11ہجری میں آقائے دو جہاںﷺ اس دنیا سے پردہ کرتے ہیں اور 61 ہجری میں آپکے نواسے حضرت امام حسین ؑ کی کربلا میں شہادت ہوجاتی ہے۔ شہادت بھی اس طرح کہ مسلمان ہی ان کے خون کے در پے ہو جاتے ہیں۔صرف پچاس سال میں ایسا کیا ہو گیا کہ ایسی نوبت آگئی۔ مورخ تاریخ تو لکھتا ہے مگر منزل بہ منزل اس سے کچھ نہ کچھ شائد منطقی طریقے سے رہ جاتا ہے یا شائد ایسے ہی طے تھا۔ آقاﷺ نے بی بی اْم سلمیٰ کو ایک شیشی میں مٹی دیتے ہوئے کہا کہ میں جب یہ مٹی سرخ ہو جائے تو جان لینا میرا حسینؑ شہید ہو گیا۔ ایک مکتبہ فکر ایسا ہے جو اس سے پاور پلے یعنی تاج و تخت کی جنگ بتاتا ہے۔شائد وہ نہیں دیکھتا کہ آقائے کائناتﷺ مولا حسنؑ اور حسینؑ سے کتنی محبت کرتے تھے۔ اقتدار کی غلام گردشوں کو سیکولر انداز سے دیکھیں تو عینک اور ہوتی ہے ،صوفیوں ،درویشوں اور عاشقوں کا انداز فکر بالکل اور ہے۔ زمان و مکان کی بصریتیں کچھ اور کہتی ہیں اور مادے کو سب کچھ سمجھنے والے اہل عقل کچھ اور۔صوفی برکت صاحب قطب دوراں تھے۔ ان سے کسی نے پوچھا آپ سنی ہیں ، شیعہ ہیں یا دیو بندی ؟آپ نے جو کہا وہ کوئی اہل فکر و نظر ہی کہہ سکتا ہے۔ فرمانے لگے" کربلا کے بعد دو ہی فرقے بچے ہیں ، ایک حسینی اور ایک یزیدی۔ میں حْسینی ہوں۔مولانا مودودی ایک جید مفسر اور عالم دین تھے۔ ان سے سوال کیا گیا "61 ہجری میں بیش تر صحابہ نے جب یزید کی بیعت کر لی تھی پھر امام حسینؑ نے کیوں نہ کی؟ مولانا نے فرمایا "آپ کا سوال الٹا ہے۔سوال یہ ہے کہ جب امام حسینؑ نے یزید کی بیعت نہیں کی تو باقیوں نے کیوں کر لی؟ عصر حاضر ایک ایسا عہد ہے جس میں ہر سوال کے ہزار جواب ہیں۔ ارشاد ہے کہ جب جوابوں کی بھر مار ہو جائے تو پھر درست جواب ناپید ہو جاتے ہیں۔مزید یہ کہ حق ، ناحق کے درمیان حد فاصل دھندلا جاتی ہے۔ شہادت امامؑ کو چودہ صدیاں بیت گئیں۔ایسے مسلمانوں کی کمی نہیں جواسے اقتدار کی جنگ قرار دیتے ہیں۔ وہ جو نواسہ رسول ؑ کا سر کاٹنے کے در پے تھے ،ان میں سے کوئی کہہ رہا تھا "جلدی کرو نماز کا وقت نکلا جا رہا ہے"۔ یہ ہے مسلمانوں کا تصور دین اور فہم تاریخ۔ یہ معاملہ تو تا ابد رہے گا کہ یہ معرکہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک چلے گا۔ حق کی پہچان باطل کو دیکھ کر ہوتی ہے کہ اندھیرا اور ظلمت ہی روشنی اور نور کا پتہ دیتے ہیں۔واصف صاحب کہا کرتے تھے کہ عمل کی غلطی معاف ہو جاتی ہے مگر نیت کی نہیں۔نیت کیا ہے؟ انداز نظر ،انداز فکریعنی وہ عینک اور شیشے جن سے ہم معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ماضی،حال اور مستقبل کو۔اسی بصیرت اور عینک کے ذریعے کئی کربلا کے معرکہ حق و باطل کو بنو ہاشم اور بنو امیہ کا پاور پلے قرار دیتے ہیں۔یہ سوچے بغیر کہ نبوت سے سرفراز بنو ہاشم ہوئی تھی۔ نبوت اور وہ نبی جس کے لئے ہر مسلمان ہر دم جان دینے کے لئے تیار ہو تا ہے۔ مگر اہل نظر، عشق والے ، صوفی اور درویش کربلا کو پاور پلے نہیں سمجھتے۔وہ آقا ﷺسے بھی عشق کرتے ہیں اور آقاﷺ کے اس فرمان سے بھی "حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں"۔ان کے مطابق اس فرمان میں کیا حکمت ہے ، کیا بھید ہے اور کیا اسرار؟وہ بقول میاں محمد صاحب کے خاصوں کی بات ہے ،عاموں کے لئے نہیں ہوتی۔ اس کی ایک جھلک واصف صاحب کے اس بیان میں ہے "بے کسی کی داستان بننے والے امام عالی مقامؑ بے کسوں کے لئے چارہ ساز ہیں۔جن لوگوں پر اللہ کا کرم ہوتا ہے ،ان کی آنکھیں تر رہتی ہیں۔مَقاماتِ صبر کو مَقاماتِ شکر بنانا خوش نصیبوں کا کام ہے"۔ حسینیت اور یزیدیت دو مکتبہ فکر ہیں۔ دلیل کی دنیا میں ،بحث کے میدان میں ،تاریخ کے بطن میں۔ دلیل اپنی اپنی ، عینک اور شیشے اپنے اپنے، انداز فکر ، انداز نظر بھی اپنا اپنا۔ راز کب عیاں ہو گا؟شائد حوض کوثر پر یا پھر اس حدیث کی رو سے حسنؑ اور حسینؑ جوانان جنت کے سردار ہیں۔بات خیال کی بھی ہے، عمل کی بھی اور سِمت عمل کی بھی۔نہ ماننے والوں پر کوئی شکوہ نہیں،کوئی تاسف نہیں۔مگر مقام افسوس ان مسلمانوں پر ہے جو دم تو آقاؑ کے دین کا بھرتے ہیں۔اسی دین کا جس سے متعارف آقائے دوجہاںﷺ نے کر وایا۔ مگر فکر اور دلیل آقا کے قول کے بر عکس دے رہے ہیں۔دعا بھی آقا کے واسطے سے مانگ رہے ہیں۔ مرضی ہے تیری فکر میں ترمیم کر نہ کر سلطانِ عقل و عشق کو تسلیم کر نہ کر بچپن میں دیکھ لے ذرا دوشِ رسول پر پھر تو میرے حسینؑ کی تعظیم کر نہ کر عصر کی تشنہ لبی یاد آئی وقت کی بو العجبی یاد آئی ابر برسا جو کہیں پر محسن مجھ کو اولاد ِ نبیﷺ یاد آئی ٭٭٭٭٭ اپنے اپنے زاوئیے سے ،اپنے اپنے ڈھنگ سے ایک عالم لکھ رہا ہے ،داستان کربلا ٭٭٭٭٭ کہاں کی جنگ ، کہاں جا کے سر ہوئی ہے کہ اب تمام عالم خیر و خبر حسینؑ کا ہے ٭٭٭٭٭ وہ امت جو اپنی سِمت کھو د ے ، اپنے نبیﷺ کے نواسے کو خون میں نہلا دے۔ کئی موڑ ، تاریخ کے کئی موڑ،پے در پے غلط مڑ جائے۔وہ در بدر ہو جاتی ہے۔ وقت اور مقام اسے راستہ نہیں دیتے۔ مسلمانوں کو زوال یورپ کے صنعتی انقلا ب سے نہیں ،سائنس کے عرو ج سے بھی نہیں صرف اس لئے آیا کہ وہ اس سمت کو کھو بیٹھے جس میں اللہ اور اس کا محبوبﷺ راضی تھے۔ آئیے سوچیں کہ ٹوٹا ہے کہاں پیڑ ،کہاں شاخ جلی ہے۔