وفاقی اور صوبائی سطح پر حکمران جماعت ہونے، ماتحت پولیس، انتظامیہ اور میڈیا کے طاقتور طبقوں کی حمایت حاصل کرنے اور 12 بڑی جماعتوں کی غیر متزلزل حمایت حاصل ہونے کے باوجود ، 17 جولائی 2022 کو پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ نواز 20 صوبائی نشستوں میں سے صرف چار نشستیں جیت سکی۔ چونکہ پنجاب 1980 کی دہائی سے مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے، اس لئے ایسی شکست اور بھی تشویشناک ہو جاتی ہے جب جیتنے والی پارٹی ‘ پاکستان تحریک انصاف نے اس وقت اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑا جب ملک اور پنجاب کا ہر سرکاری ادارہ اس کے خلاف سرگرم عمل تھا۔ اس سے مسلم لیگ ن کے مستقبل کے حوالے سے بحث کا آغاز ہو چکاہے۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پنجاب اور پاکستان میں شریفوں کی جاگیر کے خاتمے کا آغاز ہے جبکہ کچھ لوگوں کے نزدیک مسلم لیگ ن کی تاریخی شکست عارضی جھٹکا ہے۔ تاہم اس بات کا بھی امکان ہے کہ پارٹی قیادت کواس پر سنجیدہ چھان بین کے لیے تجاویز دی جائیں گی۔آئیے کسی معقول نتیجے پر پہنچنے سے پہلے کچھ تجرباتی حقائق پر غور کیا جائے۔ کیا 17 جولائی کے ضمنی انتخابات کے نتائج ن لیگ کے مستقبل کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہیں؟ میری رائے میں، صرف اس پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہے، ا س لئے اس حوالے سے 2018 کے انتخابی نتائج اور ضمنی انتخابات کا تقابلی تجزیہ بھی معاون ہو سکتا ہے۔ 2018 میں مسلم لیگ ن نے اپنے بل بوتے پر الیکشن لڑا اور حالیہ ضمنی انتخابات کے 20 حلقوں میں سے صرف 15 نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا ، اور ان میں سے صرف ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ، چار نشستوں پر آزاد امیدواروں اور دس پر پی ٹی آئی سے شکست کا سامنا کیا۔ پی ٹی آئی نے تمام 20 نشستوں پر مقابلہ کیا اور سات نشستیں آزاد امیدواروں اور ایک نشست پی ایم ایل این سے ہار گئی۔یاد رہے کہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں نے 2018 میں نگراں سیٹ اپ کے تحت الیکشن لڑ ا۔ دوسری طرف، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، مسلم لیگ (ن) نے حالیہ ضمنی انتخابات ایسے وقت میں لڑے جب وہ اقتدار میں تھی اور حکمران اتحاد کے تمام ارکان کے علاوہ 2018 (20) کے آزاد امیدواروں نے مشترکہ طور پر ضمنی انتخابات میں حصہ لیا۔ ضمنی انتخابات کے نتائج کے حوالے سے، جہاں تک نشستوں کا تعلق ہے، کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے 2018 کے مقابلے میں تین زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ تاہم، اگر آپ اس کا موازنہ ان کی مشترکہ نشستوں سے کریں، تو اتحادی اور آزاد امیدواروں کی جیتی گئی نشستوں میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے۔ مجموعی طور پر 2018 میں جیتی گئی نشستوں کی تعدا د گیارہ تھی ، جو چار نشستوں تک رہ گئی ہے۔ ووٹوں حاصل کرنے کے حوالے سے ، 2018 کے انتخابات میں، ان کا مشترکہ ووٹ بینک 1,057,052 تھا۔ ضمنی انتخابات میں یہ کم ہو کر 883,185 رہ گیا ہے ؛ جس میں تقریباً 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کی رکن جماعتیں اور اس سے وابستہ آزاد امیدوار اگلے عام انتخابات مشترکہ طور پر نہیں لڑیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک مزید کم ہونے امکان ہے۔ مسلم لیگ ن کی شکست کا مارجن 2018 سے بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کی جیت کا مارجن 2018 میں 8 فیصد سے بڑھ کر 2022 میں 14 فیصد ہو گیاہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہوریوں نے 17 جولائی کو ووٹنگ میں کم دلچسپی دکھائی، جیسا کہ اوسطاًشہر کے چار حلقوں میں ٹرن آؤٹ 34.7 فیصد ، جب کہ باقی حلقوں میں یہ 53 فیصد رہا۔ آئیے اب مسلم لیگ ن کی شکست کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر سیاسی تجزیہ کاروں نے درج ذیل تین عوامل کا حوالہ دیا ہے؛ ( 1)پی ایم ایل این کی انتخابی مہم کے جدید طریقوں (سوشل میڈیا) کے استعمال میں عدم دلچسپی' (2) آزمودہ امیدواروں کو میدان میں اتارنے کے بجائے، مسلم لیگ (ن) نے لوٹوں کو ترجیح دی، جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز کی ناراضگی اور کم ٹرن آؤٹ ہوا۔ (3)مسلم لیگ ن کی حکومت کی انتہائی ناقص کارکردگی اور اقتدار میں آنے کے بعد سے معاشی اعتبار سے مایوس کن کارکردگی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ۔ اگرچہ میں ان عوامل کے اثرات کو کم کرنے سے گریزاں ہوں، لیکن مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کے لیے انتخابی حکام سمیت ریاستی عہدیداروں کی غیر متزلزل حمایت کے اثرات پر غور کرنا ضروری ہے۔ اس سے مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں کو اعتماد کا غلط احساس ہوا۔ انہوں نے شاید سوچا تھا کہ پیسے کا استعمال، ریاستی مشینری کی زبردست طاقت اور حامی پولنگ عملے کی تعیناتی سے کامیابی ملے گی، مگر ایسا ہوا نہیں۔ فتح اور شکست کے اسباب کبھی بھی نتائج کو سمجھنے میں مدد گار ثابت نہیں ہو سکتے، جب تک فریقین کی کمزوریوں اور مضبوطیوں کا جامع تجزیہ نہ کیا جائے۔ اسی تناظر میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کی فتح کیسے ممکن ہوئی۔ انتہائی چوکس اور پرعزم او ر تربیت یافتہ نوجوانوں جون کو پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس نے ایم ایل این کی انتخابی عمل میں مداخلت کی حکمت عملی کو ناکام بنایا۔ شدید موسم میں عمران خان کی انتھک محنت اور برداشت کے بے مثال مظاہرے نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے دلوں میں جوش بھر دیا۔ عمرا ن خان نے جلسوں میں عوام کی بڑی تعداد کو متوجہ کیا، اور اس کا ووٹروں پر بہت مثبت اثر پڑا، جس کی بدولت ٹرن آؤٹمیں اضافہ ہو ا۔انتخابات کے انعقاد کے معیار کو جانچنے کے لیے، پتن، جس سے میں وابستہ ہوں، نے 15 سے 17 جولائی تک 20 میں سے 17 حلقوں میں ایک سروے کیا۔ہمارے اعداد و شمار نے درج ذیل کلیدی نتائج کو ظاہر کیا: پولنگ کے لیے بے مثال جوش، برادری اور دھڑے سے زیادہ پارٹیوں/ رہنماؤں کے ساتھ وفاداری کے رجحان کی موجودگی ، مقابلہ کرنے والی جماعتوں کی کارکردگی، پارٹیوں کے انتخاب کے حوالے سے خاندانی سطح پر نوجوان او ر بزرگ نسل کے درمیان نسلیاتی(Generation gap)کم ہونے کا رجحان ، انتخابی عملے اور انتظامیہ کی غیر جانبداری کے بارے میں عوامی سطح پر شکوک و شبہات، اور دھاندلی کا خوف کا ہونا ہے۔(جاری ہے)