چلیے ایک مسئلہ تو حل ہوا‘ منی لانڈرنگ ختم کرنے سے جان چھوٹی۔ وزیر اعظم نے وجہ بتا دی۔ سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس کا فیصلہ میرٹ پر کیا ہوتا تو منی لانڈرنگ ختم ہو جاتی۔ آپ پانچ سال تک اس خیال میں رہے اور اسی کی بنیاد پر یہ دعوے کرتے رہے کہ حکومت میں آتے ہی منی لانڈرنگ ختم کر دوں گا۔ آپ کا فرمانا تھا کہ روزانہ کئی ہزار ارب روپے کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ حکومت میں آنے کے آٹھ نو ماہ بعد آپ کو پتہ چلا کہ حدیبیہ کا فیصلہ چونکہ میرٹ پر نہیں ہوا تھا‘ اس لئے یہ ختم نہیں ہو سکتی۔ اچھا ہے اس بھاری پتھر کو چومے اور چھوئے بغیر ہی ایک طرف رکھ دیا جائے۔ البتہ اس دوران اپوزیشن والوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس بنانے کا عمل تیز تر ہوتا رہے گا۔ منی لانڈرنگ کا خاتمہ اتنا ضروری ہیں جتنا کہ اپوزیشن کا۔ ٭٭٭٭٭ منی لانڈرنگ اور لوٹی ہوئی دولت کا حساب کتاب بھی عوام کے لئے خاصی ٹیڑھی کھیر ہے۔ اتفاق سے ملک میں کرپشن کے خلاف پارٹی ایک ہی ہے‘ ناچار اسی کی باتوں اور دعوئوں کا اعتبار کرنا پڑتا ہے لیکن یہ وعدے الگ الگ موقعوں پر ایک دوسرے سے بہتر مختلف ہوتے ہیں۔ اس لئے عوام الجھ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر سال 2017ء کے پہلے آدھے حصے میں خاں صاحب کہا کرتے تھے کہ نواز شریف نے تیس ہزار کروڑ روپے کی چوری کی۔ اسی سال کے وسط کے بعد سے انہوں نے اچانک ترمیم کی اور 30کو 3سے بدل دیا ۔ دونوں کا آدھا بالترتیب 15اور ڈیڑھ ہوتاہے۔ ڈیڑھ سال پھر اسی تین ہزار کروڑ کی صدا بلند کرتے رہے۔ اب گزشتہ ہفتے انہوں نے انکشاف کیا کہ نواز شریف نے ایک ہزار کروڑ (سو ارب) چوری کر کے باہر رکھوائے ہیں۔ یہ باقی کے دو ہزار ارب کیوں منہا ہو گئے کیا نواز شریف نے اندر ہی اندر یہ رقم واپس کر دی یا پھر اس ترمیم کی کوئی اور وجہ ہے۔ مراد سعید کی ایک تقریر ان دنوں سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔ اس میں وہ ساٹھ ہزار ارب روپے کی چوری کی بات کر رہے ہیں اور ایک بار نہیں کئی بار۔ 60ہزار ارب کتنے ہوتے ہیں۔ سٹیٹ بنک بھی شاید ہی بتا پائے۔ امریکی ریزروبنک سے رجوع کرنا پڑے گا ایک اور موقع پر مراد سعید نے دو سوارب ڈالر کی چوری بتائی تھی۔ اب یہ معلوم نہیں کہ 60ہزار ارب سکڑتے سکڑتے دو سو ارب ڈالر رہ گئے یا دو سو ارب ڈالر پھول کر 60ہزار ارب بن گئے۔ وزیراطلاعات فواد چودھری کا خیال ہے کہ شریف خاندان نے 85سے سو ارب ڈالر تک کی رقم چوری کی۔ شیخ رشید کہتے ہیں کہ دو سو ارب ڈالر چوری کئے۔ بھئی آپ سب صادق و امین ہو لیکن اپنی گنتی تو ایک دوسرے سے ملا لو۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے خود کو منی لانڈرنگ ختم کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش کیا تو وزیر صحت عامر کیانی نے دوائیں مہنگی کرنے کے الزام سے بریت حاصل کر لی۔ گزشتہ روز انکشاف کیا کہ دوائیں مہنگی کرنے کا فیصلہ تو مسلم لیگ ن کی حکومت نے کیا تھا۔ ہمارا ذمہ دوش پوش۔ لگتا ہے‘ لوگوں کو اپنا کیلنڈر درست کرنا پڑے گا۔ دوائیں مہنگی کرنے کا فیصلہ ایک بار نہیں‘ دوبار ہوا۔ پہلی مرتبہ 31دسمبر 2018ء کو دوسری بار 10جنوری 2019ء کو۔ اعلان دس فیصد اضافے کا ہوا تھا لیکن زیادہ تر دواؤں کی قیمت میں 160فیصد اور کچھ کی قیمت میں چار سو فیصد تک اضافہ ہوا۔ کیانی صاحب کے مطابق تب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ گویا جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت آٹھ نو ماہ میں کچھ نہیں کر سکی۔ موجودہ حکومت کو بنے اتنا عرصہ تو ہوا ہی نہیں۔ وہ جنوری کے بعد بنی۔ تب تک مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ فروری مارچ اور اب یہ اپریل۔ تبدیلی سرکاری کو آئے ہوئے ابھی اڑھائی مہینے بھی نہیں ہوئے۔ پھر جو اربوں روپے کا کمشن دوا ساز اداروں سے لینے کا الزام لگا رہے ہیں۔ وہ بھی سراسر غلط ہوا۔ یہ کمشن تو شاہد خاقان عباسی نے ہی وصول کیا ہوگا۔ نیب کو لکھئے کل پرسوں تک وہ یہ ریفرنس دائر کر دے۔ پنجاب کی وزیر صحت کو ابھی تک اس راز کا علم نہیں ہوا چنانچہ وہ دوائیں مہنگی کرنے کی صفائیاں اور جواز دیتی پھر رہی ہیں۔ کوئی انہیں بھی بتا دے کہ ناحق خود کو نہ کھپائیں۔ دوائیں تو پچھلی حکومت مہنگی کر کے گئی تھی آپ کیوں صفائیاں دے رہے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ایشیائی ترقیاتی بنک نے کہا تھا کہ پاکستانی معیشت کی حالت بری ہے۔ وہ نیپال اور مالدیپ سے بھی پیچھے جا رہا ہے۔ اس کی رپورٹ کے دو دن بعد عالمی بنک نے کہا ہے کہ بری نہیں‘ نہایت بری ہے۔ اس کا گورتھ ریٹ جو نواز دور میں چھوٹے ہندسے کو چھو رہا تھا۔ تبدیلی سرکار نے واپس چار پر لاکھڑا کر دیا اور یہ ریٹ مزید کم ہو کر اگلے برس 2.7فیصد تک آ جائے گا یعنی اڑھائی فیصد سے کچھ ہی زیادہ۔ بنک نے ایک مشروط امید بھی دلائی ہے یہ کہ اگر ہنگامی اصلاحات کی جائیں تو اس سے اگلے برس پھر چار فیصد ہو سکتا ہے۔ یعنی 6فیصد سے پھر بھی دو درجے کم۔ مسئلہ یہ ہے کہ تبدیلی سرکار ہنگامی تخریبات میں تو پائے طولیٰ رکھتی ہے اصلاحات کے باب میں منفی صفر ہے۔ پھر کیا ہو گا؟ خود حکومت کے اپنے کبرے اور صغرے ایسی ہی صفائیاں سناتے رہے ہیں۔ ایک وزیر نے فرمایا ملک کنگال ہو چکا ہے۔ شکر ہے یہ نہیں کہہ دیا کہ ملک کا نام بدل کر ہم نے کنگلہ دیش رکھ دیا ہے۔ ایک پاکستان نہیں ہے۔ نیا ہو گیا ہے۔ نیا ملک نیا نام۔ وزیر اعظم نے کہا‘ وفاق دیوالیہ ہو گیاہے۔ وزیر خزانہ نے لمبی چھلانگ لگائی اور ملک ہی کے دیوالیہ ہونے کا اشارہ دیدیا۔ فرمایا ‘ ملک دیوالیہ ہو گیا تو ڈالر مہنگا ہو جائے گا۔ ممتاز ترین ماہر معاشیات کو خیال ہی نہ رہا کہ جب کوئی ملک دیوالیہ ہوجاتا ہے تو اس کے پاس ڈالر رہتا ہی کہاں ہے جو مہنگا ہو۔ اس کے باہر موجود اثاثے بشمول طیران اور بندرگاہوں پر کھڑے ہوائی اور بحری جہاز کھڑے کھڑے ضبط ہو جاتے ہیں باہر سے ترسیلات آنے پر پابندی لگ جاتی ہے۔ خدانخواستہ ایسا ہوا تو ہمارے پاس ڈالر نہیں‘ صرف کھاد کی بوریاں رہ جائیں گی۔ وہ بھی خالی اور پھٹی ہوئی۔ بہرحال پچھلے اگست سے جو قافلہ نوبہار سفر آغاز ہوا ہے۔ کہیں نہ کہیں تو ٹھہرے گا۔ نیپال نہ مالدیپ ہو نہ ہو‘ اس کی منزل صومالیہ لگتی ہے۔