ڈرائیونگ کی اجازت سعودی خواتین کا پرانا خواب تھا۔ کئی دہائیوں سے سعودی فرمانروا اصولی طور پر اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا فیصلہ کر تو چکے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے مگر سعودی عرب کے روایتی بدوی معاشرے اور مذہبی طبقے کے اثرو رسوخ کو دیکھ کر یہ اصولی اتفاق نفاذ کی منزل پر نہ پہنچ سکا۔ ایک برس پہلے جب پرنس محمد بن سلمان سعودی عرب کے ولی عہد نامزد ہوئے تو وہ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ اپنے ملک کو ماڈرن‘ معتدل اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ انہوں نے سب سے پہلے سعودی خواتین کے پرانے خواب کو عملاً نافذ کرنے کا فیصلہ کیا جس کا سعودی سوسائٹی بالخصوص خواتین نے پرجوش خیر مقدم کیا۔ پرنس محمد بن سلمان نے جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے وژن 2030ء کا بھی اعلان کر دیا اور یہ خوش خبری بھی سعودی خواتین کو سنائی کہ اب سوسائٹی میں ان کا وسیع تر کردار ہو گا۔ 2012ء میں ثمر بداوی کو امریکہ میں امریکی خاتون اوِل مشل اوباما اور امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے Woman of courage awardدیا۔ اس موقع پر ہلیری کلنٹن نے 31سالہ ثمر بداوی کے لیے کلمات تحسین ادا کرتے ہوئے کہا۔ ثمر!تم اپنے ملک میں عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہو‘ ہمیں معلوم ہے کہ تم اپنی آزادانہ مرضی سے شادی کرنے‘ اپنی مرضی کی ملازمت کرنے اپنی مرضی سے بیرون ملک سفر کرنے کا حق چاہتی ہو۔ اس مقصد کے لیے تم اپنی عدالتوں کے دروازے بھی کھٹکھٹا رہی ہو۔ تم ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہو۔ ہم تمہاری جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس موقع پر اس وقت کی امریکی خاتون اول مشل اوباما نے بھی ثمر بداوی کی جدوجہد کو سراہا۔ ایوارڈ وصول کرنے کے موقع پر ثمر بداوی ایک باوقار حجاب اور عبایااوڑھے ہوئے تھیں۔ وومن آف کریج ایوارڈ ملنے پر اس وقت سعودی عرب نے کوئی احتجاج نہیں کیا تھا۔ ثمر بداوی 1981ء میں پیدا ہوئیں وہ خواتین کے لیے صرف ڈرائیونگ نہیں بلکہ ان کے لیے مرد ولی امر کی نگرانی یا سرپرستی نظام کو بھی بدلنا چاہتی تھیں۔ مرد سرپرست کی اجازت کے بغیر کوئی سعودی خاتون کوئی کام نہیں کر سکتی۔ غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں والد یا کسی دوسرے ولی امر کی مرضی کے بغیر وہ شادی نہیں کر سکتی۔ اس سعودی قانون کے تحت عورت چاہے کس عمر کی بھی کیوں نہ ہو اسے مرد ولی امر سے اجازت لیناہوتی ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو وہ قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہے۔ ثمر بداوی نے اپنے ہی والد کے خلاف سعودی عدالت میں مقدمہ دائر کر رکھا تھا کہ اس کے والد نے پندرہ برس تک اسے بدسلوکی کا نشانہ بنایا اور اسے مرضی کی شادی کی اجازت نہ دی۔2010 ء میں سعودی عدالت نے ثمر بداوی کو قانون کی خلاف ورزی پر چھ ماہ کی قید سنائی اور انہیں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔(موجودہ قوانین کے مطابق خواتین بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں اور مجلس شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں) ثمر بداوی نے 2014ء میں اقوام متحدہ کی جنیوا میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت کی اور سعودی عرب کے علاوہ بحرین اور دیگر کئی عرب ممالک میں بھی بنیادی انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ جنیوا سے وہ واپس آئیں توانہیں پھر سعودی عرب سے باہر نہ جانے دیا گیا۔2016ء میں ثمر کو اپنی دو سالہ بچی سمیت گرفتار کر لیا گیا اور کچھ عرصے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔30جولائی کو انہیں پھر گرفتار کیا گیا تو کینیڈا نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس پر سعودی عرب نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور کینیڈین سفیر کو 24گھنٹے میں ریاض چھوڑنے کا حکم دے دیا اور کینیڈا سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ اس کے علاوہ پرنس محمد بن سلمان کے حکم پر سعودی عرب نے کینیڈا کے ساتھ تمام تجارتی و سرمایہ کاری کے معاہدے بھی روکنے کا حکم دے دیا۔ اس سے پہلے 1980ء میں ایک برطانوی کمپنی نے ایک امریکی فلم کمپنی کے ساتھ مل کر ڈیتھ آف اے پرنسس کے نام سے ایک ڈاکومنٹری فلم بنائی جو ایک سعودی شہزادی کے بارے میں تھی تو اس پر بھی سعودی عرب نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا اور پھر بہت عرصے تک سعودی عرب اور برطانیہ کے تعلقات کشیدہ رہے۔ ہمیں دو دہائیوں سے اوپر سعودی عرب میں مقیم رہنے،ریاض اور طائف کی سعودی وزارت تعلیم میں بحیثیت ٹیچر خدمات انجام دینے اور سعودی سوسائٹی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ تعلیم یافتہ سعودی لوگ بڑے ہی مہذب اور شائستہ لوگ ہیں۔ وہ احترام باہمی پر یقین رکھتے ہیں لوگوں کی اکثریت دینی شعائر کی پابند ہے۔ نوجوان تعلیم یافتہ سعودی بھی اپنی قبائلی روایات کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سعودی حکمران اپنے عوام کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔ اگرچہ اظہار اور اجتماع کی وہ آزادی تو نہیں جو جمہوری ملکوں میں ہوتی ہے مگر سعودی عرب میں ’’صحرائی جمہوریت‘‘ کا کلچر قائم تھا۔ اس کلچر کی بنا پر لوگوں کے دل کی بات حکمرانوں کے کانوں تک پہنچ جاتی تھی۔ یہ غالباً 1980ء کے اوائل کی بات ہوگی جب سعودی عرب میں ایک روزہ تعطیل کے بجائے سرکاری اداروں میں دو روزہ ہفتہ وار تعطیل کر دی گئی۔ یعنی جمعرات اور جمعہ ویک اینڈ قرار دیا گیا۔البتہ درمیان میں نماز ظہر اور کھانے کا وقفہ دے دیا گیا اور پھر بعد دوپہر ڈیوٹی کا دوسرا حصہ ہوتا تھا۔ سعودی عرب میں دن کا مرکزی کھانا دوپہر کا ہے یعنی تین بجے قریب یہ دہری ڈیوٹی سعودی عوام کے مزاج پر بہت گراں گزری۔ لہٰذا صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد ہی پرانا نظام نافذ کر دیا گیا۔ صبح ساڑھے سات بجے سے اڑھائی بجے ایک ہی ڈیوٹی والا، البتہ ویک اینڈ نئے نظام والا دو روزہ برقرار رکھا گیا۔ اس اقدام سے سعودی عوام بہت خوش ہوئے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ سعودی تعلیم یافتہ طبقے اور بالخصوص سعودی خواتین نے پرنس محمد بن سلمان کے اصلاحاتی پروگرام سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ یوں بھی دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ اب کوئی بھی بات خوشبو کی طرح دور تک پھیل جاتی ہے۔ ساری دنیا کا میڈیا اور سوشل میڈیا صرف آپ کے ایک سیل فون میں سمٹ آیا ہے۔ اگرچہ ممتاز تاریخ دان ٹائن بی اور کئی دوسرے مغربی فلاسفروں کا کہنا یہ ہے کہ مغربی تہذیب ایک ایسا کل ہے جسے اجزاء میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ان دانشوروں کا کہنا یہ ہے کہ اگر آپ ہماری تہذیب کا صرف ایک جزو مثلاً زبان لیں گے یا ٹیکنالوجی لیں گے تو اس کے ساتھ پوری تہذیب آئے گی ان مفکرین کی رائے میں مغربی تہذیب ایک فل پیکیج ہے جس میں تعلیم‘ ٹیکنالوجی‘ ثقافت اور بودوباش سب کچھ شامل ہے جبکہ اسلامی مفکرین نے بڑا واضح موقف اپنایا ہے۔ خذما صفا ودع ماکدر کہ اچھی چیز لے لو اور خراب چیز کو چھوڑ دو بعض عالمی تجزیہ کار سعودی عرب اور کینیڈا کے تنازع کو ایک اور زاویہ نگاہ سے بھی دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ امریکی صدر ٹرمپ اور کینیڈا کے وزیر اعظم کے مابین دونوں ملکوں کی آزاد تجارت کے حوالے سے کشیدگی پیدا ہو چکی ہے ان کے خیال میں سعودی عرب اور کینیڈا کے درمیان تعلقات کی خرابی میں بھی امریکی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ ان تجزیہ کاروں کی رائے میں اگر بات صرف انسانی حقوق کے تحفظ کی ہوتی تو پھر جب ثمر بداوی کو امریکہ میں اس دور کی خاتون اول مشل اوباما کے ہاتھوں ایوارڈ دیا گیا تو اس وقت سعودی عرب نے امریکی سفیر کو نکال دیا ہوتا۔ مگر ایسا نہیں ہوا میں یہ بتانا بھول گیا کہ 2014ء سے پہلے ثمر بداوی اور ولید ابوالخیر کی آپس میں شادی ہو گئی۔ ولید ایک سعودی وکیل ہیں انہوں نے ثمر بداوی کا مقدمہ بھی لڑا اور پھروہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے مگر یہ شادی تھوڑا ہی عرصہ برقرار رہی پھر ان دونوں کے درمیان طلاق ہو گئی۔ ولید ابوالخیر بھی انسانی حقوق کے علمبردار ہیں۔ ان پر سعودی عرب نے بڑے سخت قوانین کے تحت مقدمہ چلایا اور انہیں 2014ء میں قید اور دو لاکھ جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ ایک اعلیٰ عدالت میں ولید نے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ گزشتہ دنوں ثمر بداوی کے ساتھ منال الشریف‘ نسیمہ السعدہ اور کچھ اور خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا۔ جس پر کینیڈا نے انسانی حقوق کے حوالے سے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ سعودی حکومت اختلاف کرنے والوں کے ساتھ باہمی ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کی روایت رکھتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پرنس محمد بن سلمان اس معاملے کو خوش اسلوبی کے ساتھ کیسے نمٹاتے ہیں۔