صفر المظفر----حضرت داتا گنج بخش ؒ کے عرس کی سرگرمیوں اور محبت آمیز یوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے، بر صغیر کا سب سے بڑا دینی اور روحانی فیسٹول، جہاں دین و فقر اور تہذیب و معاشرت--- پاکیزگی اور طہارت سے آراستہ ہوتے ہیں،داتاؒ دربار کا روحانی دائرہ (Aura) اورعرس شریف کی تقریبات کا ظاہری پھیلائو(Radius) کافی وسیع ہے ، بقول اقبالؒ ؛ خاکِ پنجاب از دمِ اُو زندہ گشت صبح مَا از مہرِ اُو تابندہ گشت ہم اہالیانِ پنجاب،یعنی پاکستان کے وسنیک، تو آپؒ کے دم قدم سے حیاتِ تازہ کے حامل اور دینِ اسلام کی نعمتوں سے سرفرازہوئے،آپؒ ہی کے آفتابِ وجود سے ہماری ملّت کے اُفق روشن ہیں، گویا اسلامی تہذیب اور مسلم تخلیقی فکر کے بانی اور رکنِ رکیں---اس عظیم المرتبت ہستی کی بارگاہ میں ہماری گردنیں اس لیے بھی خَم ہیں اور رہیں گی--- کہ آپؒ کی برکت اور وجودِ سعید کی نعمت کے سبب یہاں شجرِ اسلام تناور اوراُس کی گھنی چھائوں عامۃُ الناس کو دستیاب ہوئی۔بنا بریں، یہاں کے قوم اور قبیلے ہمیشہ سپاس گزاری کے جذبوں کو فراواں کیے،آپؒ کے آستاں کی حاضری کو ہمشیہ حرزِ جاں سمجھتے ہیں، عرس پر یہ بے پایاں عقیدتیں ----اَور زیادہ ہجوم کر آتی ہیں ۔ ویسے توان ایام میں پنجاب کا ہر قریہ اور گوشہ آپؒ کے تذکرہ سے آراستہ ہو جاتا ہے ، اور آپؒ کے مزار کے گِرداگرد---- کچہری چوک سے لے کر ، آزادی فلائی اوور تک، میلوں پہ محیط---- اوراس کا علمی ، دینی،روحانی اور فکری دائرہ، اس سے بھی کہیں زیادہ وسعت آراء اور دل پذیر ہے۔ جامع مسجدداتاؒ دربار کے ’’مرکزی ہال‘‘میں تبلیغی اجتماعات کے لیے 20x40فٹ پہ محیط جو نہایت پُرشکوہ سٹیج آراستہ کیا جاتا ،اور جہاں ہر عہد کی اکابر شخصیات ، علماء وخطباء اور سکالرزحضرات مسند آراء ہونے کو اپنے لیے اعزازجانتے رہے ---- اسی طرح سماع کی محافل اور اُس کے اہتمامات و انتظامات لائقِ دیدہوتے ہیں۔سبیل دودھ کے لیے پنجاب کی گُجربراداری کی وارفتگی اور جوش و جذبہ منفرد---- سال بھر میں خالص دودھ کی دستیابی---- شاید داتاؒ دربار کے علاوہ اور کہیں نہ ہو ۔ بہرحال کسی دَور میں خطّے کے دیگر مراکزِ دینیہ و روحانیہ بھی ایسی ہی سرگرمیوں سے مالا مال تھے، مگر بتدریج، اداروں میں ویرانی چھانے لگی۔ مسجد وزیر خان کی وہ بزمِ محبت، جہاں بریلی سے آنے والے مہمان کی آمد کا تذکرہ سُن کر ، لاہور میں ایف اے کا امتحان دینے والاطالب علم محمد سردار احمد ---- ’’مُحدّثِ اعظم ؒ‘‘کی مسند پر فائز ہونے کے عظیم سفر پر روانہ ہوگیا، ایسی ہی مجالس میں خواجہ محمد یار فریدیؒ کے خطبات کے تذکرے سُنے، حزبُ الاحناف کا سالانہ جلسہ کئی یوم پہ محیط ہوتا ، شہسوارانِ خطابت وبلاغت اور صاحبانِ علم و حکمت جلوہ آراء اور تشریف فرما ہوتے ----مگر اب ؛ تیری محفل بھی گئی ، چا ہنے والے بھی گئے مفقود اور معدوم ہوتی ہوئی، اِن عظیم علمی ، دینی اور خانقاہیِ روایات میں، صرف داتاؒ دربار عرس تقریبات کی آب و تاب ہی اپنی رنگ و نگہت کے ساتھ جلوہ آراء ہے اور پورے طبقے کی کمی ، کجی اورکوتاہیوں کا ازالہ کر جاتی ہے ۔ اگرچہ یار لوگ اس عظیم روایت کے بھی درپے ہیں، مگر---گزشتہ رُبع صدی میں وسعت آفریں ہوتی ہوئی،اِن عرس تقریبات کا پھیلائو اڑھائی یوم سے بڑھ کر ایک ہفتہ سے آگے تک پہنچنے کو ہے۔ اِمسال عرس کے موقع پر منعقدہ’’سہ روزہ عالمی کانفر نس ‘‘کا آغاز و افتتاح 09 ستمبر جمعۃ المبارک کو ہوگا ،جس کا مرکزی موضوع:ــ ’’عصر حاضر میں تصوّف اسلامی کے احیاء کی ضرورت وا ہمیت --- تعلیمات سیّد ہجویر ؒ کی روشنی میں ‘‘ جبکہ عرس شریف کا’’اختتامی ختم شریف‘‘،جس کا آغاز 17 ستمبر ہفتہ رات تقریباً12 بجے ہوگا،کی آخری ساعتیں اور محفلِ سماع کا’’رنگ‘‘اتوار کی صبح، نمازِ فجر تک جاپہنچے گا---- بہرحال، یہ داتاؒ دربار عرس تقریبات کی قوسِ قزح ہے،جو دنیا بھر میں صوفیاء و صلحاء کے دیگر آستانوں سے منفر دو معتبر----عرس شریف کی ان تقریبات کو مزید توانا و تاباں بنانے کے لیے علمی و تحقیقی مساعی کا اہتمام بھی لازم ہے، تاکہ حضرت داتا گنج بخشؒ کی تصنیف ِ لطیف کے افکار و رشحات ،زائرین و متوسلین تک پہنچ سکیں۔ اس جذبے کے پیش نظر امسالـ"الزادُالحقیقت فی التصوّف و الطریقت" کے عنوان سے نذرانہ عقیدت پیش کرنے کا سامان میسر ہوا، جو زیور ِطباعت سے آراستہ ہوکر، قارئین کے روبرو ہے۔اس میں’’ ہجویریات‘‘ سمیت ’’تصوّف و طریقت‘‘ کے حوالے سے مختلف شذرات، کالم،اور مختلف کتب ِ تصوف و طریقت پر لکھے جانے والے دیباچہ و مقدمہ جات شامل ہیں، جوعرس شریف پر اپنی حاضری پیش کرنے کا محض ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے ۔ عہدِ حاضر کے عظیم صوفی سکالر پروفیسراحمد رفیق اخترکہا کرتے ہیں کہ مَیںنے کشف المحجوب کو محض بار بارپڑھا ہی نہیں ، بلکہ اس کو اپنے اوپر وارِد کیا ، اور اس میں اپنی زندگی بسر کی ہے ۔ ہمیں بھی ایسے ہی جذبے کی ضرورت ہے۔ حضرت داتاگنج بخشؒ تصوّف کے حَرکی (Kinatic) پہلو کے قائل تھے ، حضرتِ اقبال ؒ نے آپؒ کی شخصیت کے تعارف میں جو باتیں فرمائیں ، وہ ایسی ہی تھیں ،جن میں ایک تو یہ ہے کہ : پاسبانِ عزت اُمّ الکتاب از نگاہش خانۂ باطل خراب ’’ یعنی آپ ؒ برصغیر میں قرآن مجید کی تعلیمات کے محافظ ہیں اور آپؒ کے اقدام سے ہندوستان میں کفر کی قدیم طاقتوں کا خاتمہ ہوا۔آپؒ نے قرآن پاک کی آیات کے ابلاغ و اہتمام اور حفاظت و ترویج کا فریضہ یوں سر انجام دیا کہ خطّے میں قرآنی علوم و معارف کے سَوتے جاری ہوگئے ۔‘‘ اور دوسری اہم بات جو آپؒ کی شخصیت کے حوالے سے اقبال ؒ نے کہی کہ: عہدِ فاروقؓ از جمالش تازہ شدـ حق ز حرفِ اُو بلند آوازہ شد ’’ یعنی ترویجِ دین کے لیے آپؒ کی مساعی جمیلہ نے ،عہدِ فاروقی کی یاد تازہ کر دی، آپؒ نے اس سرزمین میں اعتدال اور راسخ العقیدگی کی بنیاد رکھی اور ایک مضبوط عمرانی و سیاسی نظم قائم کیا، جس سے خطّے میں دین اسلام اور مذہب کی مرکزیت ہمیشہ کے لیے مُسلّمہ اور پائندہ ہوگئی ۔‘‘ " فضلیت "اور" ولایت" کے حوالے سے فرماتے ہیں :ـ’’پنی فضیلتوں کو دیکھنے والا کبھی صاحب ِفضیلت نہیں ہوتا اور اپنی ولایت کو زیر نظر لانے والا کبھی صاحب ِولایت نہیں رہتا ، عظمت تو دونوں سے بے خبری کا نام ہے۔‘‘ آپؒ نے شاہ شجاع کرمانی ؒ کا ارشاد نقل کیا کہ:’’ صاحب ِفضیلت کو اس وقت تک فضیلت ہے جبکہ تک وہ اپنی فضیلت کو نہ دیکھے، جب اسے دیکھ لیا تو اب اس کی کوئی فضیلت نہیں۔ایسے ہی ولی اللہ کے لیے اسی وقت تک ولایت ہے، جب تک کہ وہ اس کی نظر سے پوشیدہ ہے ، جب اُسے ولایت نظر آئی توسمجھ لو کہ اب اس کی ولایت نہیں رہی۔‘‘ دُعا ہے اللہ تعالیٰ ہماری اس سعی کوقبول فرمائے ۔