میں صبح سے دیکھ رہا ہوں کہ جمہوریت پارلیمنٹ کے اندر کیسے پروان چڑھ رہی ہے۔ سپریم کورٹ‘ احتساب عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی خبریں آ رہی ہیں۔ ایک نہیں کئی باتیں ایسی ہیں جو اشارے کرتی دکھاتی دیتی ہیں کہ ملک کس سمت جا سکتا ہے۔ دل چاہتاہے کہ ان سب اشاروں پر تبصرہ کروں کہ یاروں نے بہت کچھ کہنا شروع کر دیاہے۔ مگر دل ڈرتا ہے۔ دل ڈرتا ہے‘ ان کالی اندھیری راتوں سے دل ڈرتا ہے۔ مثال کے طور پر میں ایک اندیشے کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو ایسا آسان نہ ہو گا خبر یہ تھی کہ آصف علی زرداری کو ملک کا صدر بنایا جا سکتا ہے کہنے والے نے بہت اعتماد سے کہا تھا کہ اسے ناممکن نہ جانو۔ دل مانتا نہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ جو چاہے تجزیہ کرتے رہو‘ خبر یہی ہے کہ کسی نے کہا چلو اسے عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔ میں نے بھی یہ جوابی سوال اٹھایا کہ پیپلز پارٹی کے پاس تو سب کچھ ہے۔ سندھ اسمبلی میں وہ زیادہ مضبوط ہے۔ مرکز میں اس کی حالت پہلے سے بہتر ہے پھر وہ کیوں یہ بدنامی مول لے۔ وہ صاف کہہ چکی ہے‘ دھاندلی ہوئی ہے۔ عمران خاں‘ آصف علی زرداری کو کھری کھری سناتے رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے بھی عمران خان سے کچھ کم نہیں کی۔ آخر وہ کیوں چاہے گی کہ عمران خان کو مضبوط کرے۔ دوسری طرف اگر پیپلز پارٹی چاہے بھی‘ تو عمران خان کیسے مانیں گے یہ کیا بات ہوئی ‘ ویسے ہی مانیں گے جیسے وہ پہلے بھی بہت سی باتیں مان گئے ہیں اور اس کا جواز بھی مل جاتا ہے۔ آج وہ سب فقرے نشر ہو رہے ہیں جو انہوں نے دوسری جماعتوں کی قیادت کے بارے میں مختلف اوقات میں کہے ہیں۔ایم کیو ایم کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا‘ اب کس سکون سے وہ حکومت کی اتحادی ہے۔ سیاست میں ایسا ہوتا آ رہا ہے۔اب بھی ہو گا۔ مگر یہ باہمی رشتہ قائم کیوں ہو گا۔ دیکھ نہیں رہے اعداد وشمار کا کھیل پورا نہیں ہوتا۔ کیسے بھئی‘ اسمبلی میں تو بڑی آسانی سے اکثریت آ گئی ہے۔ جی ہاں مگر کوئی قانون پاس کرنے کے لیے سینٹ کی بھی کم از کم سادہ اکثریت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ کچھ بھی کر لو‘ تحریک انصاف اور اس کے اتحادی یہ تعداد سینٹ میں حاصل نہیں کر سکیں گے۔ یہ تعداد صرف اس صورت میں ممکن ہے جب پیپلز پارٹی اپنا وزن تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دے۔ اس طرح پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف کی مجبوری ہے۔ اسے اس کی مدد ہر قانون سازی میں درکار ہو گی۔ اس کے لیے تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی کو کچھ نہ کچھ دینا ہو گا۔ آخر آصف زرداری کو صدارت ہی کیوں؟ آصف زرداری بھی بہت مشکل میں ہیں۔ آج سپریم کورٹ میں انور مجید کی گرفتاری کی خبر آ گئی ہے۔ ضمانت نہیںمل سکی۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور والا مقدمہ ہے۔ بہت بڑی منی لانڈرنگ کا معاملہ ہے۔ آصف زرداری اس میں خاصے ڈرے ہوئے ہیں۔ ایف آئی اے میں پیش ہونے کے بجائے سپریم کورٹ جا پہنچے۔ سپریم کورٹ نے ٹکا سا جواب دے دیا۔ اتنا بڑا کیس ہے کہ آسانی سے چھٹتے دکھائی نہیں دیتے۔ انور مجید کو ایک عرصے سے ان کا فرنٹ مین بتایا جاتا ہے۔ زرداری صاحب کو یہ این آر او دیا جا سکتا ہے کہ وہ صدر بن کر ایک بار پھر استثنیٰ کے پردے کے پیچھے چھپ جائیں۔ آدمی سو گناہ کرے‘ صدر بن جائے تو پاک ہو جاتا ہے۔ اب سوال کیا جا سکتا ہے اس میں بھی تو رکاوٹیں ہوں گی۔ ان کی نامزدگی پر بھی اعتراض آ سکتا ہے کہ ان پر مقدمات ہیں۔ یہ سب درست ہے اگر رعایت ہی دینا ہے تو اس سے کم کیا دی جائے۔ ہو سکتا ہے زرداری صاحب کچھ اور بھی لے ڈالیں۔ وہ تو اس کام کے ماہر ہیں۔ چھوٹی موٹی بات پر تو وہ بھی تیار نہیں ہوں گے۔ اور ان کی مجبوری بھی ہے۔ وہ صدر نہ بھی بنیں تو بھی انہیں بہت سی مراعات کی ضرورت ہے۔ ان کے گرد شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ وہ نواز شریف تو ہیں نہیں کہ اس اذیت کا لطف اٹھا کر خوش ہوں کہ میں یہ سب کچھ قوم کے لیے کر رہا ہوں۔ اگر اس میں الجھن بھی ہے تو وہ طے کی جا سکتی ہے۔ بس ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔ ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ یہ بندوبست اگر سوچا جا رہا ہے تو اس کا فائدہ بھی بتایا جائے۔ یہی ناکہ سیاسی نظام مستحکم ہو گا۔ مگر وہ سارے دعوے کرپشن کُشی کے اور ملک میں انصاف کا بولا بالا کرنے کے۔ان کا کیا ہو گا یہ تو سٹیٹس کو سے بھی آگے کا بندوبست ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ سارا جھگڑا صرف مسلم لیگ ن سے ہے۔ پھر حالات یہ بھی ثابت کر دیں گے کہ مسلم لیگ کا بیانیہ درست ہے۔ اگر اتنے شور شرابے کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ہاتھ ملاتے ہیں تو پھر مسلم لیگ تو بہت بلندی پر فائز ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کی مشکل یہ ہے کہ اسے دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے مسلم لیگ یا تحریک انصاف ‘ مسلم لیگ کا ساتھ دے کر اسے کیا ملنا ہے۔ اس لیے اس نے اس اپوزیشن میں شامل ہو کر اگر غیظ و غضب کا نشانہ بننا ہے اور اپنے خلاف مقدمے ہی کھلوانا ہے تو اسے اس سے کتنے نفل کا ثواب ہو گا۔ پیپلز پارٹی نے ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئی۔ اس میں ایک سے ایک بڑا گھاگ پڑا ہے۔ وہ خسارے کا سودا کرتے ہی نہیں۔ انہوں نے ابھی کہہ دیا ہے کہ ہم نے یہ طے کیا تھا کہ وزیر اعظم کا امیدوار مسلم لیگ سے ہو گا مگر ہمیں امیدوار پر تحفظات ہیں۔ یعنی آپ کون ہوتے ہیں‘ تحفظ طاہر کرنے والے اگر آپ نے ایک پارٹی کو ایک امیدوار نامزد کرنے کا حق دے دیا ہے تو اس اس پر اعتراض کرنے والے کون ہو۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو مسلم لیگ کو بھی پیپلز پارٹی سے اتحاد کر کے کیا لینا ہے۔اگر وہ اکیلے اپوزیشن کرتے ہیں تو زیادہ طاقت پکڑیں گے۔ اپنا بیانیہ بھی جاری رکھ سکیں گے اور یہ بھی بتا سکیں گے کہ مظلوم صرف وہ اکیلے ہیں۔پیپلز پارٹی سے تعاون کے ذریعے انہیں وزارت عظمیٰ تو ملنے والی نہیں۔ اس پر کل اگر پیپلز پارٹی نے اعتراض کر دیا کہ وزیر اعظم تو آپ بنے نہیں اب براہ مہربانی لیڈر آف اپوزیشن کی سیٹ چھوڑ دیجیے۔ اس پر ہمیں نامزد کر دیجیے تو جھگڑے کی بنیاد پڑے ہی پڑے۔ لیڈر آف اپوزیشن تو وہی ہو گا جسے اپوزیشن میں اکثریت حاصل ہو گی‘ اگر پیپلز پارٹی پر اس کی نظر ہے تو مسلم لیگ کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کا کوئی مفاد ملتا نہیں ہے۔ ان کے درمیان صرف ایک تعلق اور رشتہ ہو سکتا ہے کہ وہ مل کر حکومت کے خلاف جدوجہد کریں۔ حکومت کے خلاف جدوجہد اس وقت صرف مسلم لیگ ن کا مسئلہ ہے پیپلز پارٹی کا ہے ہی نہیں۔ نتیجہ اس ساری بحث کا یہ نکل رہا ہے کہ عمران خان کے لیے اپنے خواب پورے کرنا آسان نہ ہو گا۔ اگر یہ اتحاد ہو بھی جاتا ہے یعنی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کا اتحاد اور عمران خان اس پر تیار بھی ہو جاتے ہیں تو یہ تحریک انصاف کا پہلا بڑا سرنڈر ہو گا اس ایک اقدام سے ساری عمارت دھڑام سے گر جائے گی۔ آپ سٹیٹس کو کی بات کرتے ہیں یہ تو اس سے کہیں بڑی بات ہو گی۔ یہ میں نے صرف ایک مثال دی ہے یہاں’’شاعر ‘‘کوایک نہیں کئی دریائوں کا سامنا ہے۔ ایک سے ایک منہ زور اور شور یدہ سر۔ اس جمہوریت کا ایک نازک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ توازن قائم کرتے کرتے ہم خود کو تماشا بنا لیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کر پاتے۔ ہمارے ہاں یہ توازن صرف پارلیمنٹ ہی میں قائم نہیں کرنا ہوتا اور بہت سے اداروں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے بلکہ ان اداروں کے ساتھ چلنا ہوتا ہے اس وقت تین چار اداروں کا تو بہت تذکرہ ہوتا ہے۔ فوج‘ عدلیہ‘ الیکشن کمشن‘ نیب وغیرہ وغیرہ ایسے لگتا ہے۔ ہر طرف سے دبائو ہے۔ کبھی کبھی تو حد ہو جاتی ہے۔ ابھی کل ہی ایک ویڈیو آئی کہ ایک غیر ملکی خاتون نے پاکستان کے جھنڈے کا لباس پہن رکھا ہے اور وہ اظہار یکجہتی کے لیے خوشی سے جھوم رہی ہے جیسے گویا رقص کر رہی ہو۔ اسے ہم نے قومی پرچم کی توہین قرار دے دیا۔ کیسے بھئی‘ کیسے توہین ہوئی۔ کیا ہم پاکستانی پرچم کے رنگ کا لباس نہیں پہنتے۔آنچل کو پرچم بنا لینے کی بات پر سر دھنتے ہیں۔ پرچم کو آنچل بنا لینا کیا نامناسب ہے۔ چلیے اگر ہے بھی تو آخر نیب کے چیئرمین کو کیا پڑی تھی کہ انہوں نے فوراً بیان دے ڈالا کہ میں نے پی آئی اے کی جواب طلبی کر لی ہے۔ بھئی کس بات پر۔ کیا یہ بھی آپ کے دائرہ اختیار میں ہے۔حد ہو گئی صاحب اس بات سے قطع نظر ہمارے ہاں ہر کوئی کوتوال بنا ہوا ہے۔ نتیجہ کیا ہے کہ یہ فسطائی رویہ نیچے تک سرایت کر گیا ہے۔ کل کراچی کا واقعہ دیکھا تحریک انصاف کا ایک تازہ تازہ رکن اسمبلی ایک شخص کی پٹائی کر رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے کو تنگ کرنے کا مرتکب ہوا ہے۔ ملک میں جو فضا ہے‘ یہ اس کا منطقی نتیجہ ہے۔ تحریک انصاف کو اس صورت حال سے پالا پڑتا رہے گا۔ کیونکہ ماضی میں کارکنوں کو مناسب وقت پر ٹوکا نہیں گیا۔ ان کی تربیت ہی نہیں‘ اب دیکھئے جنہیں سندھ کا گورنر مقرر کیا گیا ہے وہ بلڈوزر چلانے کی بات کر رہے ہیں۔ کسی کو نہیں پتا اس نے کیا کرنا ہے اور کیا کہنا ہے۔سیاست کے نوآموز لوگوں کو بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔ مگر جو بہت ہی جوشیلی فضا سے نکل کر آئے ہوں۔ ان کا تو خاص طور پر مزاج برہم ہوتا ہے۔ کراچی میں ابھی بہت مرحلے آنے والے ہیں۔ اس جماعت کے کراچی میں صرف دو لوگوں سے واقف ہوں۔ ایک ڈاکٹر عارف علوی اور دوسرے نجیب ہارون۔ تحریک انصاف جب بن رہی تھی تو میرے لیے اس کی پہچان یہی تھے۔ اگر سیاست میں ہوتا تو شاید میں بھی ان کے ساتھ مل گیا ہوتا۔ تیسرے یہ فردوس نقوی تھے یہ پھول ان دنوں ابھی کھل رہا تھا ۔ مگر اب تو ایسے چہکے ہیں کہ بڑا بحران ہوتے ہوتے بچا ہے۔ تحریک انصاف کے لیے کئی محاذ کھلے ہیں ان میں کوئی بھی آسان نہیں۔ مسلم لیگ ن کے لیے بھی کئی الجھنیں ہیں۔ وفاق میں شہباز شریف‘ وہ بھی ابھی نظروں میں جچ نہیں رہے۔ وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کی پرفارمنس کی تعریف ہوتی رہی ہے۔ اب سوال اٹھا ہے بس زیادہ عمدہ قائد حزب اختلاف بن سکتے ہیں۔ پنجاب میں رواج کے مطابق ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز ہیں بہتوں کو یہ بندوبست آنکھوں نہیں بھاتا۔ شاید اور کوئی راستہ نہ ہو۔ ایک ہی سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آیا نواز شریف کا راستہ اختیار کیا جائے گا یا مفاہمت کا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ ابھی سے اعتراض ہونے لگے ہیں۔ بھائی کے استقبال کو ایئر پورٹ نہیں پہنچے۔ احتجاج کے لیے اسلام آباد نہیں آئے۔ ان کی جان بھی بڑی مشکل میں ہے بات سمجھ آتی ہے۔ مگر لگتا ہے۔ عام آدمی نہیں سمجھ پا رہا۔ ایسا ہوا تو مسلم لیگ میں فارورڈ بلاک بنانے کے خواب دیکھنے والوں کے مزے ہو جائیں گے۔ پوچھنے والے پوچھتے ہیں تو شہباز شریف کیا کریں۔ ہاں یہ بات بھی ہے ہر طرف مشکل ہی مشکل ہے۔ مسلم لیگ ہو‘ تحریک انصاف ہو یا پیپلز پارٹی‘ سب اپنی اپنی مشکلات کے اسیر ہیں۔ ایسے میں ترے یہ سادہ دل بندے کدھر جائیں‘ ہم پاکستانی کیا کریں۔ اس گپ شپ سے تو کوئی رستہ نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ اگر یہ خیال ہے کہ سنبھالنے والے سنبھال لیں گے تو بھائی‘ معاف کرو یہ بندوبست کرنا ہے سنبھالنے والوں کی طرف دیکھنا ہے۔ تو انتخاب کی کیا ضرورت تھی اسی نے تو آج تک مارے رکھا ہے۔ سمجھے نا‘ ہر طرف مشکل ہی مشکل ہے۔ اللہ ہماری مشکلیں آسان کرے!