یہ تیسری عالمی جنگ تھی جو افغانستان میں لڑی گئی، اس کالم کو ’’تیسری عالمی جنگ ‘‘کا عنوان دینے سے پہلے حاجی اسلم صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے حیرت کے ساتھ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا توان سے عرض کیا کہ کیا ساری کی ساری دنیااس جنگ میں شریک نہیں تھی؟ یہ پہلی جنگ ہے جس میں ’’اقوام متحدہ‘‘ سمیت ہر ملک نے کسی نہ کسی طرح شرکت کی۔ اقوام متحدہ جو قوموں کو جنگوں سے باز رہنے کے لیے بنایا گیا وہ بھی ایک فریق کی طرح اس جنگ میں شریک ہوگیا۔ ماضی کی عالمی جنگوں کی حریف،محوری اور اتحادی ممالک ایک جھنڈے تلے شریکِ پیکار ہوئے،یہ جنگ یورپ کے میدانوں کی بجائے افغانستان کے پہاڑوں میں لڑی گئی۔یہ حیرت انگیز طور پر غیر متوازن معرکہ تھا جس میں ایک طرف ساری دنیا،اس کا اسلحہ اور افواج۔دوسری طرف چند سرپھرے افغان طالبان، جن کی تعداد کبھی ستر ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ پہلی جنگ عظیم 1914ء سے 1918ء تک اور دوسری 1939ء سے 1945ء تک دونوں عالمی جنگوں کا دورانیہ 10برس تھا جبکہ تیسری عالمی جنگ 20سال تک لڑی گئی اور یہ حیران کن طور پر ستر ہزاربے سروسامان طالبان سرفروشوں نے جیت لی۔ کسی کو راحت پہنچے یا رنج،سچ یہ ہے کہ طالبان افغانستان کے دارالحکومت (جسے آئندہ ’’دارالخلافہ ‘‘کہہ کر پکارا جائیگا)میں 15 اگست کو فاتحانہ داخل ہوئے،اس سے پہلے ہی وہ افغانستان کے طول وعرض اور اہم سرحدی راستوں پر قبضہ کرچکے تھے،اب وہ تن تنہا پورے افغانستان کے بلاشرکت غیرے قابض، فاتح اور حکمران ہیں،یہ ان کی مرضی اور صوابدید پر ہے کہ کسی گروہ کو اپنے ساتھ شریک اقتدار کریں یا نہ کریں۔آج ان پر کوئی خوف ہے نہ دباؤ۔ وہ اللہ کے بھروسے اور اپنی قوت بازو سے پوری دنیا کی تمام طاقتور اور طاغوتی قوتوں کو اپنے پاؤں تلے روند کے یہاں تک آئے ہیں، تکبر سے تنی گردنیں اور نخوت سے اٹھی نگاہیں ان کے قدموں میں ۔ دشمنوں کیلئے ڈراؤنا خواب اور دوستوں کیلئے پیغامِ مسرت۔ ایک چھوٹے سے بے سرو سامان گروہ نے اپنی ثابت قدمی اور نصرتِ الٰہی سے یہ مکمل فتح حاصل کی: اللہ کو پامردیٔ مؤمن پہ بھروسہ ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی اقبال کا فرمایا سچ ثابت ہوا اور اس کے نقّاد منہ چھپائے پھرتے ہیں،سب نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ ممولا،شہبازوں کے پورے لشکر سے بھڑ گیا اور وہ پیٹھ پھیر کے بھاگ نکلے۔ ’’مرزا اسلم بیگ نے کہا،2003ء میں امریکا نے جب افغانستان پر قبضہ کرلیا تھا،ہم بھی ان کی فوج میں شامل تھے تو ملا عمر کے لوگ میرے پاس آئے، جلال الدین حقانی آئے ہوئے تھے،میں نے ان سے کہا کہ دیکھو! تمہاری ایک نسل تباہ ہوگئی ہے روسیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے،دوسری نسل تباہ ہوئی ہے آپس میں لڑتے ہوئے۔ تم تیسری جنگ کی تیاری کررہے ہو۔تو کیامجاہدین سے ملکر دوبارہ جنگ کروگے؟میں نے کہا ملا عمر کو میرا پیغام دیں کہ ایک یہ بھی راستہ ہے کہ اب امریکی ایجنڈے پر عمل کریں۔ جب جمہوریت ہوگی تو حکومت بھی آپ کی ہوگی کیونکہ آپ اکثریت میں ہونگے اور مستقبل کے فیصلے آپ خود کرینگے۔تو انہوں نے میرا کوئی جواب نہیں دیا۔ تین مہینوں کے بعد ملا عمر کا جواب آتا ہے ،ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم متحد ہوکر حملہ آوروں کے خلاف جنگ کریںگے اور انشاء اللہ، جیتیں گے اس لیے اللہ کا حکم ہے تمہارے دشمن کتنے ہی زیادہ اور طاقتور ہوں تم ہی جیتو گے اگر تم ثابت قدم رہے تو دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔یہ بات ملا عمر نے کہلوائی تھی۔ ہم لڑیں گے اور ان شاء اللہ،ہم جیتیں گے،ہمارا دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے گا۔ ہمیں ہماری قومی غیر ت اور ہماری قدریں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ دشمن جو ہمارے ملک میں بیٹھا ہوا ہے اس کے ہوتے ہوئے اس کے حکم پر عمل کریں، ہم یہ کام کبھی نہیں کریں گے ،جب تک اس کا ایک ایک بندہ ہماری سرزمین سے نکل نہیں جاتا ۔ تیسری بات، ہمیں دکھ ہے کہ پاکستان ہمارے دشمنوں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ کررہا ہے لیکن اس کے باوجود ہم پاکستان کو اپنا دشمن نہیں سمجھتے ، وہ ہمارا دوست ہے اور دوست رہیگا، اس لیے کہ اس کی اور ہماری سلامتی کے تقاضے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں ، ہم ایک دوسرے سے الگ ہوکر نہیں رہیں گے۔ یہ ملا عمر کا جواب تھا۔ اور آپ نے دیکھا کہ اس کا ایک ایک لفظ صحیح ہوا ہے، امریکا ہار گیا ہے ۔ پاکستان کے لیے ابتدا میں خطرہ اس قدر بڑا ،تیز رفتار اور اچانک تھا کہ اسکے خلاف کچھ کرنے کیلئے سوچنے کی مہلت نہیں تھی، جہاں امریکہ کی یہ بات درست نہیں ہے کہ اس کی شکست کا واحد ذمہ دار پاکستان ہے ، وہیں پاکستان کے بدخواہوں کی ہرزہ سرائی بھی اتنی ہی غلط ہے کہ پاکستان نے طالبان کیلئے کچھ نہیں کیا۔پاکستان کو طالبان کی مدد بڑی ہوشیاری سے چھپ چھپا کر ہی کرنا تھی، اس کیلئے بیدار مغزی ، ہوشیاری اور غور وفکر کی ضرورت تھی، امریکہ کے مقابلے میں پاکستان کی معلومات ، اندازے اور نتائج زیادہ درست اور حقیقت پسندانہ تھے جبکہ امریکا طاقت کے زعم میں محض چھاتی کے زور پر کامیابی حاصل کرنے کا تمنا ئی تھا، وہ ہاتھی کی طرح جسیم اور طاقتور تھا لیکن چیتے کی پھرتی اور تیز رفتاری سے محروم۔ امریکہ نے کچھ نہیں سیکھا ، آپ یقین کرلیں کہ وہ ڈوبتے ہوئے یا دلدل میں دھنستے انسان کی طرح جو موت کو قریب پاکر جتنی جدوجہد ،کوشش کرتا ہے اور ہاتھ پاؤں مارتا ہے اسی قدر موت کے قریب چلاجاتا ہے، وہ اپنی موت کو اور قریب لے آتا ہے۔ امریکہ کے سب ادارے اتنے جسیم ،سست الوجود اور غبی ہیں کہ وہ فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں، وہ درست اور غلط مشورے میں تمیز تک نہیں کرسکتے ، وہ اپنے قریب کے لوگوں کے غلط اندازوں اور غیر مصدقہ اطلاعات کو دوسروں کے صحیح معلومات کے مقابلے میں قبول کرلیتے ہیں۔ سچ پوچھے تو صحیح معنوںمیں یہ ’’تیسری عالمی جنگ ‘‘ (World war three)تھی جس میں پوری دنیا کا ہر ملک شریک ہوا ، کوئی ایک بھی غیر جانبدار نہ رہا، اس جنگ کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس میں شریک سارے حلیف اپنے اپنے خفیہ مقاصد کیلئے شریک پیکار تھے، امریکہ سمیت ہر کوئی ’’ڈبل گیم‘‘ کررہا تھا، حملہ آور جنگ کا جو مقصد بیان کررہے تھے وہ محض دکھاوا تھا اور در حقیقت جو مقاصد ان کے پیش نظر تھے وہ کبھی زبان پر نہیں آئے ، لیکن ان کہے مقاصد کو ہر کوئی سمجھ رہا تھا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے امریکہ نے پاکستان سے جو مانگا وہ اسے دیا گیا لیکن اسکے جواب میں امریکہ نے جو وعدے کیے وہ سراب تھے جو پاکستان پر جلد ہی کھل گیا ، امریکہ ہمارے دشمن بھارت کو اپنے ساتھ لیے افغانستان میں داخل ہوا اور اسے فوراً ہی پاکستان کے خلاف متحرک کردیا گیا، پاکستان نے خطرہ بھانپتے ہوئے اپنے دفاع کیلئے جو کرسکتا تھا وہی کیا ،پاکستان نے طالبان کی طرح کامیابی سے اپنا دفاع کیا،آج طالبان کا دشمن امریکہ اور پاکستان کا دشمن بھارت دونوں افغان سرزمین میں شکست کے بعد زخم چاٹ رہے ہیں۔ اس جنگ میں امریکہ کے مقاصد کیا تھے؟ بھارت کیا چاہتا تھا؟ طالبان نے کیسے فتح حاصل کی ؟ پاکستان کا کردار کیا رہا؟ اس جنگ کی وجوہات اور نتائج پر آئندہ برسوں میں ہزاروں صفحات کالے اور سینکڑوں کتابیں لکھی جائیں گی۔ پھر بھی شاید اس کا احاطہ نہ ہوسکے ، لیکن مختصر لفظوں میں کچھ تبصرہ آئندہ نشستوں پر اٹھا رکھتے ہیں۔