روسی ناولوں کے ابتدائی الفاظ کی طرح :یہ ایک خوشگوار دوپہر تھی۔ رقم الحروف پی آئی اے کے جس طیارے پر سوار ہو رہا تھا اس کی ہر سیڑھی ابن انشاء کے یہ الفاظ دہرا رہی تھی ’’چلتے ہو تو چین کو چلیے‘‘گو اس طیارے کی منزل بیجنگ کا وہ ایئرپورٹ تھا جس کا طویل منظر آنکھیں تھکا دیتا ہے ۔ مگر اس مسافر کو معلوم تھا کہ وہ چین نہیں بلکہ اس وادی کی طرف جا رہا ہے جو چین کا حصہ تو ہے مگر چین کے ساتھ ساتھ اس کی الگ پہچان ہے۔ سر سبز اور بلند بالا پہاڑوں کی وہ سرزمیں جس کو دنیا کا تیسرا پول بھی کہا جاتا ہے۔ وہ وادی جس کے لیے پہاڑ پردہ ہیں۔ اس پردے کے پیچھے وہ اپنا تاریخی اور ثقافتی حسن بدنظروں سے بچا کر رکھتی ہے۔ وہ وادی جہاں ابتدائی انسانی تہذیب نے اپنے قدم بلندی کی طرف اٹھائے۔ وہ وادی جہاں گوتم بدھ نے نیپال سے نکل کر کئی ماہ تک قیام کیا۔ جہاں اس نے مشکل سوالات کے آسان اور آسان سوالات کے مشکل جوابات بھی دیے۔ یہ مسافر تو ساؤتھ ایسٹ ممالک کی اس کانفرنس میں جا رہا تھا جس میں بھوٹان؛ مالدیپ اور نیپال کے وفود شرکت کر رہے تھے مگر سچ بات یہ ہے کہ مجھے مذکورہ کانفرنس سے زیادہ اشتیاق ان لوگوں کو دیکھنے اور ملنے کا تھا جن کے تن بدن پر آج بھی سرخ رنگ کا لباس لٹکتا ہے۔ حالانکہ دنیا میں سرخ رنگ کی سیاست شکست کھا چکی ہے۔ چین میں بھی اگر سرخ پرچم لہرائے جاتے ہیںتو یہ محض ون پارٹی رول کا علامتی اظہار ہے۔ مگر ان لوگوں کے لباس کے پیچھے سیاسی مقاصد نہیں ہیں۔ وہ لوگ صدیوں سے اس رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں جس رنگ کا راستہ ان کو ’’نروان‘‘ کی منزل تک لے جاتا ہے۔ وقت گزر جاتا ہے اور اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ جاتا ہے اور ہم ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ میں آج تک اور ابھی تک اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہوں کہ تبت کی تاریخ میں جو کچھ بھی ہوا وہ ہونا چاہیے تھا کہ نہیں؟ اس وقت مجھے اس کتاب کا نام یاد نہیں آ رہا جس کے مصنف نے تفصیل کے ساتھ لکھا تھا کہ چین کے کمیونسٹ انقلاب کی آخری مزاحمتی قوت ان بدھ بھکشوؤں کی تھی جنہوں نے ماؤزے تنگ کی سرخ فوج کے پیروں میں اپنے عقائد رکھ دینے سے انکار کیا تھا۔ وہ بھکشو جنہوں نے ماؤ کی سرخ فوج سے بچنے کے لیے بدھ مت کے مندروںمیں پناہ لی تھی اور ان کا عقیدہ تھا کہ کمیونسٹ فوجیوں کی گولیاں ان کے مندروں کی دیواروں؛ دروں اور کھڑکیوں کو چیر کرکے ان تک نہ پہنچ پائیں گی ۔ اس صورتحال میں بدھ مت کے پیروکاروں کے عقیدے کو کمزور کرنے کے لیے سرخ فوج نے گوتم بدھ کے تانبے کے مجسمے پگھلا کر ان سے گولیاں بنائی تھی اور ان میں بارود بھر کر ان سے پوچھا تھا کہ ’’اب تو یہ گولیاں مندر میں داخل ہوسکتی ہیں؟‘‘ بدھ مت میں سیاسی مزاحمت کا کوئی اشارہ نہیں۔ مذکورہ مذہب کی بنیادی کتاب ’’دھما پادھا‘‘ کی کوئی کہانی ایسی نہیں جس میں یہ بیان ہو کہ نجات کا سفر اجتماعی بھی ہوسکتا ہے۔ بدھ مت کا بنیادی عقیدہ ہے کہ نجات کا سفر انفرادی ہے۔ ہر انسان کو یہ سفر تنہا طے کرنا ہے۔ یہی سبب تھا کہ گوتم بدھ نے اپنے خوبصورت محل میں اپنی حسین اور جون بیوی یوشدھا کو سوتے ہوئے چھوڑا اور سچ کی تلاش میں جنگل کی طرف نکل گیا۔ کہتے ہیں کہ بیس برس کے بعد جب گوتم بدھ نروان حاصل کرنے کے بعد بدھ مت کی تبلیغ کرتے ہوئے کپل وستو کی ریاست سے گزر رہا تھا اس وقت اس کی بیوی یشودھا اس کے بیٹے راہل کو اپنے ساتھ لیکر گوتم سے ملنے کے لیے عام لوگوں کی بھیڑ میں بیٹھ گئی۔ جب سوالات کرنے والوں میں یشودھا کی باری آئی تب اس نے گوتم سے مخاطب ہوتے ہوئے تین سوالات کیے تھے۔ اس نے گوتم سے پہلا سوال یہ پوچھا تھا کہ ’’جس سچائی کی تلاش میں تم ہمیں چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل گئے کیا وہ سچائی محل میں ممکن نہ تھی؟‘‘ گوتم تو کہتا تھا کہ سچ ہر جگہ پر ہے۔ اس لیے اس کے لیے اس سوال کا جواب دینا ممکن نہ تھا۔ وہ خاموش رہا۔ یشودھا نے دوسرا سوال یہ کیا کہ ہم شتری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب تم لوگ جنگ پر جاتے ہو تو ہم تمہارے ہاتھوں میں تلوار لاکر دیتے ہیں۔ جب جنگ پر ہم تم کو جانے سے نہیں روکتیں تو پھر جنگل میں جانے سے میں تمہیں کیوں روکتی؟ پھر تم مجھے بتائے بغیر چھپ کر جنگل کی طرف کیوں نکل گئے؟ یشودھا کی اس بات کا بھی گوتم کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یشودھا اسے نہیں روکتی مگر وہ خود مجبور تھا۔ اس کو یشودھا سے بے حد محبت تھی۔ وہ یشودھا کی آنکھوں کو دیکھ کر نہیں جا پاتا۔ اس لیے وہ بغیر بتائے چلا گیا۔ یشودھا نے گوتم سے تیسرا سوال یہ کیا کہ ’’یہ راہل ہے۔ ہمارا بیٹا۔ تمہارے جانے کے بعد میں نے اس کی ہر پل پرورش کی ہے۔ مگر یہ صرف میرا بیٹا نہیں۔ یہ تمہارا بیٹا بھی ہے۔ میں نے اس کو اپنی پوری زندگی دی ہے۔ تمہارے پاس اس کو دینے کے لیے کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر گوتم مسکرایا اور راہل کو اپنے پاس بلایا ۔ اس نے راہل کی جھولی میں وہ کشکول رکھ دیا جس میں خیرات مانگ کر ہر بدھ بھکشو زندگی کا سفر طے کرتا ہے۔ کیا زندگی سفر مسلسل ہے؟ کیا نجات ممکن ہے؟ کیا انسان خواہشات کے قید سے آزاد ہوسکتا ہے؟ کیا زندگی کنول کا پھول بن سکتی ہے؟ کیا انسان اپنے آپ کو شکست دے سکتا ہے؟ کیا وہ اپنے آپ پر فتح حاصل کرسکتا ہے؟ ایسے سوالات اس مسافر کے ذہن میں سلگ رہے تھے جو تبت کی طرف سفر کرتے ہوئے اسلام آباد کے قریب ٹکسیلا میں موجود بدھ مت کے تہذیبی خزانے کے وہ آثار یاد کر رہا تھا جس کو ہماری کسی حکومت نے سیاحت کا مرکز بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ گوتم نے تو پورے ایشیا پر اپنے اثرات ڈالے۔ ایک وقت تھا جب بھارت میں ہندودھرم سے زیادہ بدھ مت کا زور تھا۔ پھر کیا ہوا؟ بدھ بھارت سے کس طرح صاف ہوئے؟ تاریخ کی تلوار سے ابھی تک لہو ٹپک رہا ہے۔ اگر بدھ مت میں سیاسی نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے توپھر دلائی لاما نے بھارت میں پناہ کیوں لی ہے؟ اور بھارت نے اس کی ہر طرح سے مدد کیوں کی ہے؟ اگر بھارت کو بدھ مت کا اتنا ہی خیال ہے تو پھر نیپال اور سری لنکا کے بدھ مت پیروکاروں سے ان کے اتنے تلخ تعلقات کیوں ہیں؟ ان سوالات کے جوابات صرف سیاست کی سیاہ کتاب میں موجود ہوسکتے ہیں۔ جب مذہب کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تب بدھ مت کے لاما بھی نام نہاد جلاوطن حکومت کا اعلان کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ بھارت میں پناہ لینے والے دلائی لاما کا قد بڑھنے کے بجائے کم ہوا ہے۔ کیوں کہ چین نے مسلسل ترقی کی ہے۔ چین اور بھارت کے درمیاں سرحدی تنازعہ ابھی تک جوں کا توں قائم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین معاشی مفادات کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے مگر وہ اپنی سرحدوں کو معاشی مفاد پر قربان نہیں کرسکتا۔ بھارت ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ وہ چین کے بہت قریب بھی ہے۔ اس وقت بھی بھارتی مندروں میں پوجے جانے والے بت چین سے تیار ہوکر بھارتی بازاروں میں فروخت ہوتے ہیں۔ مگر چین پھر بھی اپنے اصولوں پر قائم ہے۔چین قومی آزادی کا مارکسی تصور ماننے کے باوجود بھی تبت سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ وہ تبت جہاں ہم بیجنگ سے ساڑھے چار گھنٹے کا سفر کرکے اس لاسا کے ایئرپورٹ پر پہنچے جو تبت کا دارالحکومت ہے۔ وہ ایئرپورٹ جوایک بہت بڑے پہاڑی پیالے جیسا تھا۔ اس ائیرپورٹ اور اس کوتحفظ فراہم کرنے والے بلند پہاڑوں پر نظر ڈال کر راقم الحروف کو چترال یاد آگیا۔ وہ شہر نہ صرف اپنے منظر بلکہ اپنی مہک میں بھی چترال جیسا تھا۔ اس وقت مجھے اس بات کا بھرپور احساس ہوا کہ اگر ہم سیاحت کو فروع دیں تو پاکستان ایشیا کا پرکشش ملک بن سکتا ہے۔ لاسا نامی خوبصورت اور بلند شہر میں مجھے اپنے ملک کے نئے وزیر اعظم عمران خان کی یاد آئی اور میں نے سوچا کہ کیا اس کے یہ خواب حقیقت میں تبدیل ہونگے؟ کیا چترال کو یہ حق حاصل ہوگا کہ ایشیا کی سیاحت کا مشہور مقام بن سکے۔ اس وقت میرے سامنے تبت کے وہ لوگ کھڑے تھے۔ وہ لوگ جن کے قد عام چینیوں سے قدرے بلند تھے اوران کے تن پر مخصوص رنگ کا لباس لہرا رہا تھا مگر مجھے یاد آ رہا تھا چترال کا دریا جو ہوٹل کے قریب ایک قدیم گیت گاتے ہوئے بہتا ہے۔ چترال کی یادوں کو سانسوں میں سمو کر میں لاسا ایئرپورٹ سے باہر آیا۔(جاری)