یمن کی جنگ میں غضب کا موڑ آیا ہے۔ صدر ہادی کی حکومت دوسری مرتبہ بے دخل ہو گئی۔ پہلے حوثیوں نے صنعا سے نکالا۔ اب ’’اسلامی فوج‘‘ نے بندر گاہی شہر عدن سے نکالا دیا۔ جی اسلامی فوج دھڑے بند ہو گئی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے پورے عدن پر قبضہ کر کے سعودی اتحادیوں کو صدر ھادی سمیت نکال باہر کیا ہے اور یہ کوئی کل کی خبر نہیں۔ اسلامی فوج کے دو دھڑوں میں گھمسان کی جنگ مہینہ بھر پہلے شروع ہوئی۔ اماراتی دھڑے نے عدن کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا‘ بہت سے سعودی اتحادی مارے گئے کچھ دنوں بعد سعودی دھڑے نے حملہ کر کے اماراتیوں کو نکال باہر کیا۔ اب کی بار اماراتی فوجی مارے گئے اور بھی چار روز پہلے امراتی دھڑے نے سعودیوں پر خوفناک بمباری کی اور سارے شہر پر قبضہ کر لیا۔ قبضہ تو انہوں نے زنجبار پر بھی کر لیا تھا لیکن وہ سعودیوں نے واپس لے لیا ہے اور اب صدر ھادی کی حکومت زنجبار ہی میں خیمہ نشین ہے۔ یہ زنجبار ’’المشہور‘‘ شہر نام ہے جو افریقہ کے ساحل پر ہے اور تنزانیہ کا حصہ ۔یہ زنجبار عدن کے مشرق میں واقع علاقے کا نام ہے۔ یمنی عوام سوچتے نہیں ہیں کہ اب کسے شہید کہیں! سعودیوں کو یا اماراتیوں کو؟ بہرحال شمال میں سعودی دھڑے نے حوثیوں کو مغربی شہر حرض میں ایک بڑے مارجن سے بچھاڑا ہے اور حرض کا محاصرہ کر لیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو میں کہا کہ بھارت سے مذاکرات تبھی ہونگے جب وہ کشمیر کی سابقہ آئینی حیثیت بحال کرے۔ گزشتہ روز یعنی انٹرویو کے اگلے روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مذاکرات کے لئے بھارت کو تین شرطیں دیں۔1۔کرفیو اٹھائو۔2۔ سیاسی لیڈر رہا کرو۔3۔ انسانی حقوق بحال کرو۔ کیا کشمیر پالیسی نے اگلے روز ہی وہی والا ٹرن لے لیا؟ چلئے کوئی بات نہیں۔ مزید فرمایا‘ جنگ کوئی آپشن نہیں ایک ہزار فیصد ٹھیک فرمایا لیکن حضور جنگ کے سوا پھر مسئلہ کشمیر کے حل کا بھی کوئی آپشن نہیں آپ کی ’’کامیاب سفارت کاری‘‘ تو ذرا بھی نہیں۔ آپ نے جتنے بھی رابطے کئے جواب میں سننے کو ایک ہی فقرہ ملا۔ ’’ہمیں تشویش‘‘ ہے۔ تازہ رابطہ سعودی عرب سے ہوا ‘ اس نے بھی تشویش ظاہر کی۔ حیرت ہے امریکہ سے جاپان تک‘ نیپال سے مالدیپ تک ساری دنیا ’’تشویش ظاہر‘‘ کرنے پر متفق ہو گئی ہے اور اسی پر ٹک گئی ہے۔ ٭٭٭٭٭ پاکستان جنگ نہیں چاہتا۔ حکومت کے احوال اور بیانات سے صاف عیاں ہے تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ جلسے جلوسوں بیانوں اور مضمونوں کی تان کشمیر میں انسانی حقوق پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ حالانکہ یہ اصل مسئلہ ہے ہی نہیں۔ اس کی آف شوٹ ہے۔ اصل مسئلہ کشمیر پر بھارت کا ناجائز قبضہ ہے۔ کشمیری عوام اس قبضے کو نہیں مانتے حریت کے لئے مزاحمت پر اتر آئے‘ چنانچہ بھارت نے انہیں زنجیر بند کر دیا اور اب سامنے یہ ہے کہ اصل مسئلہ غائب، آف شوٹ کو لے کر ساری ریاستی پالیسی چل رہی ہے۔ آج کشمیری عوام غلامی پر راضی ہو جائیں۔ بھارت کرفیو اٹھا لے گا۔ جیلوں کے قفل کھول دے گا۔ ٭٭٭٭٭ حکومت ٹھیک کہتی ہے جنگ کوئی آپشن نہیں اور جنگ ہو گی بھی نہیں۔ وائٹ ہائوس میں’’فریقین‘‘ نے یہی طے کیا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کو ایٹمی جنگ سے ڈرا رہے ہیں اور دنیا ہے کہ رسید بھی نہیں دیتی۔ اس لئے کہ وہ جانتی ہے‘ ایٹمی کیا‘ روایتی جنگ بھی نہیں ہونی۔ جو طے ہے وہ طے ہے اور جو طے ہوا ہے‘ اسی پر عمل ہو گا اور آزادی کشمیر بالکل خطرے میں نہیں ہے جیسے کہ مولانا فضل الرحمن بتا رہے ہیں کنٹرول لائن پر بھارت کی جو شرانگیزی طویل مدت سے چل رہی ہے ‘ وہ گاہے گاہے چلتی رہے گی۔ خدانخواستہ کوئی بڑا اقدام نہیں ہو گا۔ ایٹمی جنگ کے ڈراوے کا اصل مخاطب اصل میں عالمی برادری ہے ہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام ہیں۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ عوام کہیں جہاد کا مطالبہ نہ کر دیں۔ یعنی کہا دنیا سے لیکن سنایا عوام کو جا رہا ہے کہ میاں دیکھو جہاد کیا تو ایٹم بم چل جائیں گے سب مارے جائیں گے۔ اری حکومت بانوجی ‘ کیوں عوام کو ڈراتی ہو وہ ایسا کوئی مطالبہ نہیں کر رہے اور کریں گے بھی نہیں اور یہ جو ٹی وی سٹیج کے مجاہدین جہاد کی جو صدا لگا رہے ہیں تو یہ عوام نہیں اور ان کی صدا بھی کوئی سچ مچ کی نہیں۔ انہیں بھی پتہ ہے کہ جنگ تو ہونی نہیں‘ صدا لگا کر غازی بن جانے کی سعادت مفت میں ملتی ہے تو کیوں نہ لیں۔ صدا تو پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ نے بھی خوب لگائی۔ کہا‘ قبائلیوں کو لے کر نکلوں گا اور کشمیر آزاد کرا لوں گا۔محمود میاں کی یہ صدا محض مفت میں غازی بننے کی خواہش نہیں ہے تو بسم اللہ ‘ پھر نکلیں اور قبائلیوں کا لشکر لے کر سرینگر چھڑا لائیں۔ ایف اے ٹی ایف سے ڈرنے کی کیا ضرورت۔ ٭٭٭٭٭ اس خبر پر زیادہ شونہیں(اکا دکا چینلز پر دہائی سی مچی ہوئی ہے کہ حکومت نے چند من پسند صنعت کاروں کے ذمے سرکاری رقم مالیتی تین سو ارب روپے معاف کر دی ہے۔ حکومت نے آتے ہی عوام پر سات سو ارب روپے کا ٹیکس لگایا۔ ناقدین نے کہا کہ یہ بلا جواز اور ظالمانہ ہیں۔ اب سمجھ میں آیا کہ بلا جواز نہیں تھے ۔تین سو ارب کا جواز تو مل گیا‘ باقی چار سو ارب کا بھی مل جائے گا۔ یوں یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا کہ حکومت جو رقم لے رہی ہے وہ آخر جا کہاں رہی ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت دیانتدار ہے۔