پرسوں ( یکم شعبان / 7 اپریل کو) پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے ’’ مدینۃ اُلعلم ‘‘ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی نواسی ۔’’ باب اُلعلم‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؑ، خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ اُلزہرا سلام اللہ علیہا کی بیٹی ، سیدنا امام حسن ؑ اور سیّد اُلشہدا امام حسینؑ کی ہمشیرۂ محترمہ سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کا یوم ولادت عقیدت و احترام سے منایا گیا ۔ آج (3 شعبان،9 اپریل کو) سیّد اُلشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کا یوم ولادت منایا جا رہا ہے اور کل (4 شعبان ، 10 اپریل کو) مولا علی ؑ کے ایک اور نامور فرزند غازی عباس علمدار ؑ کا یوم ولادت منایا جائے گا ۔ معزز قارئین!۔سانحہ کربلا میں سیّد اُلشہداحضرت امام حسین علیہ السلام ، اُن کے خاندان کے افراد اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد ، اسلام کو زندہ رکھنے میں بی بی زینب سلام اللہ علیہ کا کردار ناقابلِ فراموش ہے ۔سانحہ ٔ کربلا کے بعد ۔ مدینہ سے کربلا اور کربلا سے شام تک ۔ شُہدا ء کی بیوائوں اوریتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر ،سیّدہ زینب ؑ کا سفر۔ کوفہ اور شام کے بازاروں میں اُن کی تقریروں ، یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خطبوں اور برجستہ جوابات پر مؤرخین لکھتے ہیں کہ ’’ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا حضرت علی مرتضیٰ ؑ خطبہ دے رہے ہیں ‘‘۔سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کی خدمت میں میرے منقبت کے تین بند ملاحظہ فرمائیں … خُدا کی رحمت ، مَدام ، تُم پر! رِدائے خَیراُالاَنامؐ ، تُم پر! بتُول کا نُورِ تام، تُم پر! علی ؑ کی بیٹی س سلام تُم پر! …O… مُلوکِیت جیسے غم کدہ، تھی! یزِیدیت زلزلہ زدہ ، تھی! ہے ختم، زورِ کلام تُم پر! علی ؑ کی بیٹی س سلام تُم پر! …O… وفا کے پَیکر ، شُمار ہوتے! وہاں ، جو ہوتے نِثار ہوتے! نبیؐ کے سارے ، غُلام تُم پر! علی ؑ کی بیٹی س سلام تُم پر! …O… سیّد اُلشہدا ۔امام عالی مقام ؑ کی منقبت کے تین شعر یوں ہیں … صاحب کردار ، فخر مِلّت ، بِیضا حسینؑ! کار گاہِ کُن فکاں میں ، منفرد، یکتا حسینؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ …O… حضرت مولُودکعبہ ؑکا، قبیلہ کٹ گیا! اِک طرف طاغوت سارے ، اِک طرف تنہا حسین ؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ …O… منتظر تھے حورُو غِلماں ، انبیاء اور اولیائ! جب درِ فردوس پہنچے ، وارث کعبہ حسینؑ! سیّد اُلشہدا حسین ؑ معزز قارئین!۔ اکتوبر 2011 میں میرے ’’لہوری دوست ‘‘ سیّد یوسف جعفری اور سیّد شاہد رشید ایک دِن میرے پاس تھے۔ جعفری صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ۔ ’’ برادر ِاثر چوہان !۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ’’ سانحہ ٔ کربلا میں حضرت امام حسین ؑ کے چند عقیدت مند ’’ہندو براہمن‘‘ بھی شہید ہُوئے تھے؟ ‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ جی ہاں!۔ مَیں جانتا ہُوں لیکن، مجھے دُکھ ہے کہ، اُس دَور میں ہندوستان کا کوئی راجپوت ؔ۔ امامِ عالی مقام ؑ کے ساتھ کیوں شہید نہیں ہُوا؟‘‘۔ پھرمَیں نے نومبر 2011ء میں اپنے پنجابی جریدہ ’’ چانن‘‘ میں ’’ جے کربل وِچّ مَیں وِی ہوندا‘‘۔ کے عنوان سے امام حُسین ؑ کے حضور ہدیہ عقیدت پیش کِیا ۔ 30 اپریل 2017ء کو حضرت امام حسین ؑ کا یوم پیدائش تھا، اُسی روز مَیں نے ’’حسینیت اور یزیدیت !‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں ، اپنی اُس منقبت کے تین بند بھی شامل کئے۔ تیرے ، غُلاماں نال ، کھلوندا ! پنج ستّ وَیری ، ماردا ، کوہندا! فیر مَیں ، مَوت دی ، نِیندر سوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! …O… نذرانہ دیندا ، جان تَے تن دا! غازی عباسؑ دا ، بازُو بَن دا! حُر دے ، سجّے ہتّھ ، کھلوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! …O… کوہندے ، اثرؔ نُوں ، یزِید دے چیلے اپنے لہو نال ، مَردے ویلے مولاؑ ، تیرے ، پَیر میں دھوندا جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا معزز قارئین!۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور کے آخری دِنوں میں میرے ایک برخوردار سرگودھوی صحافی سیّد رضا کاظمی کے ذریعے میری ملاقات حقیقی معنوں میں درویش ، ’’تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ ‘‘کے سربراہ آغا حامد علی شاہ موسوی سے ہُوئی، جنہوں نے محترمہ کی دعوت پر وزیراعظم ہائوس جانے سے معذرت کرلی تھی۔ پھر 2007ء کے اوائل میں ، تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے سیکرٹری سیّد قمر زیدی اور سیّد رضا کاظمی کے ساتھ ، دانشور ، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوںکے مصنف سیّد عباس کاظمی کو ساتھ لے کر آغا جی کا یہ پیغام لے کرمیرے گھر آئے کہ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ آپ سیّد عباس کاظمی کی کتاب ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ (جنّت کے چراغ) کا پیش لفظ لِکھ دیں !۔ یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز تھا۔ کتاب میں میرے پیش لفظ کے نیچے کاظمی صاحب نے لکھا کہ ۔ ’’ اثر چوہان صاحب کاتعلق اہل سُنّت سے ہے لیکن آپ اہلِ بیت ؑ کا بہت احترام کرتے ہیں !‘‘۔ آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی صاحب نے میرا 30 اپریل 2017ء کا کالم پڑھا تو، اُسی شام مجھے سیّد عباس کاظمی نے فون پر بتایا کہ ’’ قبلہ آغا حامد علی شاہ صاحب کا اپنے تمام رفقاء کے لئے پیغام ہے کہ’’ آج سے اثر چوہان صاحب کو ’’ حسینی راجپوت ‘‘ کہا جائے ‘‘۔ تو، معزز قارئین! ۔ آج آپ ’’ حسینی راجپوت‘‘ کی ایک نعت کے تین بند بھی پڑھ لیں… سرچشمہ ، حُسن و جمال ، دا! کِسے ڈِٹھّا نہ ، اوسؐ دے نال دا! ربّ گھلّیا ، نبیؐ ، کمال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! …O… سوہنے ربّ دا ، سوہنا ، عرش سی! اوہدےؐ ، پَیراں لئی ، اوہ فرش سی! محبُوب ، جی ذواُلجلال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! …O… بُوہا عِلم دا ، تے مہابلی! اوہداؐ جانِشین ، علی ؑ وَلی! جیہڑا ، ڈِگدیاں نُوں، سنبھال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! معزز قارئین!۔مَیں عرض کر چکا ہُوں کہ ’’ میرے آبائو اجداد بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر میں آباد تھے، جب اُنہوں نے نائب رسول ؐفی الہند ،خواجہ غریب نواز، حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒکے دست مبارک پر اسلام قبول کِیا۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد میرے والد صاحب، تحریکِ پاکستان کے (گولڈمیڈلسٹ)کارکن رانا فضل محمد چوہان کی قیادت میں پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوا۔ میرے والد صاحب کی کتابوں کی دکان تھی‘وہ مجھے میلاد شریف کی محفلوں میں لے جایا کرتے تھے ۔ 1956ء میں مَیں نے میٹرک پاس کِیا تو، اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو ، لائل پور ( فیصل آباد) کے ایک روزنامہ میں شائع ہُوئی۔ 1960ء میں مَیں ’’ بی ۔ اے ‘‘ فائنل میں تھا ، جب مَیں نے مسلک صحافت اختیار کِیا۔ 1969ء میں مَیں لاہور شفٹ ہوگیا ۔ 11 جولائی 1973ء کو مَیں نے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ لاہور جاری کِیا ۔ 1981ء کے اوائل میں میرے خواب میں خواجہ غریب نوازؒ میرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔ پھر خواجہ صاحب ؒ کی برکت سے میرے لئے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے کئی غیر ملکی دوروںکے دروازے کُھل گئے۔ 1983ء میں مجھے خواب میں کسی غیبی طاقت نے دلدل سے نکالا اور مجھ سے کہا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؑ کا سایہ شفقت ہے ‘‘ ۔ستمبر 1991ء میں مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانہ کعبہ کے اندر اور روضہ رسول ؐ پر حاضری دینے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ معزز قارئین!۔ بھارتی پنجاب کی سابق ریاست ’’ پٹیالہ‘‘ کے میرے ننھالی رشتہ دار ۔ ’’ غوث اُلاعظم ، حضرت شیخ عبداُلقادر جیلانی/ گیلانی ؒ کے عقیدت مند تھے /ہیں۔ حضرت غوث اُلاعظم ؒ کا ایک شعر ہے … غُلام حلقہ بگوش رسولؐ و ساداتم! زہے نجات نمودن حبیب آیاتم! یعنی۔ ’’ مَیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جملہ سادات کا دست بستہ غلام ہُوں ۔ ہماری نجات کے لئے یہ کتنی محبوب نشانیاں موجود ہیں ‘‘۔ میرے خیال میں یہ محض حضرت غوث اُلاعظم ؒ کا انکسار ہے یا ہم مسلمانوں کی تربیت کا انداز؟۔