لوٹ مار کے خوگر آصف علی زرداری کا فرزند بلاول بھٹو نہیں‘ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے نواز شریف اور عمران خان نہیں۔ فارسی کا محاورہ یہ ہے ’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘اپنا لگایا ہوا زخم آسانی سے مندمل نہیں ہوتا۔ہو سکتاہے، آج بھی قوم اگر اپنے گریبان میں منہ ڈالے۔ آج بھی مہاتیر محمد ایسی کوئی شخصیت تلاش کی جائے۔ عمران خاں نہیں، بھٹو کا نواسا بلاول زرداری نہیں۔ 1947ء کے قومی خزانے میں صرف اسّی ہزار روپے پڑے تھے، صرف اسّی ہزار۔ مہاجرت کا خوفناک سلسلہ۔ متحدہ ہندوستان کے اثاثو ں میں سے اسّی کروڑ روپے پاکستان کا حصہ تھے جو روک لیے گئے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا: شبنم کے قطروں کی طرح جو سورج کی اولین کرنوں سے تحلیل ہو جاتے ہیں، پاکستان ختم ہو جائے گا۔ ابوالکلام آزاد اور جواہر لعل کیا، دیکھتے ہی دیکھتے کرم چند موہن داس گاندھی بھی غیر متعلق ہونے لگے۔ انتہا پسند وزیرِ داخلہ ولبھ بھائی پٹیل نے عنان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ حیدر آباد پر قبضے کا فیصلہ انہوں نے کیا۔ کشمیر میں یلغار کے تانے بانے ان کی قیادت میں بنے گئے۔طے پایا کہ تقسیم کی افراتفری سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو بکھیر دیا جائے۔ اس کے باوجود ہم بچ نکلے۔ پاکستان کو اسّی کروڑ روپے سونپنے کے لیے گاندھی جی نے مرن برت رکھا۔ ایک شام آر ایس ایس کے کارکن گوڈسے نے گاندھی جی کو قتل کر ڈالا۔ خون سے لکھا گیا اعلان یہ تھا کہ پاکستان کے باب میں ذرا سی نرمی بھی برداشت نہ کی جائے گی۔ مفاہمت کی آرزو رکھنے والا خواہ ہندو تاریخ کا مقدس ترین آدمی ہی کیوں نہ ہو۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں اوسط آمدن اسّی ڈالر فی کس اور بھارت میں اس سے دو گنا تھی۔صنعتیں سب کی سب بھارت میں تھیں۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کا ایک کارخانہ تھا۔شکر کا بھی ایک۔ جی ٹی روڈ کے علاوہ صرف اڑھائی سو کلومیٹر پختہ سڑکیں، بجلی کی پیداوار صرف اڑھائی سو میگاواٹ۔ اس کے باوجود پاکستان میں شرحِ ترقی حریف سے دو تین گنا تھی، 1968ء تک۔ اکتوبر1958ء میں ایوب خاں نے اقتدار سنبھال لیا۔ نظریاتی اور سیاسی کنفیوژن پھیلانے میں فوجی اقتدار نے اہم ترین کردا ر ادا کیا۔ سیاست دان کم قصور وار نہ تھے۔ 1951ء میں لیاقت علی خاں قتل کر دیے گئے۔ایران میں مداخلت کی امریکی فرمائش مسترد کر دی تھی۔ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد افسر شاہی نے پرپرزے نکالنا شروع کیے۔ میر جعفر کے پڑپوتے اسکندر مرزا اور ملک غلام محمد ان کے سرخیل تھے۔ غلام محمد کو قائدِ اعظم حیدر آباد دکن سے لائے تھے۔ذاتی زندگی میں وہ ایک خوش عقیدہ،لائق اور دیانتدارآدمی تھے۔ دکن میں ساڑھے سات ہزار روپے ماہوار کی ملازمت چھوڑ کر پاکستان آئے اور تین ہزار روپے ماہوار پہ خوش دلی سے اپنے فرائض سر انجام دینے لگے۔ اقتدار کی ہوس مگر ایسی چیز ہے جو عامیوں میں دیوتا بننے کا جنون جنم دیتی ہے۔ فوجی اقتدار سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں اپنی جگہ، فیلڈ مارشل کے عہد میں جدید صنعت کاری کی بنیادیں استوار ہوئیں بلکہ زرعی انقلاب بھی۔گندم کی پیداوار دو گناہو گئی۔ 1965ء میں پاک فوج کو جنگ میں دھکیل دیا گیا۔ یہیں سے خوفناک بحران کا آغاز ہوا، آج تک جو جاری ہے۔ 1964ء کے انتخابات میں خوفناک دھاندلی فیلڈ مارشل کی پہاڑ ایسی غلطی تھی۔ سکندر مرزا کی ایرانی اہلیہ ناہید مرزا کی فرمائش پر لاڑکانہ کے کمسن جاگیردار ذوالفقار علی بھٹو وفاقی کابینہ کا حصہ تھے۔بعد ازاں اسی آدمی نے پاکستانی معیشت کی جڑیں کاٹ ڈالیں۔مورخین کی اکثریت متفق ہے کہ 1965ء کے کشمیر میں مہم جوئی کا مشورہ بھی عالی جناب نے دیا تھا۔ 1971ء میں آنجناب نے اقتدار سنبھالاتو سانحہ مشرقی پاکستان کے باوجود پاکستان معاشی طورپر زندہ و بیدار تھا۔ نیم پاگل یحییٰ خان کے مختصر دوراقتدار کے سوا شرح ترقی اوسطاً چھ فیصدرہی۔ صنعتی نمو کی یہ سطح برقرار رہتی تو پاکستانی معیشت آج ملائیشیااور ترکی سے کہیں زیادہ مستحکم اوراستوارہوتی۔ صنعت پھل پھول رہی تھی۔ اصفہانی، آدم جی، سہگل، جعفربردارز، رنگون والا اور افریقہ والا برادرز کی قیادت میں ملک تیزی سے ترقی کے راستے پر تھا۔ عالمی پریس میںپاکستان کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا۔ ایک صنعتی بہشت Industrial paradise۔ ایک کے بعد دوسری فیکٹری، ایک کے بعد دوسرا کارخانہ۔ لاکھوں ملازمتیں ہر سال لیکن پھر دولخت پاکستان کے ملبے پر سوشلزم کا پرچم لہراتے ذوالفقار علی بھٹو سریر آرائے سلطنت ہوئے۔ اقتدار سنبھالتے ہی 31قسم کے سینکڑوں صنعتی یونٹ، تیرہ بینک، چودہ انشورنس کمپنیاں، جہازرانی کے د س ادارے اور دو پٹرولیم کمپنیوں سمیت بہت کچھ سرکاری ملکیت میں چلا گیا۔ سٹیل کارپوریشن آف پاکستان، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائیزرز، انڈس کیمیکلز، اتفاق فاؤنڈری، حبیب بینک، یونائیٹڈ بینک، مسلم کمرشل بینک، پاکستان بینک، بینک آف بہاولپور، لاہور کمرشل بینک، آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپنگ، گلف سٹیل شپنگ، سینٹرل آئرن اینڈ سٹیل ملز سمیت کتنے ہی ادارے بھٹو کی ملکیت ہو گئے۔ انتہا یہ ہے کہ آٹا پیسنے اور چاول صاف کرنیوالے چھوٹے چھوٹے کارخانے بھی۔ پہلا اعلان یہ تھا: حکومت فقط انتظام سنبھالے گی۔ ملکیت مالکان کی رہے گی۔ دوسرا یہ کہ حکومت ہی مالک ہوگی۔ کوئی زرِ تلافی نہیں ملے گا۔ ردعمل ہوا تو مالکان کو معاوضہ ادا کرنے کا فیصلہ ہوا لیکن یہ کہ قیمت کا فیصلہ حکومت کرے گی۔ مزدور کی فلاح ہی مقصود تھی تو ٹریڈ یونین شائستہ خطوط پر منظم کی جاتی۔ محنت کشوں کی مراعات بڑھا دی جاتیں۔قانونی تحفظ انہیں دیا جاتا۔ بھٹو کا مسئلہ مختلف تھا۔ وہ اپنے حامیوں اور مزدوروں کو انقلاب کا تاثر دینے پر تلے تھے۔اپنے نعروں کے اسیر اور خود کو ہیرو ثابت کرنے پر اتارو۔ رزاق داؤد کے دادا سیٹھ احمد داؤد جیل سے رہا ہوئے تو امریکہ چلے گئے، جہاں انہوں نے تیل کمپنی بنا لی۔آج اس میدان میں ہم غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ ایم اے رنگون والا برما سے بمبئی آئے اور 1947ء میں اپنا کاروبار پاکستان منتقل کیا۔ ایک دو نہیں، 45کمپنیاں چلا رہے تھے، ملائیشیا چلے گئے۔ بٹالہ سے سی ایم لطیف آئے۔ بادامی باغ لاہور میں پاکستان کا سب سے بڑا انجینئرنگ کمپلیکس قائم کیا، ٹیوٹا کے اشتراک سے۔رنگون والا ہی نہیں، ہارون، جعفر سنز، سہگل بھی پاکستان چھوڑ گئے۔ صنعت کاری تھم گئی۔ فینسی گروپ کے اکتالیس کارخانے تھے۔ بعد میں صرف ایک فیکٹری لگا سکے، وہ بھی بسکٹ کی۔ قومیائی جانے والی صنعتوں کا اسّی فیصد برباد ہو گیا۔ زراعت میں شرح ترقی ایک تہائی رہ گئی۔ مشرقی او ر مغربی پاکستان کیلئے جتنا قرض اب تک لیا تھا، اس سے زیادہ بھٹو کے پانچ برس میں۔ افراطِ زر تیزی سے بڑھا۔عمران خان کے عہد سے بھی زیادہ۔ ادائیگیوں کے خسارے میں 795فیصد اضافہ ہوا۔ بھٹو کے پورے عہد میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ ہی شائع نہ ہوئی۔ شرحِ ترقی دو فیصد رہ گئی۔ اب ہم چین کے مرہونِ منت ہیں۔ فارسی کا محاورہ یہ ہے ’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘خود خریدی ہوئی بیماری کا علاج نہیں ہوتا۔ ملک کو لاحق بیماری کا علاج ممکن ہے۔ قوم اگر فکرو تدبر پے آمادہ ہو ‘ مہاتیر محمد ایسی کوئی شخصیت تلاش کی جائے‘ کوئی جمہوری پارٹی تشکیل دی جائے۔ لوٹ مار کے خوگر آصف علی زرداری کا فرزند بلاول بھٹو نہیں‘ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے نواز شریف اور عمران خان نہیں۔