معزز قارئین!۔ کل ( 15 جمادی اُلاوّل ، 22 جنوری کو )پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے سیّد اُلساجدین ، امام زین اُلعابدین ؑ کا یوم ولادت عقیدت و احترام سے منایاتو، مجھے اپنے جدّی پشتی پیر و مرشد خواجہ غریب نواز ، نائب رسول ؐ فی الہند حضرت مُعین اُلدّین چشتی اجمیریؒ یاد آئے، جن کے دست ِ مبارک پر میرے آبائو اجداد نے اِسلام قبول کِیا تھا۔ جب مَیں نے ہوش سنبھالا تو مجھے میرے گھر سے خواجہ غریب نواز کے حوالے سے آئمۂ اطہار سے محبت اور عقیدت کا سبق ملا۔ مَیں دسویں جماعت کا طالبعلم تھا جب ، میرے والد صاحب ’’ تحریک پاکستان‘‘ کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان مجھے میلاد شریف کی مجلسوں میں لے جایا کرتے تھے ۔ 1956 ء میں مَیں نے میٹرک پاس کِیااور اردو زبان میں پہلی نعت لکھی جو، لائل پور ( اب فیصل آباد) کے روزنامہ ’’ ڈیلی بزنس رپورٹ‘‘ میں شائع ہُوئی۔ 1961ء میں گریجویشن کی تو مجھے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے یہ اشعار پڑھنے اور سمجھنے کا موقع مِلا کہ … ’’ شاہ ہست حُسینؑ، پادشاہ ہست حُسین ؑ! دِیں ہست حُسینؑ ، دِیں پناہ ہست حُسین ؑ! سَرداد ، نَداد دست ، در دستِ یزید! حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہست حُسین ؑ! یعنی۔’’ ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسین ؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسین ؑ ہی ہیں (آپؑ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘ ۔ 1981ء کے اوائل میں خواجہ غریب نوازؒ خواب میں ، لاہور میں میرے گھر رونق افروز ہُوئے ۔اُنہوں نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا ۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کر اُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو وہ مُسکراتے ہُوئے غائب ہوگئے۔ آنکھ کُھلی تو مَیں نے اشارے سے اپنی اہلیہ مرحومہ (نجمہ اثر چوہان) کو جگایا اور اُنہیں بتایا ۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے بیڈ روم میں تو خُوشبو پھیلی ہوئی ہے! ‘‘۔ ستمبر 1983ء میں مَیں نے خواب دیکھا کہ ’’ مَیں نے خُشک دریا میں قدم رکھا تو، وہ دلدل تھی۔ مَیں گھبرا گیا ۔پھر اچانک میرے مُنہ سے از خُود ’’یا علی ؑ ‘‘ کا نعرہ بلند ہُوا اور مجھے محسوس ہُوا کہ کسی نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر چھوڑ دِیا اور پھر میرے کانوں میں آواز آئی کہ ’’ تُم پر مولا مشکل کُشا حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا سایۂ شفقت ہے ‘‘ ۔ اُنہی دِنوں مَیں نے مولا علی ؑ کی منقبت لکھی ۔ مطلع اور ایک بند یوں ہے… نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی ؑ مولا! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! …O… واہ! نہج اُلبلاغہ ، دِیاں ،لُوآں! سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں ،خوشبواں! پُھلّ پُھلّ مولاؑ ، کلی کلی مولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی مولاؑ! معزز قارئین!۔ ستمبر 1991ء میں مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ (شاید گنہگاروں کے کوٹے میں ) خانۂ کعبہ کے اندر داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی ۔ ایک دِن میرے دو لہوری دوست ۔ سیّد یوسف جعفری اور سیّد شاہد رشید میرے گھر پر تھے ۔ جعفری صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ۔ ’’ برادرم اثر چوہان !۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ’’ سانحہ ٔ کربلا میں حضرت امام حسین ؑ کے چند عقیدت مند ’’ہندو براہمن‘‘ بھی شہید ہُوئے تھے؟ ۔ مَیں نے کہا کہ ’’ جی ہاں!‘ ‘ لیکن، مجھے دُکھ اور حسرت ہے کہ۔ اُس دَور میں ہندوستان کا کوئی راجپوت ؔ۔ امامِ عالی مقام ؑ کے ساتھ شہید کیوں نہیں ہُوا؟۔ پھر معزز قارئین! مَیں نے پنجابی زبان میں ۔’’ جے کربل وِچّ مَیں وِی ہوندا‘‘ کے عنوان سے ،میں نے امام عالی مقام ؑ کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کِیا ۔ منقبت کا مطلع اور دو بند یوں ہیں … جے کربل وِچّ مَیں وِی ہوندا! …O… تیرے ، غُلاماں نال ، کھلوندا ! پنج ستّ وَیری ، ماردا ، کوہندا! فیر مَیں ، مَوت دی ، نِیندر سوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! …O… نذرانہ دیندا ، جان تَے تن دا! غازی عباسؑ دا ، بازُو بَن دا! حُر ؑدے ، سجّے ہتّھ ، کھلوندا! جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ہوندا! حقیقی معنوں میں غیر سیاسی درویش (جو کسی بھی حکمران کے دربار میں نہیں گئے اور نہ ہی اُنہوں نے حکومتِ ایران سے کوئی امداد طلب کی ہے) ’’ تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ‘‘ کے سربراہ آغا سیّد حامد علی شاہ موسوی صاحب سے میری گزشتہ 20 سال سے نیاز مندی ہے ۔ 30 اپریل 2017ء کو حضرت امام حسین ؑ کا یوم پیدائش تھا۔ اُسی روز میرے کالم میں میری منقبت کے یہ دو بند بھی شامل تھے ۔ اُسی شام آغا جی کے نائبین میں سے ایک دانشور، کیمیکل انجینئر اور کئی کتابوں کے مصنف سیّد عباس کاظمی نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ ’’ آغا جی! کا اپنے تمام رُفقاء کے لئے یہی فرمان ہے کہ آج سے اثر چوہان صاحب کو ’’ حسینی راجپوت‘‘ کہا جائے‘‘۔ شہادتِ امام حسین ؑ کے بعد ، سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا نے جب مدینہ سے کربلا اور کربلا سے شام تک شُہدائے کربلا کی بیوائوں اور اُن کے یتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر کوفہ اور شام کے بازاروں میں تقاریر کیں تو، بیمار حضرت امام زین اُلعابدین ؑ بھی آپ سلام اللہ علیہا کے ساتھ تھے ۔ اپنی تقریروں میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خطبوں اور برجستہ جوابات کے بارے میں مؤرخین لِکھتے ہیں کہ ۔ ’’ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا حضرت علی مرتضیٰ ؑ خطبہ دے رہے ہیں ‘‘ ۔2017ء میں سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کے حضور میں نذرانۂ عقیدت پیش کِیا تھا۔ مَیں نے 4 فروری 2018ء کو حسینی راجپوت کی حیثیت سے اپنے کالم میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی منقبت پیش کی جس کے تین بند پیش خدمت ہیں … خُدا کی رحمت ، مَدام ، تُم پر! رِدائے خَیراُالاَنامؐ ، تُم پر! بتُولؑ کا نُورِ تام، تُم پر! علی ؑ کی بیٹی ؑ سلام تُم پر! …O… مُلوکِیت جیسے ، غم کدہ، تھی! یزِیدیت ، زلزلہ زدہ ، تھی! ہے ختم، زورِ کلام تُم پر! علی ؑ کی بیٹی ؑ سلام تُم پر! …O… وفا کے پَیکر ، شُمار ہوتے! وہاں جو ہوتے ،نِثار ہوتے! نبیؐ کے سارے ، غُلام تُم پر! علی ؑ کی بیٹی ؑ سلام تُم پر! دربار ِ یزیذ میں اسیرانِ اہل بیت ؑ موجود تھے ۔اُسی وقت مسجد سے اذان کی آواز آئی تو، حضرت زین اُلعابدین ؑ نے یزید کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’ اب تُم بتائو کہ فی الحقیقت حکومت کس کی ہے ؟ اگرچہ تُم تخت پر بیٹھے ہو لیکن، ببانگ ِ دُہل نام میرے بابا ؑ ؑکے نانا سیّد اُلمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کا لِیا جا رہا ہے ۔ تمہاری حکومت صِرف چند روزہ ہے جب کہ مسلمان ہمارے فضائل و مناقب قیامت تک بیان کریں گے ‘‘۔ معزز قارئین! ۔ میرے جدّی پُشتی پیر ومُرشد خواجہ غریب نواز ؒ کے مُرشد حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی ’’ کشف اُلمحجوب ‘‘ میں فرمایا ہے کہ ’’ حضرت زین اُلعابدین ؑ ، وارث ِ علوم نبوت ، چراغ امت ، تمام عبادت گذاروں کی زینت اور اہل معرفت کے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ اُس روشنی میں حضرت زین اُلعابدین ؑ کی منقبت پیش خدمت ہے… شاہانِ اہل بَیت کے ، شَہزادؑ ، آگئے! مَسجُود بھی ہے خَنْداں ، کہ سجّادؑ ، آگئے! …O… پِھر ، آفتابِ رُشد و ہَدایَت ، ہُوا طُلوع! اِنسان بن کے ، اَمرِ خُداداد ، آگئے! …O… خُوش ہو کے ، شہر بانوؑ سے ، کہنے لگے ، حسین ؑ! لو ! پاسبانِ عَظمتِ اَجداد ، آگئے! …O… پا کر خبر شِتاب ، ہُوا قُدسِیوں میں ، شور! ’’چَشمۂ خَیر ، صاحبِ اِرشاد ، آگئے! …O… مِینار نُور ، مَشعل نہج اُلبلاغہ ہیں! اہلِ صَفَا کے مُرشد و اُستاد آگئے! …O… وہ آگئے ، مُفسّرِ معراجِ مصطفی ؐ! اَوصافِ ذُوالجلال کے ، حَمّاد ، آگئے! …O… یاد آئے جب ، نبِیرۂ مَولا علی ؑ ، اثرؔ! سب مومنِین کرب و بَلا ، یاد آگئے!