ایسی صورت میں کہا جائے گا کہ نوازشریف جیت گئے ہیں۔ رُکیے، فوراً ہی کسی نتیجے تک نہ پہنچئے۔ میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے پورے شرح صدر کے ساتھ یہ محسوس کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں عمران خان کا کامیاب ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ میں اسی خیال اور نیت کے تسلسل میں کہہ رہا ہوں جس کے تحت میں یہ کہتا رہا ہوں کہ نوازشریف کو نہ چھیڑو، اسے اپنی مدت پوری کرلینے دو۔ میرا خیال تھا اور ہے کہ قدرت نے ہمارے لیے جو بندوبست کر رکھا ہے، اس میں تعطل پیدا کیا گیا تو یہ نظام قدرت سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ میں بڑی بات کرگیا ہوں۔ اس کی سطح ذرا نیچے کئے لیتا ہوں۔ مثال کے طور پر ہمارے اقتصادی ارتقا میں جو خرابی پیدا ہوئی ہے، آج اسحاق ڈار ہوتے تو ان کا گریبان پکڑ کر پوچھتے کہ یہ تم نے کیا کردیا۔ اب کسے پکڑوں۔ شمشاد اختر کو قربانی کا بکرا بنا کر تو گزارا نہیں ہوگا۔ اسحاق ڈار نے تو لندن ہی سے یہ بیان داغ دیا تھا کہ اگر میری پالیسیوں پر عملدرآمد جاری رہتا تو پاکستان کو آئی ایم ایف کے دروازے پر سجدہ ریز ہونے کی ضرورت پیش نہ پڑتی۔ کل ہی عرض کیا ہے کہ جب سے ملک میں موجودہ بحران، انتشار اور خلفشار شروع ہوا ہے، ہمارے سرمایہ دار 15ارب ڈالر ملک سے باہر لے گئے ہیں۔ یہی وہ رقم ہے جس کے حصول کی درخواست لے کر ہم آئی ایم ایف کے پاس جا رہے ہیں۔ یہ تو سامنے کی مثال ہے۔ باقی باتوں کا بکھیرا لے کر میں اس وقت نہیں بیٹھنا چاہتا۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ ملک تیس سال پیچھے چلا گیا ہے تو جمہوریت کے تناظر میں یہ غلط نہیں ہے۔ ہم بے شمار مشکلات کے حصار میں ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اب عمران خان کا کامیاب ہونا بہت ضروری ہے۔ عمران خان کی کامیابی کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ کاروبار حکومت کے فیصلے عمران خود کرے۔ جن لوگوں نے عمران پر اعتبار کیا ہے، انہوں نے عمران کی صلاحیتوں پر اعتبار کیا ہے۔ اس اعتبار کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہ صورت حال ہو گی جب عمران اپنے فیصلے خود نہ کرسکیں گے۔ اس کی کپتانی کے زمانے میں تو سلیکٹرز کی بھی کچھ نہ چلتی تھی۔ وہ اپنی بات ڈکٹیٹ کراتا تھا، کیا ایسا ہو سکے گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ نوازشریف کے بیانیے کی جیت ہوگی۔ وہ یہی تو کہہ رہے تھے کہ حکومت کے معاملات کوئی اور چلاتا ہے۔ نوازشریف سچ کہتے تھے یا غلط، اس کا اندازہ عمران کے دور حکمرانی کے چند مہینوں میں ہو جائے گا۔ اگر عمران نے بھی ایسا محسوس کیا تو یہ پاکستان کی بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ یہ بحث تو بعد میں شروع ہو گی کہ آیا عمران آزادانہ فیصلے کرنے کے باوجود کچھ کرسکتے ہیںیا نہیں۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اسے اپنے ذہن اور صلاحیتوں کے مطابق فیصلے کرنے دیئے جائیں، یہ میں شک نہیں کررہا۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ اپنے حکمرانوں پر ایک طرح کا چیک رکھتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو ٹرمپ نے امریکہ کو تباہ کر کے رکھ دینا تھا۔ ٹرمپ کو امریکی اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں ان کی اپنی پارٹی بھی قابو میں رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسا خطرہ ہے۔ اگر آپ اسے غلط نہ سمجھیں تو یہ تقاضائے مشیت الٰہی کے عین مطابق ہے۔ چلیے یوں کہہ لیجئے کہ یہ رموز حکمرانی میں سے ایک ہے مگر یہ کنٹرول اگرحد سے بڑھ جائے اور مداخلت بن جائے تو اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ میری پہلی دعا یہ ہے کہ عمران خان کامیاب ہوں۔ آزادی سے معاملات چلا سکیں۔ پھر ہم دیکھیں گے ان سے جن صلاحیتوں کو منسوب کیا جاتا ہے، وہ ان میں ہیں یا نہیں۔ یہ دوسری بات تو خیر بہت دل شکن ہوگی کہ اگر عمران اپنے اس امیج پر پورے نہ اترے۔ تاہم اگر پہلے ہی مرحلے پر انہوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ آزادی سے نظام حکومت چلا نہیں پا رہے تو یہ کہا جائے گا کہ نوازشریف سچے تھے، دوسرے لفظوں میں وہ جیت گئے ہیں۔ اس ملک کے معاملات اب فطری انداز میں چلنا چاہئیں۔ اسے نظام قدرت کہہ لیں یا حکمرانی کے تقاضے یا کوئی اور نام دے لیں مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ ایک بار مجید امجد سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کی اپنی شاعری کے بارے میں کیا رائے ہے تو اس صاحب نظر تخلیق کار نے کیا لازوال بات کی تھی۔ فرمایا، سلطنتیں مٹ گئیں، حکومتیں ختم ہو گئیں، بادشاہ تہہ خاک چلے گئے، مگر صرف ایک چیز باقی رہتی ہے اور وہ ہے عمل خیر کا تسلسل اور میں اسی عمل خیر کے تسلسل میں شعر کہہ رہا ہوں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ میری شاعری زندہ رہے گی۔ میں ایک ادنیٰ قلمکار یہ دعویٰ تو نہیں کرسکتا کہ میں عمل خیر کے تسلسل میں لکھتا ہوں، اس لیے میرا لکھا ہوا زندہ رہے گا۔ ویسے بھی صحافیانہ تحریروں کی عمر ہوتی ہی کیا ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہتا ہوں کہ ہر لکھنے والے کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ سچائی کا اظہار کرتا رہے۔ اس بات کی پروا نہ کرے کہ کون حکمران ہے اور کون معتوب۔ اسے تو بس اپنی سچائی کا علم ہر دور میں بلند رکھنا ہے۔ سجاد باقر رضوی کا یہ شعر سنئے: اہل دانش سنو، ہم بھی دو بھائی تھے، وہ جو حاکم ہوئے ہم جو رسوا ہوئے وہ ادھر لعل و گہر میں تلتے رہے، ہم ادھر لعل و گہر اگلتے رہے ہمیں اپنا کام کرنا ہے اور کرتے رہنا ہے۔ اس وقت بے شمار موضوعات ہیں جن پر ہمارے ساتھی قلم آزمائی کر رہے ہیں۔ ان میں سب جینوئن ہیں، معتبر ہیں اور اہم ہیں۔ وفاق میں حکومت کیسے بنے گی، صوبوں میں کون زمام کار سنبھالے گا۔ ہر صوبے کے اپنے مسائل ہیں۔ پارٹی کے اندر اپنے تقاضے ہیں۔ اپوزیشن کی الگ ساخت ہے۔ اس میں تضادات بھی ہیں۔ ملک کی سرحدیں محفوظ نہیں۔ ملک کے اندر دہشت گرد ابھی زندہ ہیں۔ جب چاہے وار کردیتے ہیں۔ ہمیں سادگی اختیار کرنا ہے اور اس کا اظہار بھی کرنا ہیں۔ پروٹوکول نہیں لیا جائے گا، گورنر ہائوس، پرائم منسٹر ہائوس سب عوام کے لیے کھول دیئے جائیں گے۔ یہ ایک ایک بات، ایک ایک فقرہ، ایک ایک خواہش، ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں گلے کا ہار بن جائیں۔ پھر یہ اصل مسئلے بھی نہیں ہیں۔ اصل مسئلوں کے تو تصور ہی سے جھرجھری آ جاتی ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ لکھنے والے بھی میرے جیسے ہیں، جنہیں معاملات کا کوئی گہرا شعور نہیں ہے۔ ڈر ہے، ان معاملات کو ہم جن ہاتھوں میں دے رہے ہیں وہ ہاتھ کہیں انہیں سنبھالتے ہوئے کانپ نہ جائیں۔ میں نے بہت لوگوں کو سرشاری میں دیکھا ہے۔ ایک عجیب نشہ جو فتح کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو غمگین اور بجھا بجھا پایا ہے۔ بہت سے ادھیڑ پن میں ہیں کہ کون سا رخ اختیار کریں، ایسے بھی ہیں جنہوں نے فوراً پلٹا کھایا ہے۔ بعض تو ایسے پلٹے ہیں کہ مجھ جیسوں کو شرم آنے لگتی ہے۔ دفتروں میں جائیں، وہاں کا ماحول بدل گیا ہے، بحثوں کا انداز بدل گیا ہے، کبھی تو خیال ہوتا ہے کہ ان بھائیوں کے اندر یہی کچھ ہوگا، انہوں نے چھپائے رکھا۔ کبھی یہ سمجھ آتی ہے کہ یہ لوگ زمانے کے ساتھ چلنے کی کیا خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ بڑھتے جائیے، سنتے جائیے اور پاکستان کے لیے دعا کرتے جائیے۔ اس قوم کا بھی تو امتحان ہے۔ ساری سیاسی جماعتوں کا کہ ان کے ارکان، ہمارے منتخب نمائندے کیا کرتے ہیں پالے تو نہیں بدل لیتے یا ثابت قدم رہنے کی قیمت تو مانگنے نہیں بیٹھ جاتے۔ باقی قوم کیا کرتی ہے۔ منافقت یا ثابت قدمی۔ ہٹ دھرمی یا غلطی کا اعتراف۔ اسے جس طرح چاہے بیان کرلیجئے۔ یہ بیانیہ جاری رہے گا۔ وہی باقی رہے گا جو عمل خیر کے تسلسل میں زندہ ہو۔ وہ مٹ جائے گا جو اس سے ہٹ کر چلے گا۔ ارے بھئی، سلطنتیں مٹ گئیں، بادشاہتیں تباہ ہو گئیں، ملک ویران ہو گئے۔ قدرت کبھی اس گناہ کو معاف نہیں کرتی کہ آپ خیر کاراستہ ترک کردیں۔ بقا صرف عمل خیر کو ہے، صرف عمل خیر کو، باقی سب جھوٹ ہے۔