یہ نہیں ہے تو پھر اس چیز میں لذت کیا ہے ہے محبت تو محبت میں ندامت کیا ہے خوب کہتا ہے نہیں اس نے بگاڑا کچھ بھی ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا ہے یہ تو بات ہم بعد میں کریں گے کہ کس نے کس کی نفرت میں کس سے محبت کی اور کہاں تک جا پہنچے۔ وہی کہ جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار۔اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں۔ یا یہ کہ میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں مولانا فضل الرحمن کی سربراہی قبول کر لیں گے۔ آپ لاکھ طنز کرتے رہیں کہ نواز شریف اور بلاول بڑی چالاکی سے پی ٹی آئی کے مقابل پی ڈی ایم کی تحریک کا بوجھ مولانا کے کاندھوں پر ڈال دیا۔ گویا میثاق جمہوریت والوں کی بندوق مذہب کے کاندھے پر رکھ کر چلائی جائے گی۔ ایک رخ سے یہ نواز شریف نے سیاست کھیلی ہے اور کھیلی بھی اس سیاستدان کے ساتھ جس کی شاگردی میں زرداری بلاول کو دینے کی آرزو رکھتے تھے۔ ویسے پی ڈی ایم کا بوجھ اٹھانا کسی اور کے بس میں تھا بھی نہیں۔مولانا اپنی جگہ خوش ہیں کہ دونوں بڑی پارٹیوں کے محتاط رہنما آخر راہ راست پر آ گئے اور مولانا کی کاوشیں بار آور ہوئیں۔ مجھے تو ملٹن کی پیراڈائز لاسٹ paradise lostیاد آگئی جس میں شیطان کا ایک کمال کا مکالمہ اپنی تقریر میں لاتا ہےIt is better to reign in hell than serve in heaven یعنی دوزخ میں حکمرانی کرنا جنت میں غلامی کرنے سے بہتر ہے۔ کیا ان کے لئے یہ کم خوشی کی بات ہے تقدیر نواز شریف زرداری اور بلاول و مریم کو کہاں لے آئی ہے کہ وہ مولانا کی اقتدا میں چلیں گے۔ ویسے بھی مولانا ہی پی ٹی آئی سے براہ راست زخم خوردہ ہیں۔ یا پی ٹی آئی کو سرخرو کرنے کے لئے مولانا کو راہ سے ہٹایا گیا۔ زخمی شیر اور نیم کش تیر ان کے پیچھے ہے۔ شہزاد احمد نے کہا تھا: اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے آپ جیسے بھی ہیں نیت آپ کی جیسی بھی ہے گیند عمران خاں کے کورٹ میں ہے کہ وہ کیسا کھیلتے ہیں۔ اب عوام باتوں اور تقریروں سے قائل نہیں ہو گی کہ وہ مہنگائی اور لاقانونیت سے گھائل ہے۔ خاص طور پر پنجاب بہت اہم ہے کہ وہ اب تک بیانوں پر چل رہا ہے۔ عملی طور پر کوئی کام ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔یہ تاریخی بات ہے کہ جب پنجاب میں میدان گرم ہوتا ہے تو سب جگہیں متحرک ہو جاتی ہیں۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری کے خلاف ٹیمپل روڈ پر جو جلسہ کیا ہے وہ کارکنوں کی کم تعداد کے باعث رد نہیں کیا جا سکتا اس میں لگنے والے نعرے اور کہی گئی باتیں ہمیں ایک مرتبہ پھر 90ء کی دہائی والی سیاست کی بازگشت نظر آ رہی ہے جس میں کہا گیا تھا جاگ پنجابی جاگ یہ رویہ اور روایت کوئی اچھی بات نہیں بلکہ زہر قاتل ہے اس کا موقع فراہم نہیں ہونا چاہیے ۔میں اس پر بات نہیں کروں گا کہ یہ ایک انداز سیاست ہے اور سندھ کارڈ کی طرح پنجابی کارڈ کہلا سکتا ہے مگر یہ تو دیکھنا پڑے گا کہ پنجاب کے ساتھ کیا رویہ ہے کیا۔ کیا اورنج ٹرین کا وعدہ پورا ہوا ۔ جلیل عالی نے کہا تھا: اپنے دیے کو چاند بتانے کے واسطے بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا مجھے بہت سی باتیں ہیں جو ایک ایک کر کے لوگوں کو مشتعل کر رہی ہیں کہ آپ سے تو الزامات بھی ثابت نہیں کیے جا رہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ سعد رفیق کے خلاف ریلوے اراضی انکوائری بند کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا ۔اس سے پیشتر بھی کئی لوگ بری ہو چکے ہیں اس کے علاوہ عدالت بارہا کہہ چکی ہے کہ نیب کے فیصلوں میں احتساب کم اور انتقام زیادہ نظر آتا ہے۔ کل ایک وزیر کی گفتگو سن کر میں حیران رہ گیا کہ انہوں نے اپنی بات سے یوٹرن لے لیا۔ ان کی باتیں ہر چینل پر پڑی ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارا کرپشن ختم کرنے کا بیانیہ کمزور پڑ گیا ہے یہ اعتراف بارہا کیا اب وہ کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں کے خلاف نیب کیس نہیں بنا سکی تو آپ عدالت سے رجوع کریں۔ لگتا تھا متذکرہ وزیرکی سرزنش رنگ لے آئی تھی۔ اپنی غلطیاں مان لیتا کوئی بات نہیں کسی کو سزا بھی تو دیں: سعد تلخی سے جو مجھ میں وہ کسی رنج سے ہے مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا ہم سب پاکستانی ہیں۔ اپنی اپنی غلطیاں درست کریں۔ سب کی زنبیل دیکھی جائے گی۔ مسابقت اپنی کارکردگی سے کریں۔ میں اخبارات میں ایک خاص چیز دیکھ رہا تھا کہ اب شیخ رشید کا سودا بکنا بند ہو گیا ہے۔ واقعتا فتنہ کودبا دینا ہی اچھی بات ہے۔ اب کسی کو ان کے دفاع کی ضرورت نہیں۔ سب اپنی سیاست تک ہی محدود رہیں۔ کچھ اپنے کام پر بھی تو فخر کریں حیرت ہوتی ہے کہ اپنے محکمے میں حادثات کی بھر مار کا آپ کے پاس جواب نہیں اور باقی اداروں پر آپ بے تکان بولتے ہیں۔ محترم ادارے کو بخش دیجیے۔اپوزیشن کا ہونا بہت اچھی بات ہے کہ کوئی پوچھنے والا تو ہو۔ حکومت کی اپوزیشن تو عوام نظر آ رہے ہیں اور وہ بول بھی نہیں سکتے۔موجودہ ساری صورت حال عمران خاں کے حق میں ہے اور عوام کے خلاف۔ ان کو کیا ملا کچھ تو بتائیے۔ آخر میں ایک بہت پیارے اور دلگداز نعتیہ شعر کا تذکرہ کہ معروف شاعر اقتدار جاوید نے میاں محمد بخش کا ایک نعتیہ شعر لکھا ہے کہ وہ خواجہ سہام الدین علائتبریزی کے فارسی شعر کا ترجمہ ہے۔ اتفاق سے مجھے وہ فارسی شعر بھی معلوم ہے تو میں دونوں شعر آپ کے لئے لکھ رہا ہوں کہ آقا ﷺ کی توصیف توفیق اور اعزاز ہے: ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب ہنوز نام توگفتن ہزار بے ادبیست یعنی اگر منہ مشک و گلاب سے ہزار بھی دھویا جائے تب بھی حضورؐ کا نام لبوں پر لانا بے ادبی ہے۔ جے لکھ واری عطر گلاباں دھوئیے نت زباناں نام اوہناں دے لائق تائیں کہہ قلمے دا کاناں