ریاست جموں کشمیر کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس کی قیادت کے دعوے دار ہمیشہ عین وقت پر فروخت ہو جاتے رہے اوربظاہرووٹ کی طاقت سے آنے ولے حریت کیش مجاہدین کی جدجہد کو دائو پر لگاتے رہے ۔ ان میں شیخ عبداللہ سرفہرست تھے۔ وہ کشمیریوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہتے’’پاکستان سے رشتہ کیا؟ لا الہ الا اللہ۔‘‘پھر اپنی شیر وانی کی جیب سے سبز رومال نکال کر لہراتے اور پوچھتے‘ ’’یہ سبز رومال تمہیں نظر آ تا ہے؟‘‘’’ہاں …‘‘ میں جواب سن کر کہتے…’’میں اور میرا سب اس رومال پر قربان۔‘‘ لوگ سبز رومال کو پاکستان کا جھنڈا سمجھتے اور شیخ کی اس جھنڈے سے محبت دیکھ کر جذباتی ہو کر رو پڑتے‘پھر وہ پکارتے۔’’لوگو! ادھر دیکھو‘ جس سے تمہیں محبت ہے‘ مجھے اس سے عقیدت ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ جیب سے نمک کی ڈلی نکالتے (کوہستان نمک کھیوڑہ کا نمک کشمیر میں پاکستان کی علامت تصور ہوتا ہے) اور پھر بھرے مجمعے میں نمک چاٹنے لگتے۔ پاکستان کے عاشق زار کشمیری اٹھ کھڑے ہوتے اور پھر بیک آواز پکارتے۔شیخ عبداللہ کی طویل اداکاری میں لاکھوں ایسی ادائیں ہیں جن پر کشمیر کے نجیب اور شائستہ لوگ قربان ہو تے چلے گئے۔ شیخ عبداللہ اپنی اس مقبولیت کا ذکر کرتے خود نوشت میں رقم طراز ہیں: ’’میں جب گھر سے باہر نکلتا تھا تو کشمیر کی جوان لڑکیاں میرے راستے میں اپنے سر رکھتی تھیں اور میری راہ میں اپنے بال بچھاتی تھیں تا کہ میں ان پر سے گزروں۔‘‘ برس ہا برس تک کشمیری ان جیسے جعلی شیروں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے رہے اور وہ بھارت کے ساتھ مل کر اہل کشمیر کی جڑیں کاٹتے رہے۔یہ بات تو اول روز سے طے ہے کہ جموں کشمیر کے عوام بھارت کے ساتھ کسی صورت رہنا نہیں چاہتے تھے۔بات الحاق پاکستان کی ہو یا ریاست کی خودمختاری کی۔یہ کوئی تنازعہ نہیں ہے ۔کیوں کہ سب اس بات پرمتفق ہیں کہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا۔یہ معاملہ بنیادی طور پر حق خودارادیت کا ہے ۔ ریاست کی تمام آبادی کو رائے شماری کا حق دیا جاناچاہیے تاکہ وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کر سکیں۔بھارت نے اپنے وعدوں کے برعکس اہل کشمیر کو یہ حق نہیں دیا۔اس کی بنیادی وجہ ریاست کی یہی لیڈر شپ ہے جو بھارتی لیڈروں کے ہاتھوں استعمال ہوتی رہی ہے اور نہرو سے نندرا مودی تک ان اقتدارپرستوں کی ایک ہی خواہش رہی کہ کسی طرح بھارتی حکمرانوں کی آنکھ کا تارہ بن جائیں۔اس مقصد کے لیے وہ ہر حد تک گئے۔کبھی شیر کشمیر کہلانے والے لحن دائودی میں قرآن کی تلاوت کرکے ووٹ لیتے تھے ،پھر انہوں نے اندرا گاندھی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔محض چند برس جیل کاٹی اور اندرا جی سے ساز باز کرلی۔میر قاسم منتخب وزیر اعلیٰ تھے انہیں ہٹا کر شیخ عبداللہ کو جیل سے نکال کر گاندربل سے سیٹ خالی کرا کر الیکشن لڑایا گیا۔ پھر وہ باقی عمر گانگریس کے ہو کر رہے۔ اس کے برعکس حق کا راستہ اختیار کرنے والے بھی کم نہیںتھے۔وہ بہت ہمت والے تھے۔یہاں تک کہ 1987میں وہ لمحہ آگیا جب کشمیریوں نے صندوق کی جنگ ترک کر کے بندوق تھام لی۔اگرچہ غلام محمد بلہ شہید سے مقبول بٹ شہید تک یہ رسم کہیں نہ کہیں زندہ تھی۔تقسیم برصغیر کے وقت ہجرت کرنے والے جموںکے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ہاریس الیگزینڈر اور ایان اسٹیفن دونوں نے 1947 کے دوران جموں کے قتلِ عام میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد 200,000 بیان کی ہے۔ لنڈن ٹائمز نے یہ تعداد 237,000 بتائی ہے۔ جبکہ اکثر مؤرخین سانحہ جموں کی اموات کا شمار 500,000 سے بھی زیادہ کرتے ہیں۔ یہ تعداد کچھ بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ ایک روز میں لاکھوں مسلمان اس لیے شہید کر دیے گئے کہ وہ پاکستان سے ملنا چاہتے تھے۔یہ رسم وفا جاری رہی تا آنکہ کشمیریوں کی ایک پوری نسل بھارت کے خلاف بغاوت کا علم لے کر اٹھی۔ یہ ایک کھلی جنگ تھی۔یہ وہ وقت تھا جب بھارت کے فوجی مر رہے تھے۔بھارت مذاکرات کی میزیں تلاش کرنے لگا اور تاریخ کا مسافرحیرت سے دیکھ رہا تھا۔ کیا یہ وہی کشمیری تھے؟کیا یہ وہی مغرور بھارت تھا؟جب ریاستی غدار سیاست کاروں نے یہ حال دیکھا تو کچھ زیر زمیں چلے گئے،کچھ ’’حق خودارادیت‘‘ کی بات کرنے لگے۔بھارت نے شاطرانہ چالوں سے کشمیر کے وکیلوں کو چکمے دیے،شیشے میں اتارا، سات سو میل سے زائد سیز فائر پر پختہ باڑ لگا کر مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے دفن کرنے کی کوشش کی۔لاکھوں کی قربانی کے بعد اب بھی اگر کوئی کشمیری یہ سمجھتا ہے کہ بھارتی حکمران آسانی کے ساتھ میز کی ’’جنگ‘‘ میں کشمیر اہل کشمیر کے حوالے کردیں گے تو یہ سخت غلط فہمی ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا یا ایک بار پھر بھارت کی ناک میں نکیل ہو گی۔بظاہر جموں کشمیر میں عسکری حوالے سے ایک سناٹا ہے ۔دور دور تک کوئی ہلکی روشنی کی لکیر بھی نہیں۔امیدیں قائم رہتی ہیں ، جن تحریکوں کی بنیادوں میں خون ہوتا ہے وہ تحریکیں دم نہیں توڑتیں۔اس سارے پس منظر کے ساتھ ایک بات حیرت انگیز ہے کہ جہاں پاکستان محض وزارت خارجہ کی سطح تک محدود ہے وہاںمودی حکومت تیزی کے ساتھ پیش قدمی کر رہی ہے اورغداروں کی نسل سے چیدہ چیدہ غدار منتخب کر کے ریاست کے عوام پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔ مودی ایک چالاک قاتل ہے وہ جن سے قتل کراتا ہے پھر ان قاتلوں کو خود قتل کر کے کہانی تمام کر دیتا ہے۔مارنے پہلے گلے لگانا اور مارنے کے بعد آنسو بہانا اس نے اپنے گرو سے سیکھ رکھا ہے۔آج ایک بار پھر ریاست جموں کشمیر سے بھارت کو ان افراد کی ضرورت ہے جو ریاستی عوام سے غداری کر کے بھارتی نیتائوں کی اشیر باد حاصل کر سکیں۔ایسے لوگوں کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دفعہ 370 بھارت کے آ ئین سے ختم ہوئی ہے۔کشمیریوں کے دل سے نفرت کھرچی نہیں جا سکتی۔جو غدار تیزی سے جموں کشمیر میں متحرک ہو کر ہو اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ابھی اس خاکستر میں چنگاری بھی ہے اور شعلے بھی ہیں کہ ہنوز دلی دور است!!