مَیں حیران ہُوں کہ ’’ شاید نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت ’’ امیر جمعیت عُلماء اسلام‘‘ (فضل اُلرحمن گروپ) کی سیاست میں بھی ’’ تبدیلی‘‘ (Alteration) آگئی ہے یا آتی جا رہی ہے ؟۔ (3 ربیع الاوّل بروز جمعہ ) یکم نومبر کو ، فضل اُلرحمن صاحب ، جب اسلام آباد کے پشاور موڑ پر اپنے ’’آزادی مارچ ‘‘کے سٹیج پر رُو نما ہُوئے تو ، الیکٹرانک میڈیا پر مَیں نے دیکھا کہ ’’ وہاں کھڑے ایک باریش نوجوان نے ’’ قائدِ ملّت اِسلامیہ، مولانا فضل اُلرحمن زندہ باد‘‘ اور ’’ قائد انقلاب مولانا فضل اُلرحمن زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے اور حاضرین سے بھی لگوائے تو ، مَیں نے اُسے معمول کی بات سمجھا۔ معزز قارئین!۔ مَیں 60 سال سے مسلکِ صحافت سے وابستہ ہُوں لیکن، اُس روز (شام) مَیں نے پہلی بار دیکھا اور سُنا کہ’’ فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے خطاب میں ، نواسۂ رسولؐ سیّد اُلشہداء امام عالی مقام حضرت امام حسین ؑ کے نام کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ بھی کہا ۔ پھر مَیں نے پہلی بار دیکھا اور سُنا کہ ’’ فضل اُلرحمن صاحب نے پہلی مرتبہ بانی ٔ پاکستان کو قائداعظمؒ کہا ۔ اِس سے پہلے تو، وہ ہر موقع پر ’’ بانیٔ پاکستان ‘‘ کو مسٹر جناح یا مسٹر محمد علی جناح کہا کرتے تھے ۔ 1993ء میں ’’ امن کی آشا‘‘ کے علمبردار روزنامہ ’’ جنگ ‘‘ کے ’’ سنڈے میگزین‘‘ میں فضل اُلرحمن صاحب نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’ محمد علی جناح کوئی پیغمبر نہیں تھے کہ اُن پر تنقید نہیں کی جاسکتی؟‘‘۔ بہرحال اُنہوں نے ’’ بانیٔ پاکستان‘‘ کو قائداعظمؒ کہا تو ، مجھے بہت خُوشی ہُوئی ۔ ضرب اُلمِثل کے مطابق کہ ’’ دیر آید، درست آید؟‘‘۔ ’’سیاست میں تبدیلی کیوں؟‘‘ 6 ربیع الاوّل (4 نومبر ) کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’ اسلام آباد پسند، قائدِ انقلاب مُک مُکا‘‘۔ مَیں نے اُس میں تبرکاً فضل اُلرحمن صاحب کی خدمت میں سیّد اُلشہدا امام حسین علیہ السلام کے لئے اپنی منقبت اور قائداعظمؒ کے بارے میں اپنی نظم کے چند شعر پیش کئے اور اپنے دوست ’’ شاعرِ سیاست‘‘ کی نظم کے یہ دو شعر بھی ۔ ایک مصرعہ یوں تھا کہ … ’’کوئی بھی بن سکتا ہے ، عزتِ مآب مُک مُکا؟‘‘ فضل اُلرحمن صاحب نے 8 ربیع الاوّل (6 نومبر ) کو (اپنے ’’آزادی مارچ ‘‘ کے شرکاء سے) خطاب کرتے ہُوئے اعلان کیا کہ’’ ہم 12 ربیع الاوّل کو اپنے جلسہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی عقیدت میں ’’سیرۃ کانفرنس ‘‘ میں بدل دیں گے‘‘۔اچھی بات ہے لیکن، معزز قارئین!۔ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم تو 12 ربیع الاوّل کو صبح سویرے عید میلاد اُلنبیؐ منانا شروع کردیتے ہیں اور مختلف اوقات میں ، اور رات گئے ، نعتیہ پروگراموں کا انعقاد بھی کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ’’ 12 ربیع الاوّل 2019ء کو ، صبح سے نمازِ عشاء کے بعد سے پہلے فضل اُلرحمن صاحب تو ، خیر چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی سے مذاکرات کرنے میں مصروف رہیں گے ، لیکن ’’ آزادی مارچ‘‘ میں دُور ،دُور سے لائے اور بلوائے گئے حاضرین کی کیا مصروفیت ہوگی ؟۔ ’’ خُوش اُلحان فضل اُلرحمن صاحب!‘‘ بہرحال ’’ آزادی مارچ‘‘ کے سیاسی جلسے کو ’’سیرۃ کانفرنس‘‘ میں بدلنے کا اعلان ہُوا تو، اچھا ہُوا۔ بقول شاعر… یہاں تک پہنچے، یہاں تک تو آئے؟ مَیں نے الیکٹرانک میڈیا پر فضل اُلرحمن صاحب کو قُرآنِ پاک کی تلاوت کرتے دیکھا اور سُنا ہے۔ ماشاء اللہ!۔ بہت ہی خُوش اُلحان قاری ( علم قرأت سے واقف) ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ’’ موصوف اپنی ’’سیرۃ کانفرنس‘‘ میں عاشقِ رسولؐ علاّمہ اقبالؒ کی لکھی / کہی کوئی نعت ، رسول مقبول ؐ، خُوش الحانی سے پڑھ کر عالم اِسلام میں علاّمہ اقبالؒ سے اپنے نئے رشتے کا تعارف بھی کرا دیں ؟۔ علاّمہ اقبالؒ کے شیدائی!‘‘ معزز قارئین!۔ آپ سوچتے ہوں گے کہ ’’ مَیں فضل اُلرحمن صاحب سے اُن کی ’’سیرۃ کانفرنس‘‘ میں صِرف علاّمہ اقبالؒ کی نعت پڑھنے ، سنانے کی درخواست کیوں کر رہا ہُوں؟ ‘‘۔ اِس لئے کہ ’’ 8 ربیع الاوّل (6 نومبر ) کو اپنے خطاب میں اُنہوں نے علاّمہ اقبالؒ سے علی الاعلان اپنی دلچسپی کا اظہار کِیا تو ،مَیں کیوں نہ لکھوں کہ’’ فضل اُلرحمن صاحب، قائداعظمؒ کے بعد علاّمہ اقبالؒ کے بھی شیداؔئی بن گئے ہیں!‘‘۔ یوم اقبالؒ ! یہ درست ہے کہ ’’پاکستان میں اور بیرون پاکستان بھی ، فرزندانِ و دُخترانِ پاکستان ہر سال 9 نومبر کو علاّمہ اقبالؒ کا یوم ولادت اور 21 اپریل کو آپؒ کا یوم وِصال مناتے ہیں لیکن، نہ جانے کیوں اور کِس ترنگ میں آ کر وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اعلان کردِیا گیا تھا کہ ’’ وہ 9 نومبر 2019ء کو ’’ گوردوارہ کرتار پور صاحب کی راہداری کے منصوبے کا افتتاح کریں گے ؟ ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کیا وزیراعظم عمران خان کے دربارؔ میں کوئی ایسا ’’صاحبِ اقبال ‘‘ نہیں جو، اپنے صاحبؔ کو ’’ مصورِ پاکستان‘‘ کی سالگرہ (9 نومبر) کے بارے میں کچھ بتا سکتا؟۔ ایک اور بات کہ’’ علاّمہ اقبالؒ خُود ’’بابا گرو نانک جی ‘‘ کے "FAN" (شیدائی)تھے ۔ اپنی نظم نانکؔ میں علاّمہ اقبالؒ نے گرو جی کے مِشن کی تعریف کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … پھر اُٹھی آخر صدا ، توحید کی ، پنجاب سے! ہند کو ، اِک مردِ کامل نے، جگایا خواب سے! گرو نانک جی کا جنم دِن تو 12 نومبر کو منایا جاتا ہے ؟۔ پھر کیا ہُوا؟۔ فضل اُلرحمن صاحب کو وزیراعظم عمران خان کا ’’ توا لگانے‘‘ کا موقع کیوں دِیا گیا ۔ حالانکہ فضل اُلرحمن صاحب اور اُن کی ’’ جمعیت عُلماء اسلام‘‘ نے اور اِس سے پہلے اُن کے والدِ (مرحوم) مفتی محمود صاحب اور اُن کی ’’ جمعیت عُلماء اسلام ‘‘ نے کبھی بھی ۔ 9 نومبر کو علاّمہ اقبالؒ کا ’’یوم پیدائش‘‘ اور 21 اپریل کو’’ یوم وِصال ‘‘ کبھی نہیں منایا؟۔ کیا فضل اُلرحمن صاحب نے اِس بارے میں کوئی اجتہاد ؔ کِیا ہے؟ اور عجیب بات ہے کہ موصوف نے کہا کہ ’’ کیا اب ہم یوم اقبالؒ کے بجائے بابا گرو نانک کا دِن منایا کریں گے‘‘ ۔ تعلیماتِ اقبالؒ! فضل اُلرحمن صاحب!۔ اب مَیں آپ سے مخاطب ہُوں ! ’’ آپ نے یقیناً قرآنِ پاک کی اِس آیت ( کے اردو ترجمہ) میں اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان پر ضرور غور کِیا ہوگا کہ ’’ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے پوچھتے ہیں کہ ( اللہ کی راہ میں ) کِس قدر خرچ کریں ؟‘‘ تو آپؐ اُنہیں یہ جواب دے دیں کہ’’ جتنا تمہارے خرچ سے بچے‘‘۔ اِس آیت کی روشنی میں ، اپنی نظم ’’ اشتراکیت‘‘ میں علاّمہ اقبالؒ نے کہا کہ … قُرآن میں ، ہو غوطہ زَن، اے مردِ مسلماں! اللہ کرے، تجھ کو عطا، جدّتِ کردار! …O… جو حرفِ قُل العَفو، میں پوشیدہ ہے ،اب تک! اِس دَور میں، شاید وہ حقیقت ہو نُمودار! علاّمہ اقبالؒ جب، وکالت کرتے تھے تو، آپ ؒ اپنی اور اپنے اہل خانہ کی ضروریات کے مطابق مقدمات ، اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوست / شاگرد ، وُکلاء میں تقسیم کردیتے تھے۔ یہ گویا علاّمہ صاحب ؒ کا اپنے دوست / شاگرد وُکلاء سے ایک طرح کا رشتہ مؤاخات ؔ ( بھائی چارا) تھا، جو ’’ ریاستِ مدینہ‘‘ میں پیغمبر انقلابؐ نے یہودیوں کے ساتھ ’’میثاق مدینہ‘‘ کرنے سے پہلے ، انصارِ مدینہ ؔاور مہاجرینؔ مکّہ سے مؤاخات ( بھائی چارا) قائم کردِیا تھا۔ ’’مؤاخات کے مطابق ‘‘ انصارِ مدینہ نے اپنی آدھی جائیداد اور دولت مہاجرین مکّہ میں تقسیم کردِی تھی۔ فضل اُلرحمن صاحب!۔ ’’مصّور ِ پاکستان ‘‘ علاّمہ اقبالؒ نے بیرسٹر محمد علی جناحؒ کو متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کا قائد تسلیم کِیا تو، پوری اُمتِ مسلمہ نے آپؒ کو قائداعظمؒ تسلیم کرلِیا اور قائداعظمؒ نے یہ کِیا کہ ’’ گورنر جنرل آف پاکستان کا منصب سنبھالتے ہی اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا‘‘۔ فضل اُلرحمن صاحب!۔ مَیں آپ کو نہیں چھڑوں گا لیکن، کیا آپ کے دو ممدوح ، (مردانِ بیمار) سابق صدر آصف علی زرداری اور نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف ۔ ’’قُل العَفو ‘‘ کے معیار پر ’’ مصّور ِ پاکستان‘‘ علاّمہ اقبالؒ اور ’’بانیٔ پاکستان ‘‘ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے برابر ہوسکتے ہیں؟۔ ضرب اُلمِثل کے مطابق ’’ چہ نسبت خاک را، با عالمِ پاک ؟ ‘‘۔