اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے سوئٹزرلینڈ میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران مخصوص خطاب میں یہ راز آشکار کر کے پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کے ذرائع میں ہلچل پیدا کر دی کہ پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی ہے۔موساد اور سی آئی اے کا ہمیشہ سے یہ طریقہ واردات رہا ہے۔موساد کی ایک ذیلی تنظیم شراکہ نے مشرق وسطیٰ میں امن کے فروغ کی آڑ میں اس وفد کی ملاقات کے انتظامات کئے جو اپنے آپ کو غیر سرکاری کہتی ہے۔پاکستان اور اسرائیلی باہمی سفارتی سرد مہری کی تاریخ پون صدی پر محیط ہے۔1940ء کی دہائی کے آخر میں پاکستان تاریخ سے نکل کر عالمی جغرافیہ پر ظہور پذیر ہوا،تو عین اسی دور میں فلسطین جغرافیہ سے نکل کر تاریخ کے اوراق میں داخل ہو رہا تھا۔دونوں ریاستوں کا قیام مذہبی اور نظریاتی سمجھا جاتا ہے۔عالمی افق پر ابھرنے کے بعد اسرائیل نے یہ اصطلاح استعمال کی تو نوزائیدہ مملکت خداد داد پاکستان کو بھی اپنی صف میں شامل کر لیا۔اسرائیلی قیادت کی حتی المقدور کوشش تھی کہ پاکستان سے سفارتی تعلقات کی ابتدا کی جائے۔اس ضمن میں ڈیوڈ بن گورین نے بابائے قوم سے بذریعہ ٹیلی گرام رابطہ کی ابتدا کی تھی۔تاریخی شواہد کی روشنی میں یہ امر ثابت شدہ ہے کہ ان کی عمیق نگاہوں نے اسرائیلی ریاست کی غاصبانہ توسیع پسندی کو بھانپ لیا تھا اسی لئے اس ٹیلی گرام کو نظر انداز کر دیا۔قائد اعظمؒ کا ایک فرمان ان کے مطمع نظر کا مظہر ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے جسے امت کے قلب میں گھسایا گیا ہے۔ اس کو پاکستان کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ان کی رحلت کے بعد اسرائیل نے کراچی میں اقتصادی سفیر کی تعیناتی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کی اپنے تئیں پوری کوشش کی تھی۔گزشتہ صدی کے نصف آخر میں مختلف ادوار میں وقتاً فوقتاً دونوں ممالک کے درمیان بیک ڈو ڈپلومیسی کے ذریعے روابط رہے ہیں لیکن وہ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔اندرون پاکستان اسرائیل مخالف جذبات کی شدت کے پیش نظر عوامی غیظ و غضب بہرحال ایک ایسا عنصر ہے،جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔80ء کی دہائی کی ابتداء میں عراق کے ایٹمی ریکٹر پر فضائی حملے کی کامیابی کے نشے میں بدمست اسرائیلی حکومت نے بھارتی شہہ پر کہوٹہ پر بھی فضائی حملے کا منصوبہ بنایا تھا،جسے عین موقع پر عساکر پاکستان نے انتہائی مہارت اور ذہانت سے ناکام بنایا۔اسرائیل اور بھارت کے درمیان عسکری تعاون‘ تجارتی تعلقات اور ٹیکنالوجی کے حصول جیسے معاہدے موجود ہیں جیسے امریکی پشت پناہی بالآخر حاصل ہو چکی ہے۔سرد جنگ کے دور میں بھارت غیر جانبداری کے پردے میں روسی ہتھیار اور اسرائیلی جدید ٹیکنالوجی بیک وقت حاصل کرتا رہا اور اب امریکی دست شفقت سے اعلانیہ اسرائیل کا شریک کار ہے۔اسرائیل کے عرب ممالک سے مسلسل جنگی حالات میں اب یکسر تبدیلی آ گئی ہے۔حتیٰ کہ بعض اسلامی ممالک کے تو باقاعدہ سفارتی تعلقات استوار ہو چکے ہیں۔مشرق وسطیٰ میں فلسطین کے لئے آوازیں اب مدھم پڑ رہی ہیں۔فلسطین کے نقشے پر سرسری نظریں ڈالی جائے تو ایک غیر فطری اور عقل و فہم سے بالا عجیب سی ریاست کا احساس ہوتا ہے جو بتدریج اپنا وجود کھو کر صیہونی ریاست کے رحم و کرم پر ہے ۔مسئلہ فلسطین اور کشمیر ماضی قریب تک باہم منسلک رہے ہیں۔عالمی قوتیں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے باوجود اس سے پہلو تہی کر رہی ہیں۔عام پاکستانی لہولہان کشمیر اور صیہونی مظالم کا شکار فلسطینیوں کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں کیا یہی جذبات فلسطینیوں کے کشمیریوں کے لئے بھی ہیں؟موجودہ صدی کی ابتداء میں عالمی منظر نامے پر موقوم پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی اندرون ملک اسرائیل سے تعلقات پر بحث شروع ہوئی تھی۔اسرائیل کی ناجائز اور غاصب ریاست کو تسلیم کرنا پاکستانیوں کے جذبہ حمیت اور حب امت کے منافی ہے مگر اس پر بحث و تمحیص کی گنجائش بھی ہونی چاہیے۔چند روز بیشتر پاکستانی نژاد انیلہ علی جو کہ امریکی شہری ہیں، نے دیگر خواتین و حضرات کے ہمراہ بین المذاہب ہم آہنگی کی چھتری تلے اسرائیل کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ اسرائیلی اعلیٰ و حکام اور صدر سے ملاقات بھی کی۔احمد قریشی نام کے ایک غیر معروف صحافی کی اس وفد میں شمولیت پر حیرت نہیں ہوئی ۔موصوف کا شمار کبھی بھی اعلیٰ درجے کے لکھاری یا تجزیہ کاروں میں نہیں رہا۔ وہ سرکاری ٹی وی پر جز وقتی پروگرام پیش کار تھے اور حکومت نے انہیں فی الفور اس ذمہ داری سے سبکدوش بھی کر دیا ہے۔اسرائیل پالیسی ساز اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے اہل اسلام کو باور کروانے کی سعی کر رہے ہیں کہ یہودی بھی اہل کتاب اور آفاقی مذہب کے پیروکار ہیں۔انیلہ علی کے بقول ان کی این جی او کا مقصد مسلمانوں اور یہودیوں کو قریب کرنا ہے۔مسلم یہودی مفاہمت اور ابراہیم معاہدہ اسرائیل۔متحدہ عرب امارات بحرین سوڈان اور مراکش کے درمیان سفارتی تعلقات کی بہتری کے لئے سازگار فضا بنانے کا موساد کی جانب سے عملی قدم ہے جس میں پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کو شامل کرنا بھی اسرائیلیوں کی ذہنی اختراع ہے۔ سعودی عرب نے باضابطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم تو نہیں کیا لیکن ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کی رو سے اسرائیلی مصنوعات پر عائد پابندی بھی اٹھا لی ہے۔مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی اسرائیلی اثرو نفوذ جاری ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے اور کسی قسم کے سفارتی یا تجارتی تعلقات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ عالمی حالات کے پیش نظر پاکستان کو اپنی ترجیحات کا تعین ازسرنو کرنے کی اشد ضرورت ہے۔قوم کے جذبات اور ہیجان خیزی کے علاوہ کشمیر کے مقدمے کو زک پہنچنے کا احتمال تو نہیں!یا الفاظ دیگر کشمیر کے لئے عالمی حمایت روز بروز معدوم پڑتی جا رہی ہے اس اہم مسئلہ کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے یا بات صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہے گی۔پاکستانی تو غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیلی جارحیت کی فوری مذمت کرتا ہے کیا اسلامی امہ کشمیریوں کے لئے آواز بلند کرتے ہیں!پاکستان میں حکومتی اور حزب اختلاف جماعتیں اور ان کی قیادت تصویروں اور بیانات کے حوالے سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف عمل ہیں۔ کیا ہمیں ایک قومی اور واضح موقف پر یکجا ہونے کی ضرورت نہیں؟مستقبل کے فلسطین کی تصویر اب صاف نظر آ رہی ہے۔اندریں حالات اس بساط پر بکھرے مہروں کی چالوں کو سمجھنا پاکستان کے لئے ازحد ضروری ہے!بصورت دیگر موساد کی عیاریاں مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔