انیس سو تہتر کے آئین کے معمار بظاہر سماجی انصاف کے قدردان تھے اور انسانوں کے استحصال سے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ انہوں نے بنیادی حقوق سے متعلق شقوں کو مقدس دستاویز کے بالکل اوپر رکھا اور اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا۔ آج ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی انسانی یقین کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اسے سیاسی جماعتوں کے منشور میں محض 60 کی دہائی کے آخر میں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ استحصال اور جبر کے خلاف مزدوروں، کسانوں اور طلباء کی بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کو تسخیر کرنے کے لیے شامل کیا گیا تھا۔ نام نہاد سیکولر اور سوشلسٹ پارٹیوں کی عام انتخابات میں جیت کا یہی راز تھا ۔ انیس سو ستر کے عام انتخابات میں جاگیرداری کا خاتمہ پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا مشترکہ نقطہ تھا۔ سیاسی قیادت کی اگلی نسل نہ صرف اس وعدے کو فراموش کر بیٹھی بلکہ اس نے ان طاقتوں کو بھی اپاہج کرڈالا جو اس کی تکمیل کے لیے آواز اٹھا سکتی تھیں۔ آرٹیکل 3 پر غور کریں۔ "ریاست استحصال کی تمام اقسام کو ختم کرے گی اور بنیادی اصول کی بتدریج تکمیل کرے گی کہ ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق، ہر ایک کو اس کے کام کے مطابق۔" آرٹیکل 38 واضح کرتا ہے کہ "ریاست لوگوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے گی... دولت اور ذرائع پیداوار کے چند لوگوں کے ہاتھوں میں تقسیم کو روک کر۔" ریاست کا وعدہ ہے کہ وہ افراد کی آمدنیوں میں فرق کو مٹائے گی۔ اسی طرح آئین مقامی حکومتوں کے قیام اور خواتین، کسانوں، مزدوروں اور اقلیتوں کے لیے ریزرو کوٹہ کی ضمانت دیتا ہے۔ نصف صدی گزرنے کے بعد، استحصال کی شکلیں بدتر ہو چکی ہیں۔ کرپٹ، لالچی اور خود غرض اشرافیہ نہایت ڈھٹائی سے جمہوریت، پارلیمنٹ کی بالادستی، آزاد عدلیہ اور میڈیا کی آزادی جیسے عظیم نعروں کے پیچھے اپنی غلط کاریوں کو چھپا رہی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ 50 سال بعد سماجی، معاشی اور سیاسی اجارہ داریوں نے پاکستان کی ریاست پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر ندیم الحق اور امین حسین کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، "اکتیس خاندان مالیاتی منڈیوں کے ساتھ ساتھ کارپوریشنز کے بورڈز پر بھی حاوی ہیں۔" اس تحقیق میں "کارپوریٹ سیکٹر، کاروباری برادری، ریٹائرڈ سویلین اور فوجی افسران کے نمائندوں" کو فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مصنفین کو "بے ترتیب نجکاری اور نسبتاً لاپرواہ کثیر القومی ضوابط" بھی سنگین صورتحال کے ذمہ دار معلوم ہوتے ہیں۔ سچائی کو چھپانے کا ایک بہترین طریقہ یا تو اس کی موجودگی سے انکار کرنا یا اسے کوئی اور نام دینا ہے۔ اگلے دن، محترمہ نفیسہ شاہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں بحث کرتی ہوئی پائی گئیں کہ ملک میں جاگیردار نہیں رہے۔ جب کوئی کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ’روشن خیال‘ شخص سے اس طرح کی تردیدیں سنتا ہے، تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ذاتی مفادات لوگوں کو حقائق سے اندھا کر سکتے ہیں۔ حقائق حقائق ہوتے ہیں۔ 2010 کی زرعی مردم شماری کے مطابق "سندھ اور بلوچستان میں بڑے زمینداروں کا حصہ چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ ہے"۔ آج 2021 میں سندھ میں جاگیردارانہ تسلط بدصورت ہو چکا ہے۔ پاکستان نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ واضح طور پر بتاتی ہے کہ کس طرح عدم مساوات نے دو مختلف پاکستان تخلیق کیے ہیں۔ یو این ڈی پی کی دو سال قبل شائع شدہ رپورٹ کا مشاہدہ ہے۔ "کئی طریقوں سے، پاکستان میں عدم مساوات طاقتور گروہوں کی وجہ سے بڑھ اور مضبوط ہورہی ہے۔ مقصد دوسروں کی قیمت پر دولت، طاقت اور مراعات جمع کرنا ہے۔ عدم مساوات کا یہ محرک طاقتور قوتوں کی صف بندی کی عکاسی کرتا ہے۔ جب تک طاقت و اختیارکے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں نہیں کی جاتیں اور مساوات کے اصول پر قائم نظام کی طرف سیاسی نظریے میں انقلابی پیش رفت نہیں ہوتی۔ رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے، "کارپوریٹ سیکٹر ،بشمول صنعت اور بینکنگ سیکٹر ،نے سب سے زیادہ مراعات لیں ہیں۔ اس کے بعد جاگیردار طبقہ ہے، اس کے بعد متمول افراد ہیں۔ 2017-18 میں، طاقتور گروہ ملک کی مجموعی قومی آمدنی کا 7 فیصد لے اڑے۔"تو، کیا کرنا ہے؟ ہمارے آئین کا آرٹیکل 29(3) ایک علاج فراہم کرتا ہے۔ اس کے تحت صدر اور صوبائی گورنر اپنی اپنی حکومتوں سے "پالیسی اصولوں" پر پیش رفت رپورٹ تیار کرنے اور پیش کرنے کے پابند ہیں۔آئین کی منظوری کے بعد ایسی رپورٹیں صرف تین بار پیش کی گئی ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کے منشور اور یو این ڈی پی، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، دو طرفہ عطیہ دہندگان اور این جی اوز کی رپورٹس میں ان مضامین کے ذکر کو غالباً اور آسانی سے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مزدور رہنما، انسانی حقوق کے محافظ اور سیاسی تجزیہ کار بھی ان مضامین کو بھول گئے دکھائی دیتے ہیں۔ نتہائی مراعات یافتہ اشرافیہ نے اپنے مذموم مفادات کے لیے بڑی کامیابی سے عوام کو نسل، ذات، فرقہ اور مذہب کی بنیادوں پر تقسیم کیا ہے۔میڈیا کی غفلت کے پیچھے کوئی شرارت ضرور ہے۔ قومی گفتگو کو محنت کش عوام کے بڑھتے ہوئے استحصال، اجارہ داریوں اور محرومیوں پر بات کرنی چاہیے۔ یہ تب ہی ہو گا جب پسماندہ اور بے اختیار لوگ منظم ہو جائیں، استحصالی ڈھانچوں کو مسترد کر دیں، اور سیاسی نظام میں اپنے مقام کا دعویٰ کریں۔ چونکہ آئین اعلیٰ عدلیہ کو 'پالیسی کے اصولوں' کے معاملات میں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے شہری آرٹیکل 29(3) کے تحت صدر اور صوبائی گورنروں سے اپنی متعلقہ حکومتوں کو 'پالیسی کے اصولوں' پر پیش رفت کی رپورٹ پیش کرنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔ لازم ہے کہ سول سوسائٹی ان مضامین کو پاکستان کی قومی گفتگو کی بنیاد بنائے۔ اس سلسلے میں، حال ہی میں 200 سے زیادہ پسماندہ ایسوسی ایشنز، ٹریڈ یونینز، سی بی اے، کمیونٹی پر مبنی تنظیموں، سماجی گروپوں اور این جی اوز نے کولیشن 38 تشکیل دیا ہے، جس کا مقصد 'پالیسی اصول' اور آرٹیکل 3 کو سماجی تبدیلی کا محرک بنانا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے وہ دو مختلف پاکستان کے عمل کو روک سکتے ہیں۔ اشرافیہ کی طرف سے شہریوں کے خلاف دہائیوں سے جاری جنگ کو دانشمندانہ اور جمہوری طریقوں سے لڑنا چاہیے۔ اس راستے کا پہلا قدم نامعلوم کو معلوم کرناہے۔