عمران خان پر وزیر آباد میں ہوئے قاتلانہ حملے نے ملک کی سیاسی فضا کو مکدر کردیا ہے۔ پارٹی قیادت حکومت اور اداروں پر انگلیاں اٹھا رہی ہے اور ارکان سراپا احتجاج۔ قیادت اور کارکنان سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اسکے مقامی اتحادی انکی قیادت کو ایوان اقتدار سے ہی باہر نکال پھینکنے پر اکتفا نہیں کر رہے بلکہ اسے راستے سے ہٹانے کے درپے ہیں تاکہ وہ اس ملک کیخلاف سازش میں کامیا ب ہوسکیں۔ بیانیے کی جنگ سے نکلیں، یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے ، جسے' سیاسی صدمہ 'کہا جاتا ہے۔ اس نفسیاتی کیفیت سے تحریک انصاف کو ہی پالا نہیں پڑا بلکہ کم و بیشتر تمام سیاسی پارٹیاں اس سے کبھی نہ کبھی متاثر ہوئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت قتل ہوئی، شریف فیملی نے قید و بند کی صعوبتیں کاٹیں اور جلاوطنی بھگتی۔ قوم پرست تحریکیں ، بشمول متحدہ قومی موومنٹ ، کے خلاف فوجی آپریشن ہوئے۔ تحریک انصاف کے اپنے تین سالہ دور اقتدار میں سابقہ حکمران پارٹیوں کی قیادت کو احتساب کی چکی سے گزارا گیا۔ کرپشن کے پرچے درج ہوئے، چھاپے پڑے ، گرفتاریاں ہوئیں، جیلیں اور جلاوطنیاں ہوئیں لیکن بعد میں ثابت کچھ نہیں ہوا۔ اب وہی سیاسی پارٹیاں اقتدار میں ہیں ،انکے پاس اداروں کی طاقت ہے اور سامنے بے دست وپا مخالفین جن کے پاس اپنے اوپر کیے گئے مظالم کا جوابِِ احتجاج کے سوا کچھ نہیں لیکن انہیں احتجاج نہیں کرنے دیا جارہا۔ انگریزوں کے دور کے فوجداری قوانین ، جو حکومت کے ساتھ وفاداری کے لیے افراد کی تذلیل کے نقطے پر مرکوز ہیں، اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ سب معتوب پارٹیوں کے خلاف استعمال ہوئے ہیں اور تحریک انصاف سے اس مشتشنیٰ نہیں۔ حکومتی وزرا کے بیانات او ر مخالفین کے خلاف ان کے رویے دیکھیں تو واضح ہے کہ ہر دو فریق ایک ہی طرح کے مرض کا شکار ہیں۔ پچیس مئی کے اردگرد تحریک انصاف کے کارکنوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ اسکی موجودہ احتجاجی تحریک کو بھی اس طرح کا خطرہ ہے۔ اور کہیں نہیں تو اسلام آباد ، جہاں مخا لفین کی حکومت ہے، میں کارکنوں پر تشدد اور انکی پکڑ دھکڑ کا خدشہ ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ اس کے دارلحکومت میں داخلے کی اجازت دینے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ اگر راضی ہے بھی تو ایک دن سے زیادہ نہیں۔ دیگر قدغنیں سوا ہیں۔ ہفتوں لانگ مارچ رواں دواں رہا اور وزیرآباد میں سانحہ ہوگیا۔ وہاں سے لانگ مارچ کے دوبارہ آغاز کا اعلان ہوا ہے تو اسلام آبادکی انتظامیہ اجازت دینے میں پس و پیش کر رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں معاملات کو نفسیاتی تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کا رواج نہیں۔ متعلقہ تعلیمی ادارے کم ہیں اور ،نتیجتاً ،ماہرین بھی۔ بڑے بڑے ہسپتال موجود ہیں لیکن یہ تصور نہیں کہ کسی کا علاج کرنے سے پہلے اسے کسی نفسیات دان کو ہی دکھا دیا جائے۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ کم ازکم سنجیدہ جرائم میں ملوث کسی مجرم کے خلاف پولیس کاروائی سے پہلے اسکا نفسیاتی ٹیسٹ ہی کرالیا جائے۔ فیصلہ سازوں کی بے توجہی ہی ہے کہ عام لوگ ایسی بیماریوں کا علاج کرانے ڈاکٹروں کے پاس پہنچ جاتے ہیں جو انہیں سرے سے ہوتی ہے نہیں ۔ ڈاکٹر بھی اتنے مصروف کہ مریض نے علامات بتائیں اور فوراً پرچی لکھ دی۔ آرام کہاں سے آئے کہ بیماری نفسیاتی تھی اور علاج جسم کا کر دیا۔ چلیں یہ تو افراد کی بات ہے کہ وہ گھریلوں حالات یا کسی سانحے کی وجہ سے پریشان حال ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو نہ صرف بیمار سمجھنے لگ جاتے ہیں بلکہ علاج کرانے پہنچ جاتے ہیں لیکن ایسے صدمے کا کیا جائے جو لوگ اجتماعی طور پر محسوس کرتے ہیں، جیسا کہ سیاسی صدمہ؟ سیاسی صدمے کی اصطلاح امریکی سیاست میں آئی دراڑ کے تناظر میں زیر بحث ہے۔ ڈیموکریٹس انتخابی نظام میں بیرونی مداخلت کا رونا رو رہے ہیں تو یہی خدشہ ریپبلکن کو بھی ہے کہ انہیں ایک سازش کے تحت اقتدار سے دور رکھا جارہا ہے تاکہ امریکہ کے وسائل ا سکے اپنے لوگوں پر خرچ ہونے کی بجائے دور دراز علاقوں میں لڑی جانے والی جنگوں اور جمہوری اقدار کے فروغ پر خرچ کیے جائیں۔ عام امریکی یہ سوچ کر پریشان ہے کہ جمہوریت کا کیا ہوگا، معیشت کس طرف جائے گی اور مہنگائی اور بیروزگاری کے ستائے عوام کا کیا بنے گا؟ ماہر نفسیات ڈاکٹر خالدمفتی کہتے ہیں کہ اگر لوگ کسی سیاسی واقعہ ، بد امنی اور انتشار کی وجہ سے صدمے کا شکا ر ہوجائیں تو اسے نہ صرف کوئی انہونی بات نہ سمجھیں بلکہ اس کے ازالے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ اس ڈیجیٹل دور میں خبریں تیزی سے پھیلتی ہیں اور آپ کو صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا کہ متاثرین کی تعداد کتنی ہے۔ سیاسی صدمہ اپنے اسباب اور نتائج کے تناظر میں صرف کلینکل مسئلہ نہیں جسے نفسیات دان حل کرلیں۔ وہ سیاسی صدمے کے شکار لوگوں کو پہروں سن سکتے ہیں ، جو کہ صدمے کے ازالے کا پہلا اور بنیادی قدم ہے، لیکن نہ تووہ انہیں ڈی بریف کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایسے اقدامات تجویز کرسکتے ہیں جس سے مریض کی کوئی تسلی و تشفی ہوسکے۔ چونکہ سیاسی صدمہ کی ذمہ دار سیاسی پارٹیاں ہی ہیں جو اپنے مفادات کے لیے نہ صرف مخالفین کوانتقامی کاروائیاں کا نشانہ بناتی ہیں (پروپیگنڈہ ، دروغ گوئی ، الزام تراشی سرفہرست) بلکہ اپنے کارکنان کو بھی مظلومیت کا بیانیہ دیکر انہیں قربانیاں دینے پر اکساتی ہیں، حل قانون کی حکمرانی ہے۔مطلب، الیکشن کمیشن کو پارٹیوں کے معاملات کو وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انکی فیصلہ سازی کا ڈھانچہ کیا ہے، کارکنان کی تربیت کا بندوبست کیا ہے اور یہ کہ انہیں اہم نوعیت کے فیصلوں میں شریک کیا جاتا ہے یا وہ اندھی تقلید کا شکار ہیں ،اس معاملے پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ فافن کے سابق سربراہ سرور باری نے یہ معاملہ بھی اٹھایا ہے کہ موروثی سیاست کرنے والی سیاسی پارٹیوں کے پاس مقامی سطح کی تنظیم سازی نہیں ، یعنی انکی جڑیں عوام میں نہیں بلکہ وہ جتھوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے سہارے چلتی ہیں ، ظاہر ہے جب وہ اقتدار میں آئیں گی تو انکا رویہ عوامی نہیں ہوگا۔ اپنے اقتدار کو قائم رکھنے اور اسے طول دینے کے لیے وہ سیاسی صدمے کو فروغ دے سکتی ہیں۔ میں نے مفتی صاحب سے فوری حل پوچھا تو انہوں نے کہ شفاف انتخابات تحریک انصاف ہی نہیں بلکہ حکمران پارٹیوں کو بھی 'سیاسی صدمے 'سے باہر نکال سکتے ہیں!