سجاد جہانیہ کی کتاب ٹاہلی والا لیٹر باکس ایک دور گم گزشتہ کی بازگشت ہے۔بنیادی طور پر یہ کتاب سجاد جہانیہ کے کالم ہیں مگر ان کی تخلیقی نثر میں گندھے ہوئے کالم اپنی عمر بڑھا کر ایسی کہانیاں بن گئے ہیں جنہیں بار دگر پڑھ کر لطف اٹھایا جاسکتا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سجاد جہانیہ نے کوئی روگ پال رکھا ہے اور اس روگ کی جڑیں ناسٹیلجیا سے پھوٹتی ہیں۔ٹاہلی والا لیٹربکس اس ناسٹیلجیا کی ایک توانا علامت ہے۔خط لکھنے اور خط کا انتظار کرنے کا وہ سنہرا وقت بیت گیا۔ پیغامات کی تیز ترسیل ہونے لگی مگر انسانی تعلقات میں جذبات اور احساسات کا وہ لوبان کہیں کھو گیا جو خطوں میں سلگتا اور تادیر مشام جاں میں خوشبو بکھیرتا تھا۔سجاد جہانیہ ٹاہلی والے اسی لیٹر باکس کو آج کے ڈیجیٹل دور میں اپنے ساتھ اٹھائے پھرتے ہیں۔ وہ کل اور آج کے درمیان موازنہ کرکے ایک گہری اداسی اپنے لیے پیدا کرتے ہیں اور پھر اسی اداسی کے ریشم سے اپنی کہانیوں کا تانا بانا تیار کرتے ہے۔ وقت کی پراسراریت، زندگی کی لاحاصلی کا یہ سفرہر حساس لکھاری کی طرح سجاد جہانیہ کا مسلہ بھی ہے ۔ ان موضوعات پر دل میں اترتی ہوئی کئی تحریریں کتاب میں شامل ہیں۔ بنیادی طور پر یہی ان کے فطری موضوعات ہیں۔ جن پر وہ جم کے لکھتے ہیں۔سجاد جہانیہ کا لکھا ہوا کتاب کا پیش لفظ ایک دلپذیر نثری نظم جیسا ہے۔ یہ کتاب سنگ میل پبلیکیشنز لاہور نے شائع کی ہے۔ دوسری کتاب کراچی سے تعلق رکھنے والی لکھاری عفت نوید کی ہے۔ عفت نوید معروف شاعر میر احمد نوید کی اہلیہ ہیں۔دیپ جلتے رہے سادہ سے الفاظ میں ان کی آٹو بائیو گرافی ہے جس جرات اظہار سے عفت نوید نے زندگی کے کٹیلے موسموں کی داستان لگی لپٹی رکھے بغیر رقم کردی وہی کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہے جو پڑھنے والے کو حیران کرتی ہے۔یہ ایک شاعر کی محبت میں مبتلا ہونے والی دلربا لڑکی عفت نوید کا قصہ ہے۔ راہ رو راہ محبت کا خدا حافظ ہو۔اس میں دوچار بڑے سخت مقام آتے ہیں ، سو جنون میں مبتلا بے روزگار شاعر سے تین بچوں کے ساتھ محبت نبھاتے ہوئے یہ راہ رو راہ محبت زندگی کی جن گھاٹیوں سے گزری کرب کی جن بارشوں میں بھیگی اسے پڑھتے ہوئے گاہے قاری کو پسینہ آنے لگتا ہے ۔اپنی زندگی کی کہانی لکھنا بیتے ہوئے کو دوبارہ گزارنے والی بات ہے اور دوبارہ میں شدت احساس کا الاؤ زیادہ بھڑکتا ہے ۔ عفت نوید سے یہ سوال کرنے کو جی چاہتا ہے کہ آپ کے پاس ایسا کیا ہنر تھا کہ آپ نے کرب کا یہ الائو دوبارہ بھڑکایا اور خود کو راکھ نہیں ہونے دیا ۔ایسی خودنوشت ہمارے ہاں رواج میں ہی نہیں ہے کیونکہ سچ بولنا اور اپنے بارے میں پورا سچ بولنا بھئی کون کر سکتا ہے، سوائے عفت نوید کے میں تو ان کی جرأت اظہار کی قائل ہو چکی ہوں۔ ان کے شریک حیات نامور شاعر میر احمد نوید کے ظرف کی داد بھی دینا پڑتی ہے جنہوں نے اس تلخ سچ کا سامنا کرنے کا حوصلہ کیا عفت نے ایک گھر کو بنانے اور بچانے میں جو قربانیاں دیں وہ ایک مثال ہیں۔یہ تلخ حقیقت اپنی جگہ کہ ہمارے معاشرے کی بیشتر عورتیں گھروں کو بنانے ،بسانے اور بچانے میں خود جذباتی شکست و ریخت میں ریزہ ریزہ ہوتی رہتی ہیں۔عفت نوید اس معاملے میں بھی منفرد ہیں کہ اس سارے سفر میں انہوں نے اپنے اندر کے تخلیقی جوہر کی حفاظت کی اور اصل عفت نوید کو بچائے رکھا۔کتاب کا اظہار بیان سادہ ہے ایسے ہی جیسے کوئی آپ کے سامنے بیٹھ کر کہانی سناتا جائے۔یہ کتاب فکشن ہاؤس لاہور نے شائع کی ہے۔ تیسری کتاب نعیم فاطمہ علوی کی ہے۔ میری ان سے ملاقات کرونا ہی کے دور میں ہوئی جب وبا کا زور کچھ ٹوٹا تو سعود عثمانی نے افسانہ نگار نعیم فاطمہ علوی کے اعزاز میں تقریب رکھی۔وہ بہت دلنواز مسکراہٹ سے ملیں کہ میں فوراً اپنائیت کے حصار میں آگئی۔مجھے لگا ان سے ملنا کسی پر بہار منظر سے ملنے جیسا ہے۔وہ محبت ،شدت احساس ،حس تعلق اور بچوں کی سی حیرت سے چھلکتی ہوئی روح ہیں۔یہی عکس انکی تحریر میں جھلکتا ہے۔ کھڑکی سے اس پاربظاہر کرونا کے شب و روز کی داستان ہے ۔اس کی نثر تخلیقی، شاداب اور رواں ہے۔کہیں غیر ضروری کرافٹ کا گمان نہیں ہوتا۔ احساس کی شدت میں گند ھے ہوئے جملے یوں لگتا ہے کہ نعیم فاطمہ پر شعروں کی طرح گھڑے گھڑائے اترتے ہیں اور وہ سلقیے سے سمیٹ کر کاغذ کی گود میں رکھ دیتی ہیں۔نعیم فاطمہ علوی نے ہمارے سامنے ایک جادوئی کھڑکی کھول دی اور ہم اس کھڑکی میں متحیر کھڑے ہوئے ہیں۔جہاں کرونا کے شب و روز نے زندگی کی گہما گہمی کو ویران کردیا ہے اور کبھی اسی اداسی اور ویرانی میں ماضی کا کوئی ہنگامہ جاگ اٹھتا ہے۔ یہ جادوئی کھڑکی ایک ٹائم مشین کی طرحہمیں نعیم فاطمہ کے ماضی میں لے جاتی ہے۔ یہاں شرارتوں سے بھرے بچپن کے ہلکارے بھرتے ہیں تو ہماری نعیم فاطمہ یونیورسٹی کے ہنگامہ خیز دور میں الیکشن لڑتی دکھائی دیتی ہیں ،اپنی والدہ اور والد کے حوالے سے خوبصورت خاکے تحریر کیے اس آئینے میں اپنی یونیورسٹی کا ہنگامہ خیز دور دکھایا تو ہمیں الھدیٰ کی بانی فرحت ہاشمی سے بھی بطور طالبہ ملوا دیا بلاشبہ یہ نایاب معلومات ہیں۔وہ کرونا کے شب و روز کی ویرانی کو بیان کرتی ہوئی اپنی زندگی کے مختلف ادوار کی تصویریں ہمارے سامنے رکھنے لگتی ہیں ،کبھی اپنے دوستوں کے خوبصورت خاکے تحریر کرتی ہیں۔ ان کی نثر تخلیقی جوہر سے لبالب بھری ہے۔ایک بات کی تشنگی ضرور ہے کہ کتاب پڑھتے ہوئے لگا کہ ہم کھڑکی کے پار مناظر کے حسن میں ابھی گم تھے کہ کسی نے کھٹاک سے کھڑکی بند کردی۔ امید ہے کتاب کے اگلے ایڈیشن میں اس تشنگی کو کم کیا جائے گا۔کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے شائع کی ہے۔