کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات عام طور پر قومی سطح پر بڑی اہمیت کے حامل نہیں سمجھے جاتے لیکن اس دفعہ صورت حال قدرے مختلف تھی۔۔دراصل ان انتخابات کو ڈیڑھ سال بعد آنے والے عام انتخابات کا پیش خیمہ سمجھا جا رہا ہے اور اس کے نتائج کو عام انتخابات کے نتائج کا عکس قرار دیا جا رہا ہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں ساری قابل ذکر سیاسی جماعتوں کے لئے سیکھنے کا بہت سا سامان موجود ہے۔ سب سے پہلے حکمران جماعت پی ٹی آئی ہے جس کے لئے ان انتخابات کے نتائج لمحہ فکریہ ہیں۔اگرچہ پی ٹی آئی نے پورے پاکستان میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں، مسلم لیگ ن جو سب سے بڑی حریف جماعت ہے،59سیٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔لیکن جب پنجاب کے نتائج پر نظر ڈالی جائے تو پی ٹی آئی کا سکور 28ہے اور پی ایم ایل (ن) اس سے تقریباً دوگنا 51نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے۔پنجاب میں 32آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔یعنی دوسری پوزیشن آزاد امیدواروں کی ہے اور تیسری پوزیشن حکمران جماعت کے حصے میں آئی ہے۔لاہور کی کل 20نشستوں میں سے 14مسلم لیگ ن کے حصے میں آئی ہیں اور حکمران جماعت صرف 5نشستیں لے سکی ہے۔سیاست میں گہری دلچسپی رکھنے والوں سے بھی اگر یہ سوال کیا جائے کہ لاہور میں پی ٹی آئی کے الیکشن کا انچارج کون تھا تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔البتہ مسلم لیگ ن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ سعد رفیق اس الیکشن کے انچارج تھے اور پارٹی کی لیڈر شپ نے بھی سعد رفیق کو اس کا کریڈٹ دیا ہے۔پی ٹی آئی کے بارے میں جب زیادہ سوچا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایک تو ہمایوں اختر لاہور کینٹ کے انچارج ہیں اور دوسرے علیم خان‘ہمایوں اختر عوامی لیڈر تو نہیں ہیں کہ ان سے توقع رکھی جائے کہ وہ اپنی پارٹی کے لئے گھر گھر کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔علیم خان ویسے ہی پارٹی لیڈر شپ کے بائیں جانب ہیں اور اب تو وزارت سے استعفیٰ کا اعلان کر چکے ہیں۔اس لئے نہ انہوں نے امیدواروں کی سلیکشن میں کوئی فعال کردار ادا کیا اور نہ ہی الیکشن میں دلچسپی لی۔جہاں تک وزیر اعلیٰ کا تعلق ہے۔انہیں معلوم ہے کہ ان کا کلہ مضبوط ہے اور انہیں ذاتی طور پر اس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔جو 5امیدوار جیت گئے ہیں‘یہ ان کی ذاتی کوشش کا نتیجہ ہے۔پی ٹی آئی کو ان 5امیدواروں کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان کی ذاتی کوشش نے پی ٹی آئی کامکمل صفایا ہونے سے بچا لیا۔اگرچہ عمران خان نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں لاہور کا ایک روزہ دورہ بھی کیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔جب تک شکست کے ذمے داروں کا تعین نہیں کیا جاتا اور پارٹی کے انتظامی ڈھانچے کو استوار نہیں کیا جاتا‘معمولی باز پرس کوئی معانی نہیں رکھتی۔پی ٹی آئی کے لوگ عمران خان کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پورے پاکستان میں انہیں فتح حاصل ہوئی ہے اور ان کی جماعت ایک ملک گیر جماعت ہے اس لئے لاہور یا پنجاب کی شکست سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر عمران خان نے اس تھیوری پر یقین کر لیا تو پھر عام انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔پنجاب میں کنٹونمنٹ بورڈکے انتخابات کو مدنظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کو اپنے انتظامی ڈھانچے کو صحیح خطوط پر استوار کرنا ہو گا اور گڈ گورننس پہ توجہ دینی ہو گی۔پنجاب کا طرز حکومت عمران خان کی بین الاقوامی کامیابیوں پر پانی پھیرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔عمران خان کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ان انتخابات کے دوران پورے پاکستان کے میڈیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ سر ٹکرانا کیا ضروری تھا۔تحریک انصاف کو یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اصل مسئلہ قوانین بنانے کا نہیں،ان پر عمل درآمد کا ہے۔اگر حکومت پاکستان میں پہلے سے موجود سارے قوانین پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو جائے تو ہمارے نوے فیصد مسائل حل ہو جائیں۔عمران خان طاقتور کو قانون کے نیچے لانے کی بات تو بہت کرتے ہیں لیکن ابھی تک وہ کسی طاقتور کو قانون کے نیچے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔پولیس‘بیورو کریسی اور عدلیہ میں ابھی تک کوئی اصلاحات نافذ نہیں ہو سکیں۔ پی ٹی آئی بیورو کریسی کے رویے میں تبدیلی لانے میںناکام ہے اور افسروں کے تبادلوں کو ہی تبدیلی سمجھا جا رہا ہے۔ملک میں کمر توڑ مہنگائی ہے، ساری کابینہ یہ پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک ثابت کر رہی ہے ۔پاکستان میں کم ترین تنخواہ تقریباً ایک سو ڈالر ہے۔کیا ہمارے قیمتوں کا مقابلہ ان ممالک سے کرنا چاہیے جہاں لوگ کم از کم ایک ہزار ڈالر ماہانہ کما رہے ہیں۔آدھی مہنگائی تو صرف اچھے انتظام و انصرام سے کم ہو سکتی ہے۔تین سال گزر جانے کے بعد بھی متعدد اہم پوسٹوں پر ن لیگ کے ہمدرد براجمان ہیں۔دوسری بڑی پارٹی نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پنجاب میں واضح اکثریت حاصل کی ہے لیکن ن لیگ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اتنی بڑی پارٹی اب پنجاب تک محدود ہو گئی ہے اور دوسرے صوبوں میں ان کی موجودگی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔بلوچستان میں تو اسکا مکمل صفایا ہو گیا ہے۔بہرحال ن لیگ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ نواز شریف کی غیر حاضری اور پاکستان میں موجود لیڈر شپ کی آپس میں بیانیہ کی جنگ کے باوجود ن لیگ نے پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے اور پنجاب میں ان کی مقبولیت مسلمہ ہے۔ان نتائج سے ن لیگ کو عام انتخابات کے لئے ایک بہت بڑی اخلاقی برتری حاصل ہوئی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے پورے پاکستان میں ے 17نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔14نشستیںسندھ اور تین کے پی میں ہیں۔ بلوچستان اور پنجاب میں ان کا نتیجہ صفر ہے۔بلاول بھٹو زرداری بڑے بلند آہنگ دعوے کرتے ہیں کہ آئندہ کا وزیر اعظم جیالا ہو گا۔اگر پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کے زیر سایہ صوبہ سندھ جیسی گورننس جاری رکھی توپیپلز پارٹی دیہی سندھ کی پارٹی بن کے رہ جائے گی۔جب تک وہ سندھ میں گورننس کا بہترین ماڈل پیش نہیں کریں گے دوسرے صوبوں میں ان کے لئے قطعاً کوئی گنجائش پیدا نہیں ہو گی۔جماعت اسلامی نے 7اور نیشنل عوامی نے دو سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ایم کیو ایم نے دس اور بلوچستان عوامی پارٹی نے دو سیٹیں حاصل کی ہیں۔جمعیت العلماء اسلام کا نام کہیں سننے میں نہیں آیا۔ اب مولانا فضل الرحمن کو شاید نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ کی صدارت پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ 119میں سے 52سیٹیں آزاد امیدواروں کے حصے میں آئی ہیں۔یہ الیکشن چونکہ ڈور ٹو ڈور رابطے کے متقاضی ہوتے ہیں،اس لئے آزاد امیدوارں کی محنت رنگ لائی ہے۔اس رابطے کا سب سے بڑا فقدان پی ٹی آئی میں نظر آیا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ پی ٹی آئی اپنے عوامی رابطے بحال کرے ،گورننس بہتر کرے،مہنگائی پرقابوپائے،موجودہ قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے اور پولیس‘بیورو کریسی اور عدلیہ کے نظام میں سنجیدہ اصلاحات کی جائیں۔