انگریزوں اور ہندوئوں کے زیر تسلط صدیوں اپنی زندگیاں گزارنے کے بعد 23 مارچ 1940ء کو برصغیر کے مسلمانوں نے لاہور میں اکٹھے ہوکر اپنے لئے ایک علیحدہ مملکت کے حصول کے لئے ایک تاریخی قرار داد منظور کی تھی جو بعد میں 1947ء میں قیام پاکستان کی بنیاد بنی اور پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ جس کے پس منظر میں نظریہ، مسلمانوں کی جہد مسلسل اور ایک ولولہ انگیز قیادت تھی۔ اسی لئے ہر سال 23 مارچ کو ہم اپنے ملک میں اور بیرونِ ملک یہ دن اس تجدیدِ عہد کے ساتھ مناتے ہیں کہ ہم اپنی آزاد و خود مختار حیثیت کاہر قیمت پر دفاع کریں گے۔ پاکستان کے وسیع تر مفادات کا تحفظ کریں گے اس سال بھی ان شاء اللہ 23 مارچ کو اسلام آباد میں ایک عالی شان فوجی پریڈ کے انتظامات کئے جائیں گے۔ اسی روز اسلامی ممالک کی تنظیم او۔ آئی۔ سی کا خصوصی سربراہی اجلاس بھی منعقد ہوگا۔ پاکستان کے لئے یہ دو بڑی اہم ڈیویلپمنٹس ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اسی تاریخی دن کو اپوزیشن کی اقتداری جماعتوں نے احتجاجی مظاہرے کرنے ریلیاں نکالنے اور احتجاجی لانگ مارچ کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ اپوزیشن کا پہلا ہدف وزیراعظم عمران خان ہیں۔ عجیب اتفاق ہے اس وقت جب کہ یوکرائن اور روس کی جنگ جاری ہے دنیا میں نئے بلاک بن رہے ہیں۔ چین اور روس اور دیگر ممالک ایک الگ بلاک جبکہ امریکہ یورپ اور بعض دیگر ممالک دوسرے بلاک میں نظر آتے ہیں۔ پہلے وزیراعظم نے چین کا کامیاب دورہ ایک ایسے وقت میں کیا جب امریکہ اور یورپی ممالک نے سرمائی اولمپک کا بائیکاٹ کررکھا تھا۔ پھر انہوں نے روس کا دورہ کیا تو مغربی طاقتوں اور میڈیا نے اس دورے کے خلاف پاکستان اور عمران خان کو خوب اپنے نشانے پر لیا ہے۔ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک طرف اپوزیشن احتجاج کررہی ہے تو دوسری جانب یورپی سفارتی مشن نے ایک اوپن خط جاری کیا ہے اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرائن حملے پر روس کی مذمت کرے۔ وزیراعظم نے میلسی کے جلسے میں نیٹو اور امریکہ کو اسی لئے آڑے ہاتھوں لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب افغانستان کی وجہ سے پاکستان سے پہلے ہی نالاں ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے کے ساتھ امریکی اسٹبلشمنٹ عمران خان کو ہٹانے کے مواقع تلاش کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے جب چین کے دورے پر تھے تو امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کو اپنا سٹیریجک پارٹنر قرار دیا اور پاکستان کی اپوزیشن کی جانب سے سوال اٹھائے گئے کہ خارجہ پالیسی میں شفٹ کیوں آیا ہے یعنی ہم امریکہ کے پٹھو ہی رہنا چاہتے ہیں۔ اب جس دن وزیراعظم عمران خان روس میں تھے اسی روز یوکرائن میں روس نے جنگ کا آغاز کردیا۔ انٹرنیشنل اسٹبلشمنٹ پھر زیادہ ہی متحرک ہوگئی ہے۔ اخباروں میں آرٹیکلز شائع ہونے لگے عالمی اسٹیبلشمنت فوری طور پر عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہے۔ ملک کے اندر ساری قوتیں عمران خان حکومت کے خلاف متحرک ہیں ایک طرف تحریک عدم اعتماد اور دیگر حربے استعمال ہورہے ہیں بچین میں سنتے تھے ہمارے ملک میں ہر تیسرا بڑا آدمی امریکہ کا ایجنٹ ہے تو اس وقت یقین نہیں آتا تھا موجودہ دور میں ہم اگر اپنی ملکی اسبشلمنٹ کی بات کریں تو وہ عمران خان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور کھڑا بھی ہونا چاہئے اگر کوئی لیڈر آپ کو غلامی سے نکال رہا ہے اور اپنی قوم کا مقدمہ لڑ رہا ہے تو اسے بدلنے سے پھر وہی کچھ ہوتا رہے گا جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ ہماری اسٹبلشمنٹ حالات اور پریشر کو کس طرح ہینڈل کرتی ہے یہی ہماری قوم کا امتحان ہے لیکن ہمیں اس بات کا ایک دفعہ تعین کرلینا چاہیے کہ ہم آزاد خارجہ پالیسی رکھیں گے یا کسی بلاک کا حصہ بنیں گے اسی تناظر میںراولپنڈی سے محترم دوست کرنل ریٹائرڈ جاوید اقبال صاحب کا ایک مراسلہ آج کے کالم میں شامل کررہا ہوں "پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں کی اتھل پتھل ہنگامہ آرائی اور بے چینی ایسے ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پس منظر میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں انفرادی عوامل کے ساتھ کچھ اجتماعی اور کچھ بین الاقوامی عوامل بھی ہیں ان عوامل کا مختصر سا جائزہ لیں توانفرادی عوامل میں سب سے نمایاں کردار مولانا فضل الرحمن کا نظر آتا ہے۔ مولاناکو سرکاری کھانے کے بعد ڈکار ہی اچھے لگتے ہیں۔ اپنے خرچے سے ان کا ہاضمہ ٹھیک نہیں رہتا۔ وہ سرکاری پروٹوکول کے نشے میں مبتلا رہتے ہیں اور کسی بھی صورت وہی دوبارہ انجوائے کرنا چاہتے ہیں۔ میاں نواز شریف اپنی جائیدادیں اور مال بچانے کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں اور اب تو یہ ا ن کی اپنی بقاء کا سوال بن گیا ہے۔ جس کے پیچھے انکی بیٹی اپنے سْنہرے مستقبل کی خوابوں کی تکمیل چاہتی ہے۔ بیٹی اور باپ دونوں کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ھونا چاہیئے۔شہباز شریف اپنی اربوں روپے کی بے نامی منی ٹرانسفرز کی وجہ سے نیب کے شکنجے کے بہت قریب ہیں اور اس کی وجہ سے شدید پریشانی میں مبتلا ہیں۔وہ حکومت پر دباؤ ڈال کر اس سے نکلنے کی شدید کوشش میں مصروف ہیں۔ بلال بھٹو ایک چابی کا کھلونا ہے جس کی چابی آصف علی زرداری اپنی بدعنوانی کے پکڑے جانے سے بچنے کیلئے گھما رہے ہیں۔اجتماعی عوامی اپوزیشن کی تینوں جماعتوں کے سیاسی حالات کچھ خاص اچھے نہیں ہیں اس لیے ان کے لئے اپنی اپنی سیاسی ساکھ کو کچھ بہتر بنانے کیلئے اور اپنے کارکنوں کو مطمعن کرنے کیلئے باہر سڑکوں پر آنا مجبوری بن چکی ہے۔ پاکستان کے روس اور چین کی جانب بڑھتے ھوئے جھکائو کو امریکہ کسی صورت اچھا نہیں سمجھتا اور یہ بات اسے ہضم بھی نہیں ہو رہی۔ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اس پر جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ امریکہ اس صورتحال کو ہر صورت میں بدلنا چاہے گا۔ اس کام کیلئے امریکہ پاکستانی سیاستدانوں کو استعمال کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ بعض پاکستانی سیاستدان بیوروکریٹ اور بعض صحافی واشنگٹن کے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ساتھ قریب ہیں اس کام کیلئے امریکہ نے ان سیاستدانوں اور صحافی حضرات کو میدان میں اتار دیا ہے اور ڈالرز خرچ ہورہے ہیں۔ پاکستان کی عوام اور فوج اس سازش کو ان شاء ناکام بنانے کامیاب ہو جائیں گے۔