مزاج کی دنیا کے نامور اداکار امان اللہ نے ایک مزیدار بات سنائی کہ اس کے گھر چور آ گئے تو اس نے کلاشنکوف اٹھا لی۔ یہ دیکھ کر چور فوراً فرار ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پولیس اس کے گھر گھس آئی اور ناجائز اسلحہ طلب کیا کہ اس نے گھر میں بغیر لائسنس کلاشنکوف رکھ چھوڑی ہے۔ امان اللہ نے دست بستہ عرض کیا کہ مہاراج وہ تو بچوں کا کھلونا ہے یہ تو اس نے ایک کھیل کھیلا اور اسے چوروں پر تان لیا۔ پولیس نے اس کھلونا کلاشنکوف کا جائزہ لیا اورچلتی بنی پھر کچھ دیرکے بعد وہی چور آئے اور اپنا کام دکھا کرچلے گئے اور یقینا امان اللہ کی پھینٹی بھی لگائی ہو گی کہ اس نے انہیں اتنا بڑا دھوکہ کیوں دیا۔ اس سے مجھے جان کاشمیری یاد آئے کہ وہ ہمارے تنو مند شاعر ہیں۔ ایک مرتبہ ان کے گھرمیں چور آ گیا۔ ظاہر ہے وہ غلط فہمی میں مارا گیا کہ یہ کوئی عام شاعر تھاجو نحیف و کمزور ہو گا۔ جان کشمیری نے چور کو قابو کر کے پولیس کے پاس لے گیا۔ پولیس نے اس چور کودو چار لگائیں اور کہا کہ آپ یعنی جان صاحب بے فکر ہو کر گھر جائیں۔ اگلے روز یہ ضدی کشمیری پھر تھانے پہنچ گیا کہ اس چور کو اس کے انجام تک پہنچائے اور وہ آئندہ ایسی حرکت نہ کرے۔ جب جان کاشمیری تھانے پہنچا تو دیکھا کہ وہاں منظر ہی کچھ اورہے کچھ اور لوگ اسی چور کو کہ جسے جان کاشمیری رات پولیس کے حوالے کر کے گیا تھا پکڑ کر کھڑے ہیں اور پاس ہی کچھ پولیس والے ایستادہ تھے۔جان کاشمیری حیران و ششدر یہ منظردیکھتا رہا اور پھر پھٹ پڑا کہ اس ناہنجار چور کو تو وہ خود اپنے ہاتھوں پولیس کے حوالے کر کے گیا تھا پھر یہ ان کے ہاتھ کیسے آ گیا۔ ان لوگوں نے اپنی کہانی سنائی کہ انہوں نے اسے فلاں کے گھر سے پکڑا ہے اتنے میں ایک سپاہی کے منہ سے ایک سچا فقرہ نکل گیا۔ وہ گالی دے کر کہنے لگا کہ ’’چور ہی کچا ہے‘‘ یعنی ایسا چور کہ جو ایک رات میں دو مرتبہ پکڑا گیا۔ تو قبلہ آپ کس پولیس کی بات کرتے ہیں جو فوراً سے پہلے چورکے ساتھ مل جاتی ہے اور پھر کسی کا چوروں کے ساتھ ملنا تو صرف محاورہ ہے۔ آج کل پولیس کے خلاف جو مہم چل نکلی ہے وہ بہت تشویش ناک ہے لوگ بہت ستائے ہوئے ہیں وہی جو قتیل شفائی نے کہا تھا: ماتم سرابھی ہوتے ہیں کیا خود غرض قتیل اپنے غموں کو روتے ہیں لے کر کسی کا نام کوئی کہتا ہے کہ پولیس ہی ختم کر دی جائے کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کوئی کہتاہے کہ اسے فوج کی کسٹڈی میں دے دیا جائے اور ہر تھانیدار کی جگہ ایک عدد کیپٹن کو لگا دیا جائے اور کوئی کچھ مشورہ دے رہا ہے۔ پولیس کو ختم تو نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں یقینا کچھ اچھے لوگ بھی ہوتے یں میں یہ نہیں کہتا جو مشتاق احمد یوسفی نے کہا تھا کہ پولیس 99فیصد برے لوگوں کی وجہ سے پوری پولیس بدنام ہے۔بہرحال دو تین فیصد تو اچھے ہونگے۔ آپ نے دیکھا نہیں حال ہی میں ایک اے ایس آئی نے کیسے ایک عمر رسیدہ خاتون کی چھڑی اٹھا کر پھینکی اوراسے گالیاں دیں۔ سزا اس کی معطلی ہوئی اور وہ جیل میں فی الحال بند ہے ۔ اپنے کپتان عمران خان کو دیکھیں کہ وہ کیسے بدل گیا ہے یہ وہ عمران خان لگتا ہی نہیں جس نے کینسر ہسپتال اور نمل جیسے ادارے بنائے تھے یا ورلڈ کپ جیتا تھا۔ یہ وہ شخص رہا ہی نہیں جو کہتا تھا کہ وہ کرپشن جڑ سے ختم کر دے گا۔قرضے لینے والوں کے پیٹ سے بھی قرضے نکلوائے گا۔ اس کے وعدوں کی ایک طویل فہرست ہے مگر ہوا کیا وہ آپ کے سامنے ہے۔ مسئلہ اصل میں کچھ اور ہے کہ پولیس فورس میں جوان میرٹ پر لئے ہی نہیں گئے۔ اس میں سیاست سفارش اور اقربا پروری نے ایسی نقب لگائی ہے کہ بس زیادہ تر ان پڑھ اور جاہل نوجوان اس میں چلے آئے ایسے ہی ان پڑھ اسمبلیوںمیں بھی آئے کہ جعلی ڈگریاں لے کر آئے جس پر ایک عبقری سیاستدان اسلم رئیسانی نے کہا تھا’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے۔ وہ اصلی ہو یا نقلی‘‘ کراچی کو برباد کرنے میںبھی سیاسی پولیس کا عمل دخل تھا۔ وہاں تو پولیس افسروں کا قتل بھی سیاسی تھا۔ بچا وہی جس کے پاس کلنگ لائسنس تھا اور اسی کو زرداری نے مرد کا بچہ کہا تھا اب مجھے رائو انوار کا نام لینے کی بھی ضرورت نہیں۔ کہاں مصطفی زیدی یاد آ گئے: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں کہ سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے کسی نے درست لکھا کہ پولیس کے ہاتھوں بہت سے بے گناہ مارے جا چکے۔ سامنے کی مثالیں بھی کم نہیں ہیں خاص طور پر ماڈل ٹائون کے 14شہید‘ ساہیوال کے بے گناہ مقتول جنہیں ان کے بچوں کے سامنے بھون دیا گیا اور حالیہ قتل صلاح دین کا۔’’روئوں میں اپنے دل کو کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ جب تک ان قاتلوں میں سے کوئی پھانسی نہیں لٹکایا جاتا تبدیلی نہیں آئے گی۔ گویا اصلاح معاشرہ کی بنیاد اصلاح پولیس ہے مجھے تو آج تک ایک پولیس والے کا جملہ نہیں بھولتا۔ یہ 1992ء کی بات ہے میں اور پروڈیوسر خاور سیال ایک ایس ایچ او کے پاس بیٹھے تھے جو خاور کا دوست تھا۔ پولیس والے کوتھانیدار ڈانٹ رہا تھا اور پولیس والا آگے سے کہہ رہا تھا کہ ’’سر مجھے آپ بھیجیں تو سہی میں تو سانپ کے منہ سے بھی پیسے نکلوا لیتا ہوں‘‘ میں نے تو کانوں کو ہاتھ لگا لئے۔ بس ایک خواہش دل میں ہے کہ واقعتاً پولیس کا سٹرکچر تبدیل کیا جائے تعلیم یافتہ نوجوان اس میں آئیں ان کی تنخواہیں بھی اچھی ہوں اور مراعات بھی مجھے یقین ہے کہ وہ تبدیلی لانے کے قابل ہونگے آپ ہمت تو کریں۔ حل نکل آئے گا۔ پھر کبھی بڑے کو ہاتھ ڈالنے والا پولیس افسر صوبہ بدر نہیں ہو گا: سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے