میں پاکستانیوں کی اس نسل سے ہوں جس نے ذوالفقار علی بھٹو کی ایوب خان کے خلاف تحریک اور پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ناگہانی سانحہ دیکھا اور یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ میں نے اپنے والدصاحب کو اشکبار اور شدید مایوس دیکھا کیونکہ وہ بطور طالبعلم تحریک پاکستان کا حصہ رہے تھے اور ملک کے دو لخت ہونے پر بہت رنجیدہ تو تھے ہی لیکن باقی ماندہ پاکستان کے حوالے سے متفکر بھی۔پھر بھٹو صاحب کو زمام اقتدار سنبھالتے دیکھا جنہوں نے اس مایوسی کے عالم میں ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھی جسکو عالم اسلام کا قلعہ قرار دیا جانے لگا۔1974ء اسی ماہ فروری میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد لاہور میں ہوا جس میں اس وقت کے تمام مسلم ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ مشہور ترین سربراہان میں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل بن عبد العزیز السعود، متحدہ عرب امارات کے بادشاہ زید بن سلطان النہیان، لیبیا کے صدر معمر قذافی،مصر کے صدر انور سادات اور فلسطین کے یاسر عرفات شامل تھے۔بد قسمتی سے یہ تمام سربراہان مملکت سوائے ابو ظہبی کے بادشاہ زید بن سلطان النہیان کے غیر طبعی موت کا شکار ہوئے جو بلا شبہ مسلم ممالک کے خلاف ایک بڑی سازش کا حصہ تھا کیونکہ لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے فیصلے اس وقت دنیا کے بڑے ٹھیکیدار ممالک کے معاشی نظام کو براہ راست چیلنج کر رہے تھے اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک ایک بہت بڑے معاشی نظام کو کھڑا کر لیتے اور مغرب اور امریکہ اسکے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتا۔ اس موقع پرپاکستان کے اندر ایک جذباتی فضا تھی اور دل و جان سے مسلم ممالک کے سربراہان کی آمد کا جشن جاری تھا ۔ اس جذباتی فضا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھٹو صاحب نے موجودہ قذافی سٹیدیم میں ایک جلسے کے دوران ان سربراہان کی موجودگی میں بنگلہ دیش بھی تسلیم کرا لیا جس کے بارے میں گزشتہ چار برسوں سے نامنظور کی تحریک چل رہی تھی اور کسی صورت اسے پاکستان سے علیحدہ ملک ماننے کو قوم تیار نہیں تھی۔ان تمام معزز مہمانان کے احترام میں قوم نے یہ کڑوا گھونٹ بھر لیا ویسے بھی بنگلہ دیش ایک حقیقت بن چکا تھا۔ اس موقع پر بہت اہم فیصلے ہوئے جس سے پاکستان کو طویل مدت تک بہت فائدہ پہنچا جس میں ہنر مندوں کی اسلامی ممالک میں کھپت سے ہمارے ہاں ایک معاشی تبدیلی نچلی سطح پر رونما ہوئی۔لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے مواقع ان ممالک میں پیدا ہوئے جس سے ہم نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔اس سارے انتظام کے نتیجے میں ہمارے ہاں ان ممالک خصوصاً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور لیبیا کے حکمرانوں کے حوالے سے ایک بہترین محبت کا جذبہ پیدا ہوا جو شاید کبھی ختم نہیں ہو گا، اگرچہ اس جذبے کے محرک اس دار فانی سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن ان کی ستر کی دہائی میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعدہر طرح سے بھر پور مدد کو ہم کبھی نہیں بھول پائیں گے۔خصوصاً سعودی بادشاہ شاہ فیصل بن عبد العزیز کی مسحور کن شخصیت اور انکی پاکستان سے محبت ایک لوک داستان سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک آپکو ہمارے ہاں اکثر گھروں میں ، ٹرکوں کے پیچھے انکی تصویر نظر آئے گی۔انکی محبت کی وجہ سے لائلپور کو فیصل آباد کا نام دیا گیا۔ اس دور میں پیدا ہونے والے بچوں کے نام زیادہ تر انہی کے نام پر رکھے گئے۔ پاکستان سے محبت کے ساتھ ساتھ وہ اسلامی امّہ اور سعودی عرب کے لئے ایک خاص فکر کے حامل تھے۔ زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اپنے ہی ایک خاندان کے فرد کے ہاتھوں شہید ہوئے ورنہ سعودی عرب اس وقت ایک جدید ملک اوردنیا کی ایک بہت بڑی معاشی طاقت ہوتا ۔ انکی شہادت کے بعد مسلم امّہ جس ابتلاء کا شکار ہوئی اس نے بہت سے جرّی مسلم حکمرانوں کو بے بس کر دیا اور 1974 ء میں جس خاکے کو تشکیل دیا گیا تھا وہ مکمل نہ ہو پایا۔ عرصہ دراز کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی شکل میں سعودی عرب میں ایک نیا وژن نظر آ رہا ہے، جو سعودی عرب کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کرنے کے نہ صرف درپے ہیں بلکہ صرف تیل کی دولت پر انحصار نہیں کرنا چاہتے۔ وہ دنیا کے ساتھ تعلق کو مذہبی اور تجارتی روابط سے آگے لے جانے کے خواہاں ہیں۔اپنے کاروبار کو ہمہ جہت کرنے کے خواہشمند ہیں جس کے لئے وہ دنیا بھر کو اپنے ہاں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے دعوت دے رہے ہیں اور خود بھی دنیا بھر میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ انکا حالیہ دورہء پاکستان اگرچہ اس سلسلے کی کڑی ہے لیکن پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی نوعیت بہت مختلف اور جذباتی نوعیت کی ہے۔ ہم انکو سعودی عرب کا حکمران ہی نہیں سمجھتے بلکہ خادم حرمین شریفین کے طور پرانکا مقام کسی بھی حکمران سے بلند تر پاتے ہیں۔یہ جذبہ یکطرفہ نہیں ہے، سعودی حکمران بھی پاکستان کو صرف ایک برادر اسلامی ممالک کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک ایسے قابل اعتماد بھائی کی طرح دیکھتا ہے جو ہر مشکل میں اس سے پہلے اپنا سینہ آگے کرنے کو تیار ہے۔اسی طرح سے اب پاکستان کی معاشی مشکلات کے حل میں سعودی عرب بھی ایک قابل اعتماد دوست کی طرح مدد کر رہا ہے۔ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز کے دورے میں جو بھی طے پائے گا وہ پاکستان کی معاشی مشکلات کے خاتمے میں تو اہم کردار ادا کرے گا ہی لیکن ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان محبت اور اخوت کا جو رشتہ موجود رہاہے اسکو مزید مضبوط بنائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان سے ایک درخواست ہے کہ وہ چین میں کرپشن کے خلاف اقدامات کا بہت حوالہ دیتے ہیں، اس بارے میں اگر وہ ولی عہد سے بھی مشورہ کریں تو شاید بہتر حل مل جائے۔ کیونکہ شہزادہ محمد بن سلمان بن عبد العزیز نے سعودی معاشرے سے کرپشن کے ناسور کو چشم زدن مین ختم کیا ہے اور قومی خزانے میں اربوں ڈالر کا اضافہ بھی کیا ہے۔اسکے ساتھ ساتھ وژن 2030ء کے تحت معیشت اور سرحدوں کو محفوظ بنانے کی جو بنیاد رکھی ہے وہ انکی مستقبل بینی کی دلیل ہے۔