’’جناب ! مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا یقین نہیں بناہوا ،یقین بناؤ یقین ،یہ کورونا شورونا کچھ نہیں ہے بھائی جو رات قبر میں لکھی ہے وہ گھر کے بستر پر نہیںآنی ‘‘ اپنے پڑوسی کے ان الفاظ پر میں نے بس اپنا سر ہی تو نہیں پیٹ لیا ،وہ پڑھا لکھا شخص پشاو ر پولیس میںملازم ہے اور وہیں کہیں پوسٹ ہے لیکن اس کی رہائش اسلام آباد ہی میں ہے ہفتہ دس دن میں اسکی گرد آلود کا ر دروازے کے سامنے کھڑی ہو کر اسکی آمد کا پتہ دے رہی ہوتی ہے ،آج میں کسی کام سے گھر سے نکلا تو سامنے ہی خان صاحب کوکسی سے گپ شپ لگاتے دیکھا ،میں نے مسکراتے ہوئے بے تکلفانہ انداز میںآواز لگائی’’خان صاحب ! چھ فٹ کا فاصلہ رکھیں ‘‘ اس یاد دہانی پر خان صاحب میرے یقین کی ناپختگی پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے سمجھانے لگے کہ موت اک اٹل حقیقت ہے اس سے فرار ممکن نہیں جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا ۔یہ صرف اک خان صاحب کا موقف نہیں اپنے ارد گر د ہر دوسرا شخص خان صاحب ہی ہے میرے ماموں پڑھے لکھے دین دار بزنس مین ہیں ان سے ملاقات ہوئی تو اسی انداز میں ملے جیسے پہلے ملتے تھے وہ بڑے بھی ہیں بزرگ بھی ہیں اور بیمار بھی ہیں اللہ انہیں زندگی دے کینسر جیسے موذی مرض سے لڑ رہے ہیں میں نے موؤدبانہ عرض کی کہ ملنے جلنے میں ذرا احتیاط کیجئے؟ آپ پہلے ہی بیمار ہیں۔ جس پر ان کا جواب بھی میرے پڑوسی والا ہی تھا سمجھانے لگے اللہ پر توکل ہونا چاہئے میں خاموشی سے سنتا رہا کہ اسے توکل کا نام کیسے دیا جائے ،ہمارے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ توکل کوکون سمجھتا ہو گا،ان کی روشن شخصیت سے اپنا قلب منو ر کرنے کے لئے تاریخ سے رجو ع کریں تو ہر ہر پہلو روشن دن کی طرح واضح دکھائی دیتا ہے میرے سرکارﷺ میدان میں’’ ذوالفقار ‘‘ یا’’ممشوق‘‘کو بے نیام کرکے آگے بڑھتے تھے توان کے دوسرے ہاتھ میں دشمن کا وار روکنے کے لئے ’’ذقن‘‘ ڈھال بھی ہوتی تھی،امام المجاہدین ﷺکے پاس ’’نبعائ‘‘ نام کا نیزہ تھا تو ’’ذات الفضول‘‘زرہ بکتر بھی تھی دوسرے لفظوں میں سرکارﷺ میدان جنگ میں دشمن پر وار کے ساتھ ساتھ اپنی حفاظت بھی مقدم رکھتے تھے، توکل اور یقین کی خودساختہ تشریح کی آڑ میں کورورنا جیسی وبا کا کیرئیر بننے کے خواہشمنددقن اور ذات الفضول کو کیا کہیں گے؟ کورونا وائرس کی وبا عالمی جنگ بن چکی ہے یہ دنیا کے دو سو سے زائد ممالک پر حملہ آور ہے اس نے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی معاشرت بدل دی ہے، رہن سہن کا انداز بدل دیا ہے، انداز فکر تبدیل کردیا ہے۔ امریکہ جیسی بدمست سپر پاور اسکے سامنے بے دست وپا ہے وہ امریکی صدر جس کے لہجے سے تکبر اور گھمنڈ کی کاٹ کم نہ ہوتی تھی آج دو لاکھ امریکیوں کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کرکے کہہ رہا ہے کہ یہ تعداداتنی رہے تو بھی غنیمت ہے ،امریکہ میں اس وقت عجیب بدترین صورتحال ہے شہر ویران اور سڑکیں سنسان ہیں ،لوگ گھروں میں محصور ہیں گرجا گھروں کے گھنٹے بج رہے ہیں مساجدوں میں دعائیں کرائی جارہی ہیں یہودیوں کے سیناگوگ میں مناجات کی جارہی ہیں یہ وہ امریکہ ہے جس کے وسائل جیسے وسائل کسی ملک کے پاس نہیں ،دنیا کے ’’قارونوں ‘‘ کی دولت جانچنے والے ویلتھ ایکس کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ارب پتی اسی امریکہ کے شہر نیویارک میں ہیں،دنیا کے یہ سیٹھ بیس شہروں میں اپنی سلطنتوں کے ساتھ عیش وعشرت سے رہ رہے ہیں۔ اس وبا سے ان قارونوں کے چہروں پر بھی ایک رنگ آاور ایک جارہا ہے وہ اپنی دولت کو کم سے کم نقصان پر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دنیا کے مالدار ترین شخص بل گیٹس کورونا وائرس کی ویکسین بنانے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے ، اس نے عالمی ادارہ صحت کو ڈیڑھ سو ملین ڈالر کی امداد دی ہے ،یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ کوئی حکومت تنہا اس عالمگیر وبا کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ سب نے مل کر ہی اس وبا سے لڑنا ہے،امریکہ میں جب ہیلتھ ورکروں کو ماسک کی قلت کا سامنا کرنا پڑا توفیس بک کے ارب پتی بانی چونتیس سالہ مارک زکر برگ نے سات لاکھ بیس ہزار ماسک دینے کا اعلان کیا اور ڈاکٹر ،نرسوں کی ہمت بڑھاتے ہوئے کہا مزید عطیات دینے کے لئے کام کررہے ہیں مجھے امید ہے کہ آپ محفوظ ہوں گے،سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کا بانی جیک ڈورسی کورونا فنڈ میں اپنے دولت کا اٹھائیس فیصد ایک ارب ڈالر عطیہ کرنے کا اعلان کرچکا ہے ۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں ہم کافر کہتے ہیں جنکے رہن سہن پر تنقید کرتے ہیں ناک بھوں چڑھاتے ہیں لیکن ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو بچی کھچی چھٹانک بھر شرم بھی شاید ہی ملے ،اس مشکل وقت میں جس سے ہم نکل بھی گئے تو ایک کروڑ پاکستانیوں کے بے روزگار ہوچکے ہوں گے اور ایک نیا مالیاتی بحران ہمارے لئے منہ کھولے کھڑا ہوگا،عمران خان نے تو نئے پاکستان کا نعرہ سیاسی معنوں میں لگایا ہوگا لیکن اب سچ میں سمجھیں کہ ہمیں اک نیا پاکستان ہی بنانا ہے اور ہمارا حال یہ ہے کہ ہم آنے والے وقت سے بے خبر ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں ، سیاسی قیادت ہی سوسائٹی کو متحرک کرتی ہے ہماری سیاسی قیادت بھی متحرک ہے لیکن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور رگیدنے کیلئے،حکومت نے کورونا رضاکار فورس کا اعلان کیا اعلان ہوتے کے ساتھ ہی اپوزیشن کی جانب سے نام پراعتراض ہونے لگے ،دائیں بائیں سے الزامات کی چاند ماری شروع ہوگئی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سیاسی قیاد ت اختلافات بھلا کر آگے بڑھتی اپوزیشن عمران خان کو انا پرست سمجھتی ہے توبلاول بھٹوہی عوام کی خاطر بنی گالہ پہنچ جاتے ،شریف برادران جاتی امراء سے اسلام آباد کا راستہ لیتے کہ سیاست کے لئے عمر پڑی ہے یہ وقت سیاست کا نہیں ریاست کا ہے ،تجاویز دی جاتیں ،مشورے دیئے جاتے یقین کیجئے لوگ ان کے مرید ہوجاتے اور حکومت پر اتنا دباؤ پڑتا کہ ان سے مل کر چلنا وزیر اعظم کی مجبوری بن جاتا۔لیکن یہاں سب بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں یہ نہیںبدل رہے اور سامنے کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے ہندسے تبدیل ہورہے ہیں سارے ہی تیزابی اپوزیشن میں نہیں ہیں فردوس عاشق اعوان،شہباز گل ، مراد سعید اورفیاض الحسن چوہان کپتان کی ٹیم میںہیں جن کی باتیں سن کر جی چاہتا کہ کپتان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوجایا جائے کہ خدا کے واسطے کوئی سیاسی قرنطینہ بنا کر انہیں بھی چودہ روز کے لئے الگ تھلگ ڈال دیں یقین کریں سیاسی قیادت قومی قیادت بن جائے گی۔