکہ اس کو آٹے کے لیے قطاروں میں کھڑا کر کے اس کی عزت نفس کو بھی کچل ڈالا۔ اس وقت ملک ہر محاذ پر ایسے بحرانوں کا شکار ہے جسکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قومی اسمبلی میں قرارداد یں پیش ہو رہی ہیں۔ ملک کو بھنور میں پھنسا نے والے کردار وں سے ہر کوئی واقف ہے۔ کسی کی آشیرواد سے پی ڈی ایم نے عمران خان کی حکومت اس وقت ختم کی جب وہ معیشت کو درست ٹریک پر ڈالنے میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی تھی۔ گورنر رضا باقر سٹیٹ بنک کی شرح سود کو 6.5 فیصد پر لے آئے تھے ۔ڈالر 165 روپے پر ٹھہر رہا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر 18 ارب سے زائد تھے ۔گزشتہ سال کے اکنامک سروے کے مطابق جو اسی حکومت نے شائعکیا اسکے مطابق تحریک انصاف کے دور میں شرح نمو 6 فیصد رہی، صنعت نے 7.2 فیصد اور زراعت نے 4.4 فیصد کے حساب سے افزائش کی مگر آج گورنس اور معیشت کے نام نہاد ماہرین کے دور میں ڈالر 295 روپے، مہنگائی کی شرح 46.4 فیصد جو تحریک انصاف کے دور میں 12.5 فیصد تھی اور مانگے تانگے کے زرمبادلہ کے ذخائر 3.5 ارب ڈالرز کے ہیں اور شرح سود 21 فیصد پر جا پہنچی ہے .اگر اس میں بنک اپنے تین یا چار فیصد سروس چارجز شامل کر لے تو 25 فیصد کا KIBOR پر چھوٹا کاروباری شخص کیسے بنکوں سے قرض لے کر کاروباری سرگرمیاں جاری رکھ سکتا ہے۔ بجائے اس کے کہ موجودہ حکومت گورنس اور معیشت کو بہتر بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرے وزیر اعظم سے لے کر پوری حکومت سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے ججوں پر تبرا بازی کر رہی ہے حالانکہ یہ تینوں ججز اس بنچ کا بھی حصہ تھے جنہوں نے قاسم سوری کی رولنگ کو کا لعدم قرار دے کر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ممکن بنایا اور موجودہ حکومت برسراقتدار آئی _اس وقت موجودہ حکمران طبقہ اور ان کے حواری ان ججوں کے عدل و انصاف کے اعتراف میں پیش پیش تھے مگر اب جب ہر محاذ پر حکومتی اتحاد کی مایوس کن کارکردگی اور عوام پر مہنگائی اور بیروزگاری کے ظلم کی وجہ سے عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے تو پی ڈی ایم ہر حال میں انتخابات سے فرار ہونے کے لیے کوشاں ہے مگر کب تک حکومت انتخابات سے بھاگے گی ۔انتخابات کا مطلب عوام کی عدالت سے رجوع کرنا ہے ۔پارلیمانی جمہوریت میں عوام کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے حکمران اجتماعی دانش سے منتخب کرے۔ جو سیاسی جماعتیں انتخابات سے بچتی ہیں وہ کیسے جمہوری اقدار کی پیروی کرنے کی اھل ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مسلم لیگ نواز ہو، پیپلزپارٹی ہو یا جمعیت علمائے اسلام یہ خاندانی موروثی پا رٹیاں ہیں اور اعلیٰ حکومتی عہدے یہ اپنے گھر کے افراد یا انوسٹرز کو دیتے ہیں یا دو چار عہدے اپنے خوشامدی غلاموں کو دے دیتے ہیں ۔ 1997 میں نواز شریفچاہتے تھے کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ ان کے خلاف توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت نہ کریں جب ایسا نہ ہوا تو مسلم لیگی جھتے نے سپریم کورٹ پر حملہ کر دیا ۔ آج بھی مسلم لیگ نواز ماضی کی تاریخ دہرانے کے چکر میں ہے۔ موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ اس کے مقدمات اس کی مرضی کے ججز سنیں۔ وہ نہیں چاہتی ہے کہ چیف جسٹس اپنی مرضی کے بنچ تشکیل دیں اور از خود نوٹس لیں ۔ آج ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اوراسٹیبلشمنٹ جمہوری اصولوں اور آدرشوں سے سچی وابستگی کا مظاہرہ کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہیں۔ پاکستان کے عوام شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود مہذب جمہوری سوسائٹی کی مسلمہ اقدار سے گہری وابستگی کے حوالے سے حکمران طبقے سے بہت آگے جا چکے ہیں بالخصوص نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ فکر ی اور نظر یاتی لحاظ سے پختہ سوچ کا حامل بن چکا ہے ۔ اب وہ آنکھیں بند کر کے سیاست میں خاندانوں کی غلامی اور نااہل قیادت کو کسی صورت میں برداشت کرنے کا رودار نہیں ۔ ان نوجوانوں کو جو اس ملک کی آبادی کا 66 فیصد ہیں انہیں اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ہر سیاسی جماعت کو دینا ہوگا تاکہ پاکستان جناح اور اقبال کے خوابوں کی حقیقی تعبیر حاصل کر پائے پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے جہاں اعلی اور ارفع جمہوری قدروں کو فروغ ملے قانون کی حکمرانی ہو اور میرٹ کادور دورہ ہو ۔ اس سلسلے میں ہمارے لکھا ریوں، دانشوروں اور اساتذہ کرام کو اپنی سیاسی وابستگیوں سے بلا تر ہو کر ملک وقوم کے مفاد کے لئے کردار ادا کرنا ہوگا اور ہر حال میں حق صداقت کی صدا بلند کرنا ہو گی کیونکہ کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں