بادشاہی زمانے میں ہاتھی سوار کو فیل بان کہا جاتا تھا کہ وہ اس طاقتور ترین جانور پر سواری کرتے تھے۔ان کے اشارے پر ہی ہاتھی صاحب حرکت فرما سکتے تھے ان کو مہابت بھی کہا جاتا تھا۔ہاتھی کو سیدھا رکھنے کے لیے مہابت کے پاس چابک یا چھڑی نہیں ہوتی ایک سوآ ہوتا ہے جسے آنکس کہتے ہیں اورموقع محل کے مطابق مہابت اسے ہاتھی کی موٹی گردن میں کھبوتا ہے ۔اس سے ہاتھی کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اپنے سیاست دانوں کو بھی سیاست بان کہنا زیادہ مناسب ہے۔ آئندہ کالموں میں ہم ان کو انہی الفاظ سے یاد کریں گے۔ویسے بھی سیاست بان یعنی سیاست دان ہمارا پہلا عشق بھی ہیں اور ہماری کمزوری بھی اور دکھتی رگ بھی۔ہم ان کے خلاف کوئی بات سننے کے روادار نہیں ہیں۔اپنا معاملہ اور قسم کا ہے یعنی چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد خدا لگتی کہیں تو سیاست بان ہمیں جان سے عزیز ہیں۔کیونکہ اپنے ملک عزیز میں ہماری جان کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہے ،سو سیاست بانوں کا معاملہ بھی ہماری جان کا سا ہے۔سیاست بان کہتا کچھ ہے اور اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔اسی "کچھ اور" کی تشریح ہم ہلکے پھلکے انداز میں کیا کریں گے۔روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ کے مصداق عرض ہے کہ ہمارے اور گیارہ جماعتی اتحاد کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے "اب چھینک بھی آئے تو آئی ایف ایم سے پوچھنا پڑتا ہے" لہذا ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چھینک ہی نہ آئے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ چھینکنا آداب محفل کے خلاف ہے۔اہل مغرب محفل میں چھینکنے کو روا نہیں سمجھتے اور چھینک کے خارج ہونے کے ساتھ ہی "سوری سوری" کہنا شروع کر دیتے ہیں۔لہذا سوری کرنے کی بجائے چھینک کو روک لینا زیادہ مناسب ہے۔ہم مشرق والے تو پوری قوت سے چھینکتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔اب آئی ایم ایف نہیں چاہتا ہے کہ ہم اللہ کا شکر ادا کریں۔ اب اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا جائے اور چھینک کا کام اسی طرح تمام کر دیا جائے جس طرح ہم نے بائیس بار عزیزی آئی ایم ایف کے پاس جا کر عوام کا کام تمام کر دیا ہے۔قوی امید ہے کہ ہمارے موجودہ ایک ڈیڑھ سالہ دور حکومت میں بقایا عوام کا بھی مکو ٹھپنے کا احسن انتظام ہو جائے گا۔ خبر ہے کہ اقوام متحدہ کے سسترویں اجلاس (جو تیرہ ستمبر کو شروع ہو رہا ہے )میں، ہمارے تمہارے دلوں کے "وزیر اعظم شہباز شریف کے علاوہ کوئی بھی مہمان مدعو نہیں ہے"۔ کیا سہانا منظر ہو گا جب بغیر کسی اور مہمان کے وہ تقریر فرمائیں گے۔اس کو پنجابی زبان میں کہتے ہیں کہ گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے ۔بعینہ وہ اپنے ملک میں بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کے علاوہ اسمبلی میں بھی کوئی نہ ہو۔اسی لیے وہ اور آقا زرداری پی ٹی آئی کے ارکان کے استعقے منظور نہیں ہونے دے رہے۔وہ اپوزیشن کی خالی کرسیاں دیکھ دیکھ کر جیتے ہیں۔ وہ جنرل اسمبلی میں "اقوام متحدہ کو سیلاب تباہ کاریوں سے آگاہ کریں گے"وہ صرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے بارے میں اقوام متحدہ کو آگاہ کریں گے۔جس طرح خود انہوں نے بنفس نفیس اور بڑے بھائی جان نے ملک کو تباہ کیا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہیں گے۔ وہ یہ بھی بتائیں گے کہ اس سیلاب سے زیادہ تباہی عمران خان نے پھیلائی تھی۔وہ بھی اپنے سیلاب کو سونامی کہتا تھا۔اب اس کا زور ختم ہو گیا ہے۔جن پشتوں کا اسے سہارا تھا وہ کھینچ لیے گئے ہیں۔ اب وہ ایک ٹوٹا ہوا تختہ ہیں اور بقول شاعر کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری نے کہا ہے "پہلے انسان بنو پھر سیاست دان "چئیر مین بلاول زرداری کا اشارہ ظاہر ہے عمران خان کی طرف ہے۔ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی پہلی ضرورت پیٹ ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے یہ بڑا پاپی پیٹ ہے۔آپ کو سیاست میں آئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔اگر ایک جمعہ نکال دیں تو یہ محض سات دن بنتے ہیں۔ہم نے اس دشت میں کئی نسلوں سے سیاحی کی ہے۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہماری ماں اور ہمارے نانا سیاست دان تھے۔ان کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ پہلے انسان بننا ضروری ہے۔اس راز سے پردہ قبلہ ابا جان نے اٹھایا۔اللہ ان کا سایہ ہمارے سروں پہ تا دیر رکھے۔وہ ہیں تو یہ انسانیت ہے۔ انسان ایک سماجی جانور ہے اس کو ایسے سماج کی ضرورت ہے جہاں اس کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ابا جان نے نہ صرف مجھے بلکہ تمام سندھی وزرآ بالخصوص چچا شرجیل میمن اور چچا مراد علی شاہ کو یہ بات بتائی۔چچا ناصر شاہ اور چچا سعید غنی پہلے ہی اس امر سے بخوبی آگاہ تھے۔مجھے گہوارے میں ہی روشن روشن اشارے آنا شروع ہو گئے تھے۔یہ سب قبلہ مدظلہ کی کرامت تھی ورنہ خاکسار اس قابل کہاں۔نانا ابا عوام کی سیاست کرتے رہے اور اپنا انجام ہمارے لیے ایک عبرت بنا گئے۔بی بی بھی اس بات کی قائل نہ تھیں مجبورا انہیں راستے سے ایک طرف کرنا پڑا۔اب راوی چین لکھتا ہے۔اب ہماری پارٹی کا منشور روٹی ،کپڑا اور مکان کی بجائے انسان بننے پر ساری توجہ مرکوز ہے۔مریم اورنگزیب نے کہا ہے "ملک کو سری لنکا بنانے کی سازش ناکام ہو چکی ہے"۔الحمد للہ ملک کو سری لنکا بنانے کی سازش بھی ہم نے ہی تیار کی تھی۔اس قسم کی سازشوں کے نسخے ہمارے پس ایک نہیں ایک سو ایک ہیں۔عمرو بن عیار کی زنبیل ہماری دماغی کاوش کے سامنے پانی بھرتی ہے۔ ہم نے ہزار کوششوں سے اس سازش کا قلع قمع عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کر دیا تھا۔اگر خدانخواستہ دوبارہ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو نئے سرے سے اسے سری لنکا بنانے کی کوشش کریں گے۔وما توفیقی الا باللہ