اپوزیشن کے ’گو نیازی گو‘ کے شور شرابے میں وزیر خزانہ اسد عمر نے تحریک انصاف کے دور حکومت کا دوسر امنی بجٹ پیش کردیا جوان کے مطابق منی بجٹ سے زیادہ معیشت کی بحالی کا روڈ میپ ہے۔ بجٹ میں غریب، متوسط طبقے اور کسانوں کو بعض رعایتیں دی گئی ہیں۔ وزیر خزانہ نے ایسے اقدامات بھی کئے ہیں جن کی بنا پر تاجر تنظیموں اور چیمبرز آف کامرس نے بجٹ کا خیر مقدم کیا۔قومی اسمبلی کے بجٹ اجلا س میں یہ بات ایک بار پھر واضح ہو گئی کہ اپوزیشن اور حکمران جماعت میں محاذ آرائی، چپقلش اوربغض جاری وساری ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی بجٹ پیش ہونے سے پہلے والی تقریر حقیقت کی پوری طرح غمازی کر رہی ہے۔ عمران خان کی آمد پر جو ساڑھے تین ماہ بعد پہلی بار ایوان میں آئے تھے، شہباز شریف نے یہ کہہ کر طنز کیا کہ سیلیکٹڈ وزیر اعظم کو بھی ایوان میں آنے کی توفیق ہوئی اور جیسا کہ تحریک انصاف نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر یہ مطالبہ کیا تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دیں، اپوزیشن لیڈر نے سانحہ سا ہیوال کے حوالے سے یہی مطالبہ عمران خان کے خلاف داغ دیا۔ اپوزیشن ارکان نے بجٹ کی کاپیاں بھی پھاڑ کر پھینک دیں۔اسد عمر بھی نچلے بیٹھنے والے نہیں تھے اور طنز کیا کہ آصف زرداری کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے پر شہباز شریف کا شکریہ ادا کرتے ہیں نیز یہ کہ ہمارا اثاثہ قوم کی دعائیں ہیں، سرے محل نہیں۔ بجٹ تقریر میں سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ حکومت نے بالآخر آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ اسد عمر کے مطابق موجودہ حکومت ایسے آئی ایم ایف پروگرام میں جائے گی کہ دوبارہ کبھی اس بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے پاس جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔ ان کا یہ وعدہ ایشیائی معشوق کے وعدے کی طرح تھا کہ 2020ء تک اقتصادی مسائل ختم ہو جائیں گے اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔ بدھ کو سابق وزیر خزانہ اور معروف بینکار شوکت ترین چینل 92پر میرے پروگرام ’ہو کیا رہا ہے‘ میں کہہ رہے تھے کہ حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام میں جتنا جلد جائے اتناہی اچھا ہے۔ انھوں نے مثال دی کہ جب 2008ء میں پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی تو وہ بطور وزیر خزانہ فوری طور پر واشنگٹن گئے اور آئی ایم ایف کے حکام سے غیر رسمی بات چیت شروع کردی تھی لیکن یہاں تحریک انصاف کی حکومت اب تک اسی مخمصے میں بظاہر الجھی رہی کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں جائیں گے یا نہیں جائیں گے لیکن دیر آید درست آید کے مصداق یہ اچھا فیصلہ ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ تاہم یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری آنے کے بعد امید ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے حصول میں امریکہ کی پہلے جیسی مخالفت کا سامنانہیں پڑے گا،قبل ازیں امریکہ نے تلخ شرط لگانے کا عندیہ دیا تھا۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستان کوآئی ایم ایف کاپیکیج اس لیے نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اسے ’سی پیک‘ کے تحت چین کے قرضے اتارنے کیلئے استعمال کریگا۔ اس وقت تو معیشت کی صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات سے اُدھار لیکر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا جا رہا ہے اوریہ رقم جتنی تیزی سے آرہی ہے اتنی تیزی سے قرضے ادا کرنے ،بین الاقوامی کمٹمنٹس پوری کرنے اور روپے کی قدر مزید کم ہونے سے روکنے کیلئے مارکیٹ میں پھینکی جا رہی ہے۔یہ کوئی دیرپاحکمت عملی نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا پیکیج ملنے سے دنیا میں پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بھی بہتر ہو جائے گی۔ اس وقت تو موڈیز اور فچ جیسے اداروں نے پاکستان کو ڈاؤن گریڈ کیا ہوا ہے۔ معیشت کے پہیے کو دوبارہ رواں کرنے کے لیے ابھی بہت سے پاپڑ بیلنے پڑیں گے، موجودہ حکومت کو اب یہ احساس ہو گیا ہے کہ پچھلے پانچ ماہ میں پیدا کی گئی غیر یقینی صورتحال سے معیشت کو ’پکڑو پکڑو جانے نہ پائیں‘ سب چور ہیں کا نعرہ مستانہ، اقتدار کے ایوانوں سے اتنے زور اور تواتر سے لگا کہ مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری رک گئی۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے دور میں بعض فیصلوں سے بھی صورتحال مزید خراب ہو گئی۔ نیب کے چیئرمین جسٹس(ر) جا وید اقبال کا کہنا ہے کہ ہم کسی کی توہین نہیں کرتے بلکہ سب کی عزت کرتے ہیں، شاید انھیں علم نہیں کہ نیب اہلکار کس طرح کاسلوک کرتے ہیں۔ سرکاری افسر فائل کو آگے چلانے سے اس لیے گھبراتے ہیں کہ کل کو وہ بھی دھر لئے جائیں گے۔ خراب پالیسیوں سے زیادہ ایسی پالیسیاں جو خوف وہراس اور بے یقینی میں اضافہ کرتی ہوں معیشت کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ موجودہ حکومت کو صرف اس بات پر نہیں کہ سابق حکومت خزانہ خالی کر گئی تھی اپنی پالیسیوں کی ذمہ داری لینا پڑے گی۔ اس ضمن میں سب سے کمزور لنک خود اسد عمر ہی ثابت ہوئے ہیں۔ وزیر خزانہ ان خوش قسمت افراد میں سے ہیں جو تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے پہلے نامزد وزیر خزانہ تھے اور اگر وہ خود کو اکانومی کاماہر کہتے ہیں تو انھیں اچھی طر ح معلوم ہونا چاہیے تھا کہ بقول ان کے شریف برادران معیشت کو اپنی غلط پالیسیوں اور کرپشن کی وجہ سے تباہ کر گئے ہیں۔ عام خیا ل یہی تھا کہ اینگرو کے سابق باس اسد عمر نے خوب تیاری کی ہوگی اور وہ اپنے لیڈر عمران خان کی بھرپور تائید اور حمایت سے اقتصادیات کو بحال کرنے کے لیے نیا ویژن لائیں گے لیکن بعد ازخرابی بسیار پتہ چلا کہ ان کے پاس تو کوئی پلان ہی نہیں ہے۔ اسی بنا پر اپوزیشن سے زیادہ خود حکمران جماعت اور خان صاحب کے قریب کے حلقوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ یہ اسد عمر کے بس کی بات نہیں ہے لہٰذا انہیں فارغ کیا جائے لیکن وزیراعظم عمران خان نے ایک اچھے لیڈر کی طرح ان مطالبات پر صاد نہیں کیا اور اپنے وزیر خزانہ کی بھرپور حمایت کرتے رہے۔ تحریک انصاف کے ہی وزیر منصوبہ بندی خسرو بختیار نے اگلے روز ڈھینگ مار دی کہ شرح نمو 7فیصد تک پہنچ جائے گی۔ فی الحال تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح 5.8سے گر کر 4بلکہ ورلڈ بینک اور بعض ریٹنگ ایجنسیوں کے مطابق یہ شرح چار فیصد سے کم ہوگی۔ یقینا یہ شرح نمو ترقی کی عکاسی نہیںکرتی اس کے لیے 6فیصد سے زیادہ گروتھ ریٹ ہونا چاہیے۔ اسی طرح بڑھتے ہوئے گردشی قرضے، کر نٹ اکاؤنٹ اور بجٹ خسارے جیسے مسائل جوں کے توں ہیں۔ قوم کو آئی ایم ایف کے پیکیج کی کڑوی گولی دے کر معاملات کو درست کرنے کی حکمت عملی کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے نیوز پرنٹ پر 5فیصد امپورٹ ڈیوٹی ختم کرنے کا بھی اعلان کیا اور ساتھ ہی ان کا کہنا تھا اس کے باوجو د کہ میڈیا ہمارے خلاف ہے، اسد عمر نے کہا کہ زیادہ تر خبریں جو چھپتی ہیں وہ تحریک انصاف کی حکومت کے حق میں نہیں ہوتیں اور زیادہ تر اداریوں میں ہمارے بارے میں اچھی رائے نہیں ہوتی لیکن اس کے باوجودہم آ زاد پریس پر یقین رکھتے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں تو آپ کو ایک آزاد صحافت چاہیے اور ایک ایسی صنعت چاہیے جو منافع بخش ہو، جو لفافے دے کر نہیں، چینلز خرید کر نہیں، صحافی خرید کر نہیں بلکہ سب کا کاروبار بڑھا کر فروغ پائے۔ نہ جانے اقتدار میں آکر سیاستدانوں کو میڈیا سے الرجی کیوں ہو جا تی ہے۔ یہ میڈیا ہی تھا جس نے 2014ء کے دھرنے سے لے کر اب تک تحریک انصاف بالخصوص عمران خان کو ہمیشہ لائیو کوریج دی ہے لیکن حکومت میں آکر تنقید سننے کا حوصلہ بھی پیداکرنا چاہیے۔ ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول بہتر بنانے کے لیے حکومت کو پہل کرنی چاہیے اور اپوزیشن لیڈر کو بھی ہتھ ہولا رکھنا چاہیے۔ لیکن اس پر حکومتی ارکان کو اتنا برہم بھی نہیں ہونا چاہیے۔ نعیم الحق کا کہناتھا کہ ضیاء الحق کے مارشل لا کی پیداوار شہباز شریف اور ان کے چمچوں نے قومی اسمبلی میں افسوسناک رویہ اختیار کیا۔ اپوزیشن کی جانب سے فنانس بل پیش کرنے سے پہلے کیے جانے والے معاہدے کی خلاف ورزی قابل مذمت ہے۔ نعیم الحق نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈرز واپس لیے جائیں‘ ملزم پارلیمنٹ میں آکر شرمناک حرکتیں کرتے ہیں‘ایسے لوگوں کا سیاست میں کوئی مستقبل نہیں ہے۔انہوں نے کہا سعد رفیق اور شہباز شریف کا قومی اسمبلی میں کوئی کام نہیں، شہباز شریف کا رویہ منافقانہ تھا،ان کے حواری بھی منافق ہیں، ہم نے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا۔ انہوں نے کہاکہ فیصلہ ہوا تھا کہ ذاتیات پر حملے نہ کیے جائیں لیکن انہوں نے اس فیصلے کی خلاف ورزی کی۔ انہوں نے کہاکہ قانون سازی میں ایسے لوگوں کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں۔وزیراعظم کے معاون خصوصی کے اپوزیشن کے متعلق ایسے الفاظ نامناسب ہیں،نیز آئینی تقاضوں کی بھی نفی کرتے ہیں۔