ریلوے نے آپریشن اخراجات میں اضافے ‘ کورونا ،لاک ڈائون اور سفری پابندیوں کے باعث تین سال کے دوران ایک کھرب 19ارب روپے سے زائد خسارے کی وجہ سے تمام ٹرینوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔دوسری طرف وزیر ریلوے اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنائیں گے۔ حکومت نے ایک جانب تو ریلوے کے معاملات سلجھانے کے حوالے سے ہاتھ کھڑے کر رکھے ہیں اور دوسری طرف اسے منافع بخش ادارہ بنانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ ماضی میں خصوصاً 60کے عشرہ سے لے کر70 تک پاکستان ریلوے ملک کا قابل فخر ادارہ رہا ہے۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے اسے منافع بخش ادارہ سے خسارہ بخش ادارہ بنا دیا۔ ہر حکومت نے اس ترقی کے دعوے اور وعدے کیے جو کبھی پورے نہیں ہوئے۔ اب کورونا ا اور اس سے جڑے معاملات کو اس کی شومئی قسمت کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔موجودہ حکومت کے صرف تین برس میں اسے جس بڑے خسارے کا سامنا ہے،اس کا علاج ٹرینوں کی نجکاری میں تلاش کیا جا رہا ہے۔ بڑے اداروں کو منافع بخش بنانے کا علاج ہر مرتبہ نجکاری میں ڈھونڈنا دانشمندی نہیں۔ بھارت میں آج بھی ریلوے سرکاری ادارہ ہے اور وہاں کی کثیر آبادی کے سفر کا بڑا ذریعہ آج بھی ٹرین ہے۔ لہٰذ ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لئے ٹرینوں کی نجکاری کی بجائے اس کی خامیوں کو دور کیا جائے اور اس کے اپنے وسائل اور اثاثوں کو کام میں لا کر اس کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔