وزیر اطلاعات فواد چودھری نے الیکشن بل پر الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو غیر حقیقی قرار دیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلوں سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ انتخابی عمل کو شفاف بنانے سے متعلق فیصلے کرنا حکومت کا کام ہے۔ الیکشن کمیشن حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کے فرائض انجام دیتا ہے اور اسے اپنے اسی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن الیکٹرانک ووٹنگ کرانے کا پابند ہے‘ الیکشن بل میں اگر کوئی امر آئین سے متصادم ہے تو اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ وزیر اطلاعات نے اپوزیشن کی جانب سے انتخابی اصلاحات پر بات کرنے کے معاملے پر کہا کہ اپوزیشن اصلاحات پر بات کرنا چاہتی ہے تو وہ پارلیمنٹ میں بات کر سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے الیکشن ایکٹ (ترمیمی) بل پر اپنے تحفظات سے حکومت کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا ہے۔ کمیشن نے پارلیمانی امور اور قانون و انصاف کی وزارتوں کو ارسال کیے گئے الگ الگ مراسلوں میں مجموعی طور پر 72 مجوزہ ترامیم میں سے 45 پر اعتراض کیا ہے۔حکومت کو ارسال کردہ ایک دستاویز میں اعتراض کی وجوہات گنواتے ہوئے آئین سے روگردانی کرنے والی 15 ترامیم اور ایکٹ سے متصادم 5 ترامیم کی نشاندہی کی گئی۔انتظامی بنیادوں پر کمیشن نے مجموعی 17 ترامیم کی مخالفت کی ہے جبکہ ای سی پی نے 27 ترامیم کی حمایت کی ہے۔ان دستاویزات کو مراسلے سے منسلک کیا گیا جن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دفعہ 17 اور دفعہ 221 میں ترمیم کرکے 'آبادی کے بجائے ووٹروں کی بنیاد پر حلقہ بندی' دراصل آئین کی خلاف ورزی ہے۔اس میں بتایا گیا کہ یہ ترمیم آرٹیکل 51 (5) سے متصادم ہے جس میں آبادی کی بنیاد پر نشستیں مختص کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ انتخابی فہرستوں کی تیاری اور اس پر نظر ثانی سے متعلق باب چہارم کے سیکشن 24، 26، 28، 29، 30، 31، 32، 33، 34، 36، اور 44 پر بھی اعتراض کیا گیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 219 اے اور 222 سی سے متصادم ہیں۔آرٹیکل 219 اے کے تحت انتخابی فہرستوں کو وقتاً فوقتاً نظر ثانی کی ضرورت ہے۔آرٹیکل 222 اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کسی بھی قانون سے کمشنر یا الیکشن کمیشن کے اختیارات چھیننے یا اس کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ کہا گیا کہ مذکورہ بالا حصوں کے اخراج سے انتخابی فہرستوں کی تیاری اور نظرثانی سے کمیشن کی طاقت ختم ہوجائے گی اور یہ اختیار نادرا کو دے دیا جائے گا جو آرٹیکل 222 کے منافی ہوگا۔اسی طرح سیکشن 25 میں ایک مجوزہ ترمیم جس کا مقصد نادرا کو ایک نئے این آئی سی ہولڈر کو بطور ووٹر رجسٹر کرنے کا اختیار دیتا ہے، اس کی مخالفت کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت رائے دہندہ کی رجسٹریشن ای سی پی کی ایک خصوصی طاقت ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے لکھے گئے خط میں بل سینیٹ میں پیش کرنے سے قبل معاملہ وزیراعظم عمران خان کے علم میں لانے کی درخواست کی گئی اور خفیہ ووٹنگ کے بجائے اوپن ووٹنگ کا لفظ شامل کرنے کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔الیکشن کمیشن نے کہا کہ اوپن ووٹنگ کا لفظ شامل کرنا آئین کے آرٹیکل 226 کی خلاف ورزی ہے۔ تحریک انصاف انتخابی اصلاحات کی پر زور حامی رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کی غیر شفافیت سے شاکی رہی ہیں لیکن حیرت انگیز رویہ اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب کوئی ایک جماعت انتخابی اصلاحات میں ایسے اقدامات شامل کرنے کی بات کرتی ہے جن سے دھاندلی کا سدباب ہو سکے تو باقی جماعتیں مخالفت پر اتر آتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ جماعتیں دھاندلی کو تحفظ دینے والے نظام سے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔ حکومت کا پیش کردہ حالیہ انتخابی بل سابق حکمران جماعتوں کی مخالفت کا ہدف ہے۔ لیڈر آف اپوزیشن شہباز شریف نے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو خط لکھا کہ 2023ء کے انتخابات کے آزادانہ‘ غیر جانبدارانہ‘ شفاف اور بلا مداخلت انعقاد کے لئے اصلاحات ضروری ہیں۔ انہوں نے خط میں لکھا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرے۔اپوزیشن لیڈرکے پاس موقع تھا کہ وہ اس بل پر اسمبلی میں بات کرتے لیکن انہوں نے نمائندگی کے پلیٹ فارم کو درست طریقے سے استعمال نہیں کیا۔ حکومت نے اسمبلی اور سینٹ میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے اوپن بیلٹ کی حمایت کی‘حکومت کی جانب سے الیکٹرانک مشینوں اور نادرا ریکارڈ کی مدد سے ووٹروںکی پہچان اور ووٹ کا طریقہ نافذ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ان اقدامات سے کچھ نئے انتظامی مسائل نمودار ہو سکتے ہیں لیکن کم از کم دھاندلی کی شکایات کا بڑے پیمانے پر ازالہ ممکن ہو سکے گا۔ رہا الیکشن کمیشن کے اعتراضات اور اپنے اختیارات کم ہونے کی بات توکلی اختیارات ملنے کے باوجود آج تک الیکشن کمیشن کون سا انتخاب تسلی بخش انداز میں کروا سکا۔ بہتر ہو گا کہ اصلاحات میں رکاوٹ پیدا کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن ایک معاون ادارے کے طور پر اس اصلاحاتی عمل میں مثبت کردار ادا کرے۔اس تعاون سے آئینی طور پر اس کے اختیارات کم نہیں بلکہ بڑھیں گے۔